تخت کاغذ پہ ہوا صدر نشین شاہ قلم
وقت رفتار ہے زر ریز عجب فیض قدم
تا کہ جا کو تہی ایدست ہوس کر جیوٹ
شب دو شنبہ جولی خواب میں میں نے کروٹ
فصل گل آئی ہوا گلزار جنت بوستان
قصیدہ دیگر
ششجہت میں ہے جو یہ خورشید یکتاے جہان
مطلع ثانی
تیری مرضی کے موافق کیوں نہو دور جہاں
مطلع ثالث
مژدہ اے اہل تماشا کہ ہے ہنگام نظر
قصیدۂ مدحیہ مشتملبر مناظرۂ شانہ وآئینہ
حکم اس کا جو کرے پیش حفاظت کی سیر
ہوا جو شاہد ماہ آسمان پہ جلوہ فروش
قصیدہ مشتملبر تقریر بطرز تازہ وروش دلپزیر
شپاہ اشک کی آنکھون نے کی ہے تیاری
قصیدہ مشتملبر مضامین تعزیت
یہ تیرے عہد میں رائج ہوئی سبکساری
قصیدہ در مدح جناب مستطاب معلی القاب آیۂ رحمت ولی نعمت دام اقبالہ
عالم خوابمین پہونچا میں عجب باغ میں کل
عدل کا تیرے زمانے میں یہ بیٹھا ہے عمل
کچھ غم نہیں جو پیش ہے دفتر قصور کا
نام عاصی داخل فرد شفاعت ہوگیا
نہیں سودا فقط یوسف کو اسکے دور دامان کا
اگر درکار ہے رنگین تمھیں تکملہ گریبان کا
جنون ہے مجھ کو اک پردہ نشیں کے دور داماں کا
دکھانا چاہیے کچھ بانکپن سوداے مژگاں کا
ہم سے بگڑکے غیر کا تو یار ہو چکا
واعظو حشر کا ہر مرتبہ چرچا کیسا
پوچھا نہ جائے گا جو وطن سے نکل گیا
وعدہ نہیں ہے حشر کے دن کس سے دید کا
آئے جسے ہو شوق تجلی کی دید کا
مجھ کو محب سمجھ کے حسین شہید کا
اللہ رے مکر صاحب نجل شدید کا
ہے دل کو شوق اس بت قاتل کی دید کا
خط عارض نے دل اہل رقم توڑ دیا
بیگانہ ہو کے سارے جہاں سے جدا ہوا
جلانا چاہتی ہے جب کسی سر سبز گلشن کا
کھڑا ہوتا ہوں رستہ روک کر اس شوخ پر فن کا
غبار اس کے لب بام تک بلند ہوا
سیر اگر میرے سیہ خانے کی موسیٰ کرتا
نکالیں گے شمشیر بر ان حوصلہ دل کا
تری گردن پہ ہو گا خون حسر تہاے بسمل کا
اسکی چلمن سے نہ عاشق کو جدا رہنا تھا
الفت گیسو بلا تھی مرگیا پھنسکر امیرؔ
کچھ نہ پوچھو دلربا مجھ سے جدا کیو نکر ہوا
ظالمون کو بھی ہوا ماتم ترے نخچیر کا
جو ہر کی طرح سے بسمل لپٹ گیا
امیر لاکھ ادھر سے ادھر زمانہ ہوا
کس تزک سے دھیان آیا اس رخ پر نور کا
کیا تڑپ رکھتا ہے شعلہ عارض پر نور کا
جب سے باندھا ہے تصور اس رخ پر نور کا
یارب شب وصال یہ کیسا گجر بجا
ہوا یہ جوش شب ہجر دیدۂ ترکا
یہ رفتہ رفتہ ضعف سے احوال تن ہوا
وہ مست ہوں نصیب مجھے تب کفن ہوا
سورنگ سے میں سمت بہار چمن ہوا
مر کر علو قدر سے عریان بدن ہوا
بے یار ابر میں میں دل افگار ہوگیا
دل مرا کشتہ ہے یارب کس شہادت گاہ کا
آنسو زمین پہ آتے ہی تغیر ہوگیا
حسن اس شوکت پہ مجرائی ہے اس درگاہ کا
نورو حدت سے یہ عالم ہے دل اگاہ کا
ہمچشم ابر کیوں مژہ تر سے ہوگیا
وصل کی شب بھی خفا وہ بت مغرور رہا
آسرا زیر زمیں اے تن بیجان کسکا
دور اگلے شعرا کا تھا کبھی اور امیرؔ
جب تلک ہست تھی دشوار تھا پانا تیرا
گلہ زبان پہ نہ لانا تھا بے وفائی کا
کیا تھا کس سے گلہ میں نے کج ادا ئی کا
نہ بیوفائی کا ڈر تھا نہ غم جدائی کا
ظاہر یہ اتحاد سے رنگ اثر ہوا
تنگی دل سے تری فرقت میں ایسا جبر تھا
دلین جب مہمان خیال زلف جانان ہوگیا
اوج دولت اس پری کا سوز ہجران ہوگیا
گل نیا ہر ایک نقش پاسے خندان ہوگیا
بے نشانی کا میں اسے چرخ سزادار نہ تھا
سارے جہاں کا رنج مرے دل میں آگیا
بندہ نواز یوں پہ خداے کریم تھا
وہ دن گئے کہ مجھ میں بھی فیض عمیم تھا
دل اپنا زیر سایۂ امید وبیم تھا
ہر جگہ جوش محبت کا نیا عالم ہوا
ہو نمین وہ غم دوست جب غم نے کمی کی غم ہوا
وہ کون تھا جو خرابات میں خراب نہ تھا
کہا جو میں نے کہ یوسف کو یہ حجاب نہ تھا
نامہ لیکر جو کوئی کوئے بتان سے آیا
مثل موسیٰ سامنے میرے جو تو ہو جائیگا
اک جہاں بسمل ترا اے تند خو ہو جائیگا
یہی جو سودا ہے مجھ خریں کا پتا کہاں کوئے ناز نین کا
ہوا جو پیوند میں زمیں کا تول دل ہوا شاد مجھ خرمن کا
ردیف باے موحدہ
سیکھ کر مجھ نالہ کش سے طرز افغان عندلیب
کیا ہنسی ہے گریۂ عشاق مضطر کا جواب
ہے خموشی ظلم چرخ دیو پیکر جواب
پلا ساقیا ارغوانی شراب
لائیگا رنگ خون دل داغدار کب
کیوں نہ کھٹکے مجھے جو خار ہے برہم زن دوست
ردیف تاء فوقانیہ
ایک ہے میرے حضر اور سفر کی صورت
بات کرنے میں تو جاتی ہے ملاقات کی رات
بڑھ کے کچھ کعبے سے بھی ہے عروشان کوئے دوست
گریہ بے سود ہے نالے دل نا شاد عبث
ردیف ثائے مثلثہ
ردیف جیم
ردیف جیم
گلگشت کر رہا ہے جو وہ گلعذار آج
گلگشت کر رہا ہے جو وہ گلعذار آج
آنے سے تیرے پاس ہوئی مجھ کو یار آج
جلے تمھارے رخ آتشین سے دامن موج
آزماؤ دل کو صاحب آزمانے کی طرح
دینار کی نہ ہمکو درم کی ہے احتیاج
ردیف حاے حطی
جسدن وہ رشک مہر مجھے منھ دکھائے صبح
کیا کیا جلا ہے دیکھ کے رنگ شراب سرخ
ردیف خاے معجمہ
کون اٹھائے گا تمھاری یہ جفا میرے بعد
ردیف دال مہملہ
موت پھر جاتی ہے آنکھوں میں اگر آتی ہے نیند
آفت ہے یوں جہاں میں اہل ہوس کے گرد
چشم موسیٰ کو رہے برق سر طور پسند
خنجر قاتل نکر اتنا روانی پر گھمنڈ
ردیف دال مہملہ
پہونچا نہیں کوے بت دلخواہ میں قاصد
ردیف دال مہملہ
کیا رو کے قضا کے وار تعویذ
چوٹی میں اگر ہے یار تعویذ
ردیف راے مہملہ
دل پرداغ کا مسکن نہیں ہے اسکے گیسو پر
فقط کہتا نہیں میں شعراس مصراع گیسو پر
کیا قصد جب کچھ کہوں ان کو جل کر
دکھائی ادا طرفہ ظالم نے چل کر
نہ جاتا تھا اس تک کبوتر دہل کر
موج وحشت نے ہزاروں کو
تیغ قاتل بھی نہیں چلتی کبھی مجھ زار پر
لڑتے ہیں عشاق کیا کیا ابروے خمدار پر
ہو اگر ناز سے بزم میں رقصاں جھک کر
دل کو رہتی ہے جو ریادروے جاناں راب پھر
زار ایسا میں ہوا باد یہ پیما ہوکر
کبھی تو بھول کے رکھدے قدم مرے سرپر
وہ ناتوان ہوں جو لیتا کبھی میں بستر پر
سنا کسی سے جو نام دوائے درد جگر
جلتا ہے دل فراق میں کیونکر خوش آئے ابر
اسی بتولازم ہے چشم لطف دولت خواہ پر
کون وحشت کا ہوا سلسلۂ جنبان چل کر
طرفہ دولت کا نشان زلف رسا ہے سر پر
ٰٓاور بھی تیر لگا دل پہ مری جان دو چار
تمھیں کو جانا تمھیں کو سمجھے تمام عالم سے تنگ ہوکر
نہ کور باطن ہوا ہے برہمن ذرا تو چشم تمیزواکر
ردیف راے ثقیلہ
منھ پھر نہ کر وطن کی طرف یوں وطن کو چھوڑ
ہوا سوا ہمکو جوش وحشت چمن میں روز بہار جاکر
کیا ہوش رباہیں تری تلوار کے انداز
ردیف سین مہملہ
جاتا ہوں اس لیے صنم بیوفا کے پاس
ہے یہ تیری کا کل پیچان دراز
آئیں پہن پہن کے نئے گلبدن لباس
بیتاب ہجر یار میں اپنا جگر ہے دل کے پاس
رہی جو یونہیں مرے پیک آہ کی گردش
ردیف شین معجمہ
حیوان کو بھی ہے وصل کی اوقات کی تلاش
دل کو ہے زلف سیہ فام کی حرص
ردیف صا مہملہ
سیدھی نگاہ میں ہیں ترے تیر کے خواص
ردیف ضاد معجمہ
مکان سے ہے نہ کچھ ہمکو لا مکان سے غرض
جلائے دل عاشقوں کے کیونکر نہ وقت نظارہ تاب عارض
آیا ہے بندھ کے تیر میں مجھ کو ادھر سے خط
ردیف طاء حطی
جان بزم مے ومعشوق غنیمت واعظ
ردیف ظائے معجمہ
صبح کے وقت صبوحی کی مذمت واعظ
چپ بھی ہو بک رہا ہے کیا واعظ
ردیف عین مہملہ
پیش رخ پر نور ہے ہر دم سفری شمع
میرے دل میں نہیں ہیں ارماں جمع!
دیکھنا ہمدم یہ بجلی ہے جو چمکائی ہے تیغ
ردیف غین معجمہ
تیرے آگے کیا حسینو کا جلے مہ رو چراغ
نہ آئے شب کو میسر آگر نہ آئے چراغ
زلفیں آئی ہیں لٹک کر روے جاناں کی طرف
ردیف فا
شوخیاں کہتی ہیں ہم ہیں اسکی چتون کی طرف
کیونکر نہ مرغ دل ہو ہمارا شکار زلف
ردیف قاف
ہیں تری زلف رسا کے عاشق
ہیں نہ زندوں میں نہ مردو ں میں کمرکے عاشق
جادۂ راہ عدم ہی رہ کا شانۂ عشق
ردیف کاف تازی
جلد آجاؤ کہ ہیں گور کنارے مشتاق
آئی جو کھل کے زلف ساسر سے پانوں تک
کروں ضبط نفس ہمدم کہاں تک
سنتا نہیں وہ دل سے کبھی داستان دل
مرے ہر عضو کو ہے اس بت خونخوار سے لاگ
ردیف لام 164
ردیف کاف فارسی
داغوں سے گلرخوں کے دو بالا ہے شان دل
گل وہ رخ نازک ہے پسینا عرق گل
پر تو رخ سے ترے ہی جو منور محفل
فرقت یار میں ماتم کدہ ہے ہر محفل
جب یار ہوا جفا کے قابل
اے دل مجھے پیش جہلا بات سے حاصل
ردیف میم
مواکہ زندہ رہا نامہ برنہیں معلوم
ہوئے چورنگ وصل یار میں ہم
تیرے جور ستم اٹھائیں ہم
ہوں زاراسقدر کہ تری جلوہ گاہ میں
کیا دیر ہے امیر کے عفو گناہ میں
ردیف نون
کس کام کی ہے آنکھ تری جلوہ گاہ میں
وہ تو سنتا ہی نہیں ہے داد خواہی کیاکروں
گلے میں ہاتھ تھے شب اس پر ہی سے راہیں تھیں
جب کبھی اسکو نئی شان سے ہم دیکھتے ہیں
تیغ جلاد کو ارمان سے ہم دیکھتے ہیں
بخت سیہ سے گوکہ گلیم گدا ہوں میں
دامن سے لوگ اسکے اکثر لگے ہوئے ہیں
جب خوبرو چھپاتے ہیں عارض نقاب میں
راحت کہاں ہے اسکو جو ہے پیچ وتاب میں
خنجر بکف جو اپنے قاتل کو دیکھتے ہیں
تصور ایک بحر حسن کا یوں ہے مرے دل میں
شمشیر ہے سناں ہے کسے دوں کسے ندوں
کسی زہرہ شمائل کا تصور ہے مرے دل میں
بے حجابانہ اگر وہ لب آب آتے ہیں
عینک ہوں خواہ آئینہ اے رشک ماہ ہوں
خیال لب میں ابرو دیدہ ہائے تر برستے ہیں
عروس مرگ پر جو دل نثار کرتے ہیں
کیوں نہ موسیٰ کو خطر ہو شوق برق طور میں
پھکتے ہیں اعضایہ گرمی ہے تن محرور میں
ہٹاؤ آئینہ امید وار ہم بھی ہیں
چار ابر وہیں ترے حسن میں بہتر چاروں
سخت دل لپٹا ہے ناحق آہ بے تاثیر میں
ہے یہ بیمہری کا چرچا دور چرخ پیر میں
عاشقوں سے ہے ترقی حسن کی تنویر میں
وطن کی یاد ہے لیل ونہار غربت میں
تڑپا میں جو آنکھوں کو پسند آگئیں آنکھیں
گم گشتہ دل کی تاب کی جا جستجو کریں
مجروحون پر جو چشم کرم جنگجو کریں
شہرے وجو دور دور ہماری فغان کے ہیں
یہ چرچے یہ صحبت یہ عالم کہاں
دل وجگر دونوں جل گئے ہیں ذرا نگاہیں جہاں ملی ہیں
نہاں رہتا ہے آئینے سے وہ بیگانہ خوبرسوں
رہے تصویر حیرانی ہم انکے رو برو برسوں
بے حجابانہ مرے گھر جو وہ آجاتے ہیں
میں الفت کے وہ حسن کے جوش میں
میکش کے دل کے راز کسی پر عیاں نہیں
کس طرح موت کو آسان نہ وہ بسمل سمجھیں
مرتبہ تیغ ادا کا وہی بسمل سمجھیں
دامن رحمت اگر آیا ہمارے ہاتھ میں
کھائی شکست گل نے اس گل سے یہ چمن میں
سمجھا یہ میں جو نکلے شاخوں سے کل چمن میں
ہم جو مست شراب ہوتے ہیں
کچھ خار ہی نہیں مرے دامن کے یار میں
بے نشانی تو گذر خلد کے گلشن میں نہیں
چھت کے بھی قید ہوں قوت جو مرے تن میں نہیں
موے مرگاں سے ترے سیکڑوں مر جاتے ہیں
مرے مرقد کو ٹھکرانے قیامت بنکے آتے ہیں
مے پیں کیا کہ کچھ فضا ہی نہیں
کباب سیخ ہیں ہم کروٹیں ہر سو بدلتے ہیں
گوکہ دیکھے خواب اچھے سب نے تعبیر یں کہیں
تمام تن میں ہیں چھالے اگر چہ زار ہوں میں
کرم کہ تیرے کرم کا امید وار ہوں میں
ردیف واؤ
ٹھوکر یں کھاتا ہے سر ہر گام پر رفتار میں
صورت غنچہ کہاں تاب تکلم مجھ کو
لے گئی کل ہوس مے جو سر خم مجھ کو
قطرۂ مے نے کیا ہوش صفت گم مجھ کو
پہلے تم اپنی چتوں اپنی نظر کو دیکھو
اشک سان خبیش مژگاں نے کیا گم مجھ کو
گلے کٹیں گے نہ یوں پیترے بدل کے چلو
آہ میں کھینچوں تو کھینچیں آپ بھی شمشیر کو
گھر گھر تجلیاں ہیں طلبگار بھی تو ہو
وہ حسن کیا ہے حسن جو خاطر نشیں نہ ہو
یاد زلف آئی دم نزع ستانے ہم کو
آج محفل سے تم آئے ہو اٹھانے ہم کو
ہوں وہ بلبل گل تلک پہونچوں تو گلشن خشک ہو
پیچ پر پیچ دیے زلف دو تانے ہم کو
چھوڑ و نہیں اے بتو حیا کو
وصال پر ہے جو وصل امتحاں کر دیکھو
دل ہے وابستہ کسی زلف ساسے کچھ ہو
حشر کے روز نہو تشنہ دہانی مجھ کو
چل دلادیر سے کرتا ہے اشارے گیسو
ہوں میں وہ میکش اٹھا ساقی مری تعظیم کو
بن کے حضر آیا ہے واعظ کیا مری تعلیم کو
انساں عزیز خاطر اہل جہاں نہ ہو
میرے پہلو میں جو دیکھا خنجر جلاد کو
غربت میں وطن یاد دلاتی نہیں مجھ کو
پہلے تو مجھے کہا نکا لو
پردے میں بھی منھ موت دکھاتی نہیں مجھ کو
ردیف ہاے ہوز
آیا نہ مرکے بھی شجر قدیار ہاتھ
اے ضبط دیکھ عشق کی انکو خبر نہ ہو
دل جو سینے میں زار ساہے کچھ
انس رکھتا ہے بہت نالۂ شبگیر کے ساتھ
بڑھ کے تصویر سے لاغر ترا حیران ہو کچھ
رند مشرب ہم ہوئے دست سبو پر دھرکے ہاتھ
ردیف یاے تحتانی
زیور سے بڑھ کے تجھ کو تری چال ہوگئی
چاہتا ہم کو تو اس کا چاہیے
مشکل آسان نہ ہوئی تیرے گنہگاروں کی
میں رو کے آہ کرونگا جہاں رہے نہ رہے
سیر منظور ہے اس ماہ کو بازاروں کی
زمانہ ہوگیا مدہوش چشم مست دلبر سے
ہوئیں پر نور آنکھیں جلوۂ رخسار دلبر سے
پھولوں میں اگر ہے بو تمھاری
جو ہے بہاراسکو خزان کا خطر بھی ہے
عمر رواں کو جان کوئی موج آب کی
وہ چاٹ دون کرے نہ مست شراب کی
مانگا جو یوسہ آنکھ دکھائی عتاب کی
چمکی یہ روے یار سے قسمت نقاب کی
حالت لکھی ہے رو کے اسے اضطراب کی
ہم غش میں اسکا روزن دیوار بند ہے
دم بھر بھی دم اب انکے گنہگار لے چکے
ایک پوشیدہ کمر یار نے کیا رکھی ہے
ہو سرد آگ عشق کی کیونکر لگی ہوئی
خوشخرامی پہ جو اس بت کی طبعیت آئی
نگہ ناز کام کرتی ہے
بہار آئی عجب حالت ہے ان روزوں میرے دل کی
لہو کیسا کہ صورت تک نہیں دیکھی ہے بسمل کی
شکوہ جو کیا درد کا تلوار نکالی
نہ حور پر نہ پری پر نگاہ پڑتی ہے
کیوں نہ وہ صیاد کسی صیدپہ تو سن ڈالے
درد پہلو کی یہ شدت ہے کہ رنگت فق ہے
یہاں تک مجھ کو ہنگام خوشی ہے آرزو غم کی
نہاں اسکو ہمیشہ کرتی ہے بالید گی غم کی
مجھ سست کومے کی بو بہت ہے
ہمراہ غیر بادہ جو وہ تند خو پیے
ابروے یار نہ بھولے کبھی دل شاد رہے
ایک دل ہجر میں کس کس کے یہ ناشاد رہے
دل کو طرز نگہ یار جتاتے آئے
ہم اگر قتل ہوئے خیر یہ تقدیر اپنی
تیرے افشان کا اگر ذرہ زمیں پر گر پڑے
اب تو یہ معرکہ عشق میں مجھ کو جھک ہے
جب تک وہ پلک بر سر بیداد نہ آئی
مقام وجد ہے اے دل کہ بزم یار میں آئے
ہم اور معرکۂ امتحان سے ٹل جاتے
خیال زلف وعارض میں قضا کی
ترا کیا کام اب دل میں غم جانا نہ آتا ہے
جتنے کہ تیر ترکش دلبر میں رہ گئے
داغ اقربا کے سینۂ سوزان میں رہ گئے
بتوں سے نرد وہ جاکر مکان پر کھیلے
تمود خط بھی اے حسن یار باقی ہے
بہار عمر سے دل یاد گار باقی ہے
تیغ قاتل پہ ادا لوٹ گئی
عشق بتاں سے ہاتھ نہ مر کر آٹھائیے
جنت میں روح جسم ہے نیچے مزار کے
سب جلو میں آپ کے آتے ہیں اٹھتے بیٹھتے
تیغ قاتل کی چمک آنکھوں میں پھر جاتی ہے
توڑ کر پہلو جو چل نکلا دل نخچیر سے
اے گل تر تیرے جذب حسن کی تاثیر سے
کیا لب معشوق ہو کر جان لی نخچیر سے
قطع ہو راہ سفر کوچۂ قاتل آئے
رو برو دل جو ہمارا سر محفل آئے
تارک ہستی سے اسکا استاں نزدیک ہے
کہا ہم نے جو دل کا درد تم اسکو گلا سمجھے
وعدۂ وصل اور وہ کچھ بات ہے
گر جگھ دل میں نہیں پھر اس سے کیا
کشور دل میں ہو پریوں کے بھی شاہی تیری
ہر گنہگار کو ہے آس الٰہی تیری
گذر کو ہے بہت اوقات تھوڑی
پژ مردہ گل ہوئے ترے گالوں کے سامنے
خورشید چمکے کیا ترے گالوں کے سامنے
قبلۂ دل کعبۂ جاں اور ہے
نہیں امید جو اس بیوفا کے آنے کی
ساقیا درد مے صاف نہیں بیٹھ گئی
آنسوؤں سے نہ فقط گرد زمیں بیٹھ گئی
جان تن سے جو تڑپ کر شب فرقت نکلی
شب وصل کیا مختصر ہوگئی
لذت جو ملی مرے لہو کی
کیسی ارنی کہاں کے موسی
بیعت پیر مغاں طرفہ مزا دیتی ہے
سوچ لے بد عہد وقت انکار کے
آئی بالیں پر جو مجھ بیمار کے
ہر اک عضو بدن پر داغ عشق یار جانی ہے
جو بحر عشق میں ہے وہ آفت رسیدہ ہے
خدا نے شان یوسف سے تمھاری شان افضل کی
ہم اس کے عشق میں صبر وقرار کھو بیٹھے
مرااحوال کرسکتا نہیں ان سے بیاں کوئی
مدت ہوئی کہ جی مرا جینے سے سیر ہے
آج کیا کرتے ہو عمرے وصل میں ہر دم نئے
کبھی سمجھانہ آگے کیا ہم اس خود سر کو سمجھاتے
آنکھ اسکے حضور رورہی ہے
عشق میں جینے کے بھی لالے پڑے
طرفہ پیغام یہ الفت کی نظر کہتی ہے
باندھی جو روز حشر ہوا ہم نے آہ کی
آنکھ مجھ سے دل ملے اغیار سے
کیجئے قتل ابروے خمدار سے
صلح کل میں ہے ابھی شرکت کیں تھوڑی سی
پائی راحت جو تہ خنجر کیں تھوڑی سی
جو بعد مرگ مرے دل میں کچھ غبار آئے
بدوقت بحر غم سے کشتی جان حزیں نکلی
کون بیماری میں آتا ہے عیادت کرنے
دل عاشق میں کیونکر عکس دے دلربا ٹھہرے
رنگ خراب تیرا وہ مے پیے ہوے ہے
فنا کیسی بقا کیسی جب اس کے آشنا ٹھہرے
سوز جگر سے شمع شبستاں بغل میں ہے
گرد باد اٹھ کے سر اپردۂ کسکا ہے
دیر میں کون ہے کعبے میں گذر کسکا ہے
جہاں میں یوں ہیں جو دو روز انقلاب رہے
خدا نے مجھ کو سلیقہ عطا کیا ہے بہت
بڑھے کیا ربط یار دلستاں سے
ایک دن یاد کرے گا عم دلدار مجھے
خلعت روزازل بے سرو سامانی ہے
صحت ہوئی مرض سے مگر نا تواں رہے
پوشیدہ خط سے جو ہر حسن بتاں رہے
لطف تب ہو کہ ادھر ہاتھ میں بوتل آئے
گلشن میں سرو فوج میں شل نشاں رہے
درد عارض ہو دوا کو تو مجھے کل آئے
کیا کیجئے وہ کہتے ہیں ہر بات پر غلط
مخزن الاخبار کو پایا جو مالا مال حسن
قطعہ تاریخ وفات مادر جناب منشی کرم احمد صاحب خیر آبادی
شکر ہے نواب کو صحت ہوئی
مژدہ اے طالبان شاہد عیش
شرف وان مہر کو ہے یاں عروج ماہ دولت ہے
در فراق ناظم معجز بیان یوسف لقا
آفتاب سپہر چشمت نے
کہاں ہیں مومن وغالب کہاں ہیں ذوق وبصیر
خاتمہ الطبع
تخت کاغذ پہ ہوا صدر نشین شاہ قلم
وقت رفتار ہے زر ریز عجب فیض قدم
تا کہ جا کو تہی ایدست ہوس کر جیوٹ
شب دو شنبہ جولی خواب میں میں نے کروٹ
فصل گل آئی ہوا گلزار جنت بوستان
قصیدہ دیگر
ششجہت میں ہے جو یہ خورشید یکتاے جہان
مطلع ثانی
تیری مرضی کے موافق کیوں نہو دور جہاں
مطلع ثالث
مژدہ اے اہل تماشا کہ ہے ہنگام نظر
قصیدۂ مدحیہ مشتملبر مناظرۂ شانہ وآئینہ
حکم اس کا جو کرے پیش حفاظت کی سیر
ہوا جو شاہد ماہ آسمان پہ جلوہ فروش
قصیدہ مشتملبر تقریر بطرز تازہ وروش دلپزیر
شپاہ اشک کی آنکھون نے کی ہے تیاری
قصیدہ مشتملبر مضامین تعزیت
یہ تیرے عہد میں رائج ہوئی سبکساری
قصیدہ در مدح جناب مستطاب معلی القاب آیۂ رحمت ولی نعمت دام اقبالہ
عالم خوابمین پہونچا میں عجب باغ میں کل
عدل کا تیرے زمانے میں یہ بیٹھا ہے عمل
کچھ غم نہیں جو پیش ہے دفتر قصور کا
نام عاصی داخل فرد شفاعت ہوگیا
نہیں سودا فقط یوسف کو اسکے دور دامان کا
اگر درکار ہے رنگین تمھیں تکملہ گریبان کا
جنون ہے مجھ کو اک پردہ نشیں کے دور داماں کا
دکھانا چاہیے کچھ بانکپن سوداے مژگاں کا
ہم سے بگڑکے غیر کا تو یار ہو چکا
واعظو حشر کا ہر مرتبہ چرچا کیسا
پوچھا نہ جائے گا جو وطن سے نکل گیا
وعدہ نہیں ہے حشر کے دن کس سے دید کا
آئے جسے ہو شوق تجلی کی دید کا
مجھ کو محب سمجھ کے حسین شہید کا
اللہ رے مکر صاحب نجل شدید کا
ہے دل کو شوق اس بت قاتل کی دید کا
خط عارض نے دل اہل رقم توڑ دیا
بیگانہ ہو کے سارے جہاں سے جدا ہوا
جلانا چاہتی ہے جب کسی سر سبز گلشن کا
کھڑا ہوتا ہوں رستہ روک کر اس شوخ پر فن کا
غبار اس کے لب بام تک بلند ہوا
سیر اگر میرے سیہ خانے کی موسیٰ کرتا
نکالیں گے شمشیر بر ان حوصلہ دل کا
تری گردن پہ ہو گا خون حسر تہاے بسمل کا
اسکی چلمن سے نہ عاشق کو جدا رہنا تھا
الفت گیسو بلا تھی مرگیا پھنسکر امیرؔ
کچھ نہ پوچھو دلربا مجھ سے جدا کیو نکر ہوا
ظالمون کو بھی ہوا ماتم ترے نخچیر کا
جو ہر کی طرح سے بسمل لپٹ گیا
امیر لاکھ ادھر سے ادھر زمانہ ہوا
کس تزک سے دھیان آیا اس رخ پر نور کا
کیا تڑپ رکھتا ہے شعلہ عارض پر نور کا
جب سے باندھا ہے تصور اس رخ پر نور کا
یارب شب وصال یہ کیسا گجر بجا
ہوا یہ جوش شب ہجر دیدۂ ترکا
یہ رفتہ رفتہ ضعف سے احوال تن ہوا
وہ مست ہوں نصیب مجھے تب کفن ہوا
سورنگ سے میں سمت بہار چمن ہوا
مر کر علو قدر سے عریان بدن ہوا
بے یار ابر میں میں دل افگار ہوگیا
دل مرا کشتہ ہے یارب کس شہادت گاہ کا
آنسو زمین پہ آتے ہی تغیر ہوگیا
حسن اس شوکت پہ مجرائی ہے اس درگاہ کا
نورو حدت سے یہ عالم ہے دل اگاہ کا
ہمچشم ابر کیوں مژہ تر سے ہوگیا
وصل کی شب بھی خفا وہ بت مغرور رہا
آسرا زیر زمیں اے تن بیجان کسکا
دور اگلے شعرا کا تھا کبھی اور امیرؔ
جب تلک ہست تھی دشوار تھا پانا تیرا
گلہ زبان پہ نہ لانا تھا بے وفائی کا
کیا تھا کس سے گلہ میں نے کج ادا ئی کا
نہ بیوفائی کا ڈر تھا نہ غم جدائی کا
ظاہر یہ اتحاد سے رنگ اثر ہوا
تنگی دل سے تری فرقت میں ایسا جبر تھا
دلین جب مہمان خیال زلف جانان ہوگیا
اوج دولت اس پری کا سوز ہجران ہوگیا
گل نیا ہر ایک نقش پاسے خندان ہوگیا
بے نشانی کا میں اسے چرخ سزادار نہ تھا
سارے جہاں کا رنج مرے دل میں آگیا
بندہ نواز یوں پہ خداے کریم تھا
وہ دن گئے کہ مجھ میں بھی فیض عمیم تھا
دل اپنا زیر سایۂ امید وبیم تھا
ہر جگہ جوش محبت کا نیا عالم ہوا
ہو نمین وہ غم دوست جب غم نے کمی کی غم ہوا
وہ کون تھا جو خرابات میں خراب نہ تھا
کہا جو میں نے کہ یوسف کو یہ حجاب نہ تھا
نامہ لیکر جو کوئی کوئے بتان سے آیا
مثل موسیٰ سامنے میرے جو تو ہو جائیگا
اک جہاں بسمل ترا اے تند خو ہو جائیگا
یہی جو سودا ہے مجھ خریں کا پتا کہاں کوئے ناز نین کا
ہوا جو پیوند میں زمیں کا تول دل ہوا شاد مجھ خرمن کا
ردیف باے موحدہ
سیکھ کر مجھ نالہ کش سے طرز افغان عندلیب
کیا ہنسی ہے گریۂ عشاق مضطر کا جواب
ہے خموشی ظلم چرخ دیو پیکر جواب
پلا ساقیا ارغوانی شراب
لائیگا رنگ خون دل داغدار کب
کیوں نہ کھٹکے مجھے جو خار ہے برہم زن دوست
ردیف تاء فوقانیہ
ایک ہے میرے حضر اور سفر کی صورت
بات کرنے میں تو جاتی ہے ملاقات کی رات
بڑھ کے کچھ کعبے سے بھی ہے عروشان کوئے دوست
گریہ بے سود ہے نالے دل نا شاد عبث
ردیف ثائے مثلثہ
ردیف جیم
ردیف جیم
گلگشت کر رہا ہے جو وہ گلعذار آج
گلگشت کر رہا ہے جو وہ گلعذار آج
آنے سے تیرے پاس ہوئی مجھ کو یار آج
جلے تمھارے رخ آتشین سے دامن موج
آزماؤ دل کو صاحب آزمانے کی طرح
دینار کی نہ ہمکو درم کی ہے احتیاج
ردیف حاے حطی
جسدن وہ رشک مہر مجھے منھ دکھائے صبح
کیا کیا جلا ہے دیکھ کے رنگ شراب سرخ
ردیف خاے معجمہ
کون اٹھائے گا تمھاری یہ جفا میرے بعد
ردیف دال مہملہ
موت پھر جاتی ہے آنکھوں میں اگر آتی ہے نیند
آفت ہے یوں جہاں میں اہل ہوس کے گرد
چشم موسیٰ کو رہے برق سر طور پسند
خنجر قاتل نکر اتنا روانی پر گھمنڈ
ردیف دال مہملہ
پہونچا نہیں کوے بت دلخواہ میں قاصد
ردیف دال مہملہ
کیا رو کے قضا کے وار تعویذ
چوٹی میں اگر ہے یار تعویذ
ردیف راے مہملہ
دل پرداغ کا مسکن نہیں ہے اسکے گیسو پر
فقط کہتا نہیں میں شعراس مصراع گیسو پر
کیا قصد جب کچھ کہوں ان کو جل کر
دکھائی ادا طرفہ ظالم نے چل کر
نہ جاتا تھا اس تک کبوتر دہل کر
موج وحشت نے ہزاروں کو
تیغ قاتل بھی نہیں چلتی کبھی مجھ زار پر
لڑتے ہیں عشاق کیا کیا ابروے خمدار پر
ہو اگر ناز سے بزم میں رقصاں جھک کر
دل کو رہتی ہے جو ریادروے جاناں راب پھر
زار ایسا میں ہوا باد یہ پیما ہوکر
کبھی تو بھول کے رکھدے قدم مرے سرپر
وہ ناتوان ہوں جو لیتا کبھی میں بستر پر
سنا کسی سے جو نام دوائے درد جگر
جلتا ہے دل فراق میں کیونکر خوش آئے ابر
اسی بتولازم ہے چشم لطف دولت خواہ پر
کون وحشت کا ہوا سلسلۂ جنبان چل کر
طرفہ دولت کا نشان زلف رسا ہے سر پر
ٰٓاور بھی تیر لگا دل پہ مری جان دو چار
تمھیں کو جانا تمھیں کو سمجھے تمام عالم سے تنگ ہوکر
نہ کور باطن ہوا ہے برہمن ذرا تو چشم تمیزواکر
ردیف راے ثقیلہ
منھ پھر نہ کر وطن کی طرف یوں وطن کو چھوڑ
ہوا سوا ہمکو جوش وحشت چمن میں روز بہار جاکر
کیا ہوش رباہیں تری تلوار کے انداز
ردیف سین مہملہ
جاتا ہوں اس لیے صنم بیوفا کے پاس
ہے یہ تیری کا کل پیچان دراز
آئیں پہن پہن کے نئے گلبدن لباس
بیتاب ہجر یار میں اپنا جگر ہے دل کے پاس
رہی جو یونہیں مرے پیک آہ کی گردش
ردیف شین معجمہ
حیوان کو بھی ہے وصل کی اوقات کی تلاش
دل کو ہے زلف سیہ فام کی حرص
ردیف صا مہملہ
سیدھی نگاہ میں ہیں ترے تیر کے خواص
ردیف ضاد معجمہ
مکان سے ہے نہ کچھ ہمکو لا مکان سے غرض
جلائے دل عاشقوں کے کیونکر نہ وقت نظارہ تاب عارض
آیا ہے بندھ کے تیر میں مجھ کو ادھر سے خط
ردیف طاء حطی
جان بزم مے ومعشوق غنیمت واعظ
ردیف ظائے معجمہ
صبح کے وقت صبوحی کی مذمت واعظ
چپ بھی ہو بک رہا ہے کیا واعظ
ردیف عین مہملہ
پیش رخ پر نور ہے ہر دم سفری شمع
میرے دل میں نہیں ہیں ارماں جمع!
دیکھنا ہمدم یہ بجلی ہے جو چمکائی ہے تیغ
ردیف غین معجمہ
تیرے آگے کیا حسینو کا جلے مہ رو چراغ
نہ آئے شب کو میسر آگر نہ آئے چراغ
زلفیں آئی ہیں لٹک کر روے جاناں کی طرف
ردیف فا
شوخیاں کہتی ہیں ہم ہیں اسکی چتون کی طرف
کیونکر نہ مرغ دل ہو ہمارا شکار زلف
ردیف قاف
ہیں تری زلف رسا کے عاشق
ہیں نہ زندوں میں نہ مردو ں میں کمرکے عاشق
جادۂ راہ عدم ہی رہ کا شانۂ عشق
ردیف کاف تازی
جلد آجاؤ کہ ہیں گور کنارے مشتاق
آئی جو کھل کے زلف ساسر سے پانوں تک
کروں ضبط نفس ہمدم کہاں تک
سنتا نہیں وہ دل سے کبھی داستان دل
مرے ہر عضو کو ہے اس بت خونخوار سے لاگ
ردیف لام 164
ردیف کاف فارسی
داغوں سے گلرخوں کے دو بالا ہے شان دل
گل وہ رخ نازک ہے پسینا عرق گل
پر تو رخ سے ترے ہی جو منور محفل
فرقت یار میں ماتم کدہ ہے ہر محفل
جب یار ہوا جفا کے قابل
اے دل مجھے پیش جہلا بات سے حاصل
ردیف میم
مواکہ زندہ رہا نامہ برنہیں معلوم
ہوئے چورنگ وصل یار میں ہم
تیرے جور ستم اٹھائیں ہم
ہوں زاراسقدر کہ تری جلوہ گاہ میں
کیا دیر ہے امیر کے عفو گناہ میں
ردیف نون
کس کام کی ہے آنکھ تری جلوہ گاہ میں
وہ تو سنتا ہی نہیں ہے داد خواہی کیاکروں
گلے میں ہاتھ تھے شب اس پر ہی سے راہیں تھیں
جب کبھی اسکو نئی شان سے ہم دیکھتے ہیں
تیغ جلاد کو ارمان سے ہم دیکھتے ہیں
بخت سیہ سے گوکہ گلیم گدا ہوں میں
دامن سے لوگ اسکے اکثر لگے ہوئے ہیں
جب خوبرو چھپاتے ہیں عارض نقاب میں
راحت کہاں ہے اسکو جو ہے پیچ وتاب میں
خنجر بکف جو اپنے قاتل کو دیکھتے ہیں
تصور ایک بحر حسن کا یوں ہے مرے دل میں
شمشیر ہے سناں ہے کسے دوں کسے ندوں
کسی زہرہ شمائل کا تصور ہے مرے دل میں
بے حجابانہ اگر وہ لب آب آتے ہیں
عینک ہوں خواہ آئینہ اے رشک ماہ ہوں
خیال لب میں ابرو دیدہ ہائے تر برستے ہیں
عروس مرگ پر جو دل نثار کرتے ہیں
کیوں نہ موسیٰ کو خطر ہو شوق برق طور میں
پھکتے ہیں اعضایہ گرمی ہے تن محرور میں
ہٹاؤ آئینہ امید وار ہم بھی ہیں
چار ابر وہیں ترے حسن میں بہتر چاروں
سخت دل لپٹا ہے ناحق آہ بے تاثیر میں
ہے یہ بیمہری کا چرچا دور چرخ پیر میں
عاشقوں سے ہے ترقی حسن کی تنویر میں
وطن کی یاد ہے لیل ونہار غربت میں
تڑپا میں جو آنکھوں کو پسند آگئیں آنکھیں
گم گشتہ دل کی تاب کی جا جستجو کریں
مجروحون پر جو چشم کرم جنگجو کریں
شہرے وجو دور دور ہماری فغان کے ہیں
یہ چرچے یہ صحبت یہ عالم کہاں
دل وجگر دونوں جل گئے ہیں ذرا نگاہیں جہاں ملی ہیں
نہاں رہتا ہے آئینے سے وہ بیگانہ خوبرسوں
رہے تصویر حیرانی ہم انکے رو برو برسوں
بے حجابانہ مرے گھر جو وہ آجاتے ہیں
میں الفت کے وہ حسن کے جوش میں
میکش کے دل کے راز کسی پر عیاں نہیں
کس طرح موت کو آسان نہ وہ بسمل سمجھیں
مرتبہ تیغ ادا کا وہی بسمل سمجھیں
دامن رحمت اگر آیا ہمارے ہاتھ میں
کھائی شکست گل نے اس گل سے یہ چمن میں
سمجھا یہ میں جو نکلے شاخوں سے کل چمن میں
ہم جو مست شراب ہوتے ہیں
کچھ خار ہی نہیں مرے دامن کے یار میں
بے نشانی تو گذر خلد کے گلشن میں نہیں
چھت کے بھی قید ہوں قوت جو مرے تن میں نہیں
موے مرگاں سے ترے سیکڑوں مر جاتے ہیں
مرے مرقد کو ٹھکرانے قیامت بنکے آتے ہیں
مے پیں کیا کہ کچھ فضا ہی نہیں
کباب سیخ ہیں ہم کروٹیں ہر سو بدلتے ہیں
گوکہ دیکھے خواب اچھے سب نے تعبیر یں کہیں
تمام تن میں ہیں چھالے اگر چہ زار ہوں میں
کرم کہ تیرے کرم کا امید وار ہوں میں
ردیف واؤ
ٹھوکر یں کھاتا ہے سر ہر گام پر رفتار میں
صورت غنچہ کہاں تاب تکلم مجھ کو
لے گئی کل ہوس مے جو سر خم مجھ کو
قطرۂ مے نے کیا ہوش صفت گم مجھ کو
پہلے تم اپنی چتوں اپنی نظر کو دیکھو
اشک سان خبیش مژگاں نے کیا گم مجھ کو
گلے کٹیں گے نہ یوں پیترے بدل کے چلو
آہ میں کھینچوں تو کھینچیں آپ بھی شمشیر کو
گھر گھر تجلیاں ہیں طلبگار بھی تو ہو
وہ حسن کیا ہے حسن جو خاطر نشیں نہ ہو
یاد زلف آئی دم نزع ستانے ہم کو
آج محفل سے تم آئے ہو اٹھانے ہم کو
ہوں وہ بلبل گل تلک پہونچوں تو گلشن خشک ہو
پیچ پر پیچ دیے زلف دو تانے ہم کو
چھوڑ و نہیں اے بتو حیا کو
وصال پر ہے جو وصل امتحاں کر دیکھو
دل ہے وابستہ کسی زلف ساسے کچھ ہو
حشر کے روز نہو تشنہ دہانی مجھ کو
چل دلادیر سے کرتا ہے اشارے گیسو
ہوں میں وہ میکش اٹھا ساقی مری تعظیم کو
بن کے حضر آیا ہے واعظ کیا مری تعلیم کو
انساں عزیز خاطر اہل جہاں نہ ہو
میرے پہلو میں جو دیکھا خنجر جلاد کو
غربت میں وطن یاد دلاتی نہیں مجھ کو
پہلے تو مجھے کہا نکا لو
پردے میں بھی منھ موت دکھاتی نہیں مجھ کو
ردیف ہاے ہوز
آیا نہ مرکے بھی شجر قدیار ہاتھ
اے ضبط دیکھ عشق کی انکو خبر نہ ہو
دل جو سینے میں زار ساہے کچھ
انس رکھتا ہے بہت نالۂ شبگیر کے ساتھ
بڑھ کے تصویر سے لاغر ترا حیران ہو کچھ
رند مشرب ہم ہوئے دست سبو پر دھرکے ہاتھ
ردیف یاے تحتانی
زیور سے بڑھ کے تجھ کو تری چال ہوگئی
چاہتا ہم کو تو اس کا چاہیے
مشکل آسان نہ ہوئی تیرے گنہگاروں کی
میں رو کے آہ کرونگا جہاں رہے نہ رہے
سیر منظور ہے اس ماہ کو بازاروں کی
زمانہ ہوگیا مدہوش چشم مست دلبر سے
ہوئیں پر نور آنکھیں جلوۂ رخسار دلبر سے
پھولوں میں اگر ہے بو تمھاری
جو ہے بہاراسکو خزان کا خطر بھی ہے
عمر رواں کو جان کوئی موج آب کی
وہ چاٹ دون کرے نہ مست شراب کی
مانگا جو یوسہ آنکھ دکھائی عتاب کی
چمکی یہ روے یار سے قسمت نقاب کی
حالت لکھی ہے رو کے اسے اضطراب کی
ہم غش میں اسکا روزن دیوار بند ہے
دم بھر بھی دم اب انکے گنہگار لے چکے
ایک پوشیدہ کمر یار نے کیا رکھی ہے
ہو سرد آگ عشق کی کیونکر لگی ہوئی
خوشخرامی پہ جو اس بت کی طبعیت آئی
نگہ ناز کام کرتی ہے
بہار آئی عجب حالت ہے ان روزوں میرے دل کی
لہو کیسا کہ صورت تک نہیں دیکھی ہے بسمل کی
شکوہ جو کیا درد کا تلوار نکالی
نہ حور پر نہ پری پر نگاہ پڑتی ہے
کیوں نہ وہ صیاد کسی صیدپہ تو سن ڈالے
درد پہلو کی یہ شدت ہے کہ رنگت فق ہے
یہاں تک مجھ کو ہنگام خوشی ہے آرزو غم کی
نہاں اسکو ہمیشہ کرتی ہے بالید گی غم کی
مجھ سست کومے کی بو بہت ہے
ہمراہ غیر بادہ جو وہ تند خو پیے
ابروے یار نہ بھولے کبھی دل شاد رہے
ایک دل ہجر میں کس کس کے یہ ناشاد رہے
دل کو طرز نگہ یار جتاتے آئے
ہم اگر قتل ہوئے خیر یہ تقدیر اپنی
تیرے افشان کا اگر ذرہ زمیں پر گر پڑے
اب تو یہ معرکہ عشق میں مجھ کو جھک ہے
جب تک وہ پلک بر سر بیداد نہ آئی
مقام وجد ہے اے دل کہ بزم یار میں آئے
ہم اور معرکۂ امتحان سے ٹل جاتے
خیال زلف وعارض میں قضا کی
ترا کیا کام اب دل میں غم جانا نہ آتا ہے
جتنے کہ تیر ترکش دلبر میں رہ گئے
داغ اقربا کے سینۂ سوزان میں رہ گئے
بتوں سے نرد وہ جاکر مکان پر کھیلے
تمود خط بھی اے حسن یار باقی ہے
بہار عمر سے دل یاد گار باقی ہے
تیغ قاتل پہ ادا لوٹ گئی
عشق بتاں سے ہاتھ نہ مر کر آٹھائیے
جنت میں روح جسم ہے نیچے مزار کے
سب جلو میں آپ کے آتے ہیں اٹھتے بیٹھتے
تیغ قاتل کی چمک آنکھوں میں پھر جاتی ہے
توڑ کر پہلو جو چل نکلا دل نخچیر سے
اے گل تر تیرے جذب حسن کی تاثیر سے
کیا لب معشوق ہو کر جان لی نخچیر سے
قطع ہو راہ سفر کوچۂ قاتل آئے
رو برو دل جو ہمارا سر محفل آئے
تارک ہستی سے اسکا استاں نزدیک ہے
کہا ہم نے جو دل کا درد تم اسکو گلا سمجھے
وعدۂ وصل اور وہ کچھ بات ہے
گر جگھ دل میں نہیں پھر اس سے کیا
کشور دل میں ہو پریوں کے بھی شاہی تیری
ہر گنہگار کو ہے آس الٰہی تیری
گذر کو ہے بہت اوقات تھوڑی
پژ مردہ گل ہوئے ترے گالوں کے سامنے
خورشید چمکے کیا ترے گالوں کے سامنے
قبلۂ دل کعبۂ جاں اور ہے
نہیں امید جو اس بیوفا کے آنے کی
ساقیا درد مے صاف نہیں بیٹھ گئی
آنسوؤں سے نہ فقط گرد زمیں بیٹھ گئی
جان تن سے جو تڑپ کر شب فرقت نکلی
شب وصل کیا مختصر ہوگئی
لذت جو ملی مرے لہو کی
کیسی ارنی کہاں کے موسی
بیعت پیر مغاں طرفہ مزا دیتی ہے
سوچ لے بد عہد وقت انکار کے
آئی بالیں پر جو مجھ بیمار کے
ہر اک عضو بدن پر داغ عشق یار جانی ہے
جو بحر عشق میں ہے وہ آفت رسیدہ ہے
خدا نے شان یوسف سے تمھاری شان افضل کی
ہم اس کے عشق میں صبر وقرار کھو بیٹھے
مرااحوال کرسکتا نہیں ان سے بیاں کوئی
مدت ہوئی کہ جی مرا جینے سے سیر ہے
آج کیا کرتے ہو عمرے وصل میں ہر دم نئے
کبھی سمجھانہ آگے کیا ہم اس خود سر کو سمجھاتے
آنکھ اسکے حضور رورہی ہے
عشق میں جینے کے بھی لالے پڑے
طرفہ پیغام یہ الفت کی نظر کہتی ہے
باندھی جو روز حشر ہوا ہم نے آہ کی
آنکھ مجھ سے دل ملے اغیار سے
کیجئے قتل ابروے خمدار سے
صلح کل میں ہے ابھی شرکت کیں تھوڑی سی
پائی راحت جو تہ خنجر کیں تھوڑی سی
جو بعد مرگ مرے دل میں کچھ غبار آئے
بدوقت بحر غم سے کشتی جان حزیں نکلی
کون بیماری میں آتا ہے عیادت کرنے
دل عاشق میں کیونکر عکس دے دلربا ٹھہرے
رنگ خراب تیرا وہ مے پیے ہوے ہے
فنا کیسی بقا کیسی جب اس کے آشنا ٹھہرے
سوز جگر سے شمع شبستاں بغل میں ہے
گرد باد اٹھ کے سر اپردۂ کسکا ہے
دیر میں کون ہے کعبے میں گذر کسکا ہے
جہاں میں یوں ہیں جو دو روز انقلاب رہے
خدا نے مجھ کو سلیقہ عطا کیا ہے بہت
بڑھے کیا ربط یار دلستاں سے
ایک دن یاد کرے گا عم دلدار مجھے
خلعت روزازل بے سرو سامانی ہے
صحت ہوئی مرض سے مگر نا تواں رہے
پوشیدہ خط سے جو ہر حسن بتاں رہے
لطف تب ہو کہ ادھر ہاتھ میں بوتل آئے
گلشن میں سرو فوج میں شل نشاں رہے
درد عارض ہو دوا کو تو مجھے کل آئے
کیا کیجئے وہ کہتے ہیں ہر بات پر غلط
مخزن الاخبار کو پایا جو مالا مال حسن
قطعہ تاریخ وفات مادر جناب منشی کرم احمد صاحب خیر آبادی
شکر ہے نواب کو صحت ہوئی
مژدہ اے طالبان شاہد عیش
شرف وان مہر کو ہے یاں عروج ماہ دولت ہے
در فراق ناظم معجز بیان یوسف لقا
آفتاب سپہر چشمت نے
کہاں ہیں مومن وغالب کہاں ہیں ذوق وبصیر
خاتمہ الطبع
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.