طبع ثانی کا تعارف
مقدمہ دیوان جان صاحب
مقدمہ
ضمیمہ مقدمہ
شان میں اللہ کی مطلع ہو و دیوان کا
ردیف الف
چوری ہوئی پتا نہیں ملتا ہے مال کا
کہتی ہوں دل میں جب سے مجھے تو نظر پڑا
کیا منھ ہے منھ چڑائے کوئی اس زبان کا
وہ دل در گو ر ضیاں لے کبھی جو نام الفت کا
چال رسوائی کی لوگو یہ ہی اکثر چلتا
مجھ کو دے لا کر جو کچھ کیا منہ ہی اس کنگال کا
جان تک مجھ سے نہیں کرتے ہو پیاری مرنا
نیلا چلن تو اجی عمر بھر نہیں آتا
آرزو بندی کی خالق سے ہے اک دن میری سوت
خالق کے مہینے سے وہ خالا! نہیں رہتا
گئی تھی دیکھنے باجی میں سورج کنڈ کا میلا
ترا ہوا ہے چہرہ کل سے کمال تیرا
یہ دل مسوس کے چپ بھی نہیں رہا جاتا
ان کو لو روزی پورا سال ہوا
میں گری تو بھی گرا پانوں نہ تیرا ٹوٹا
مرے آگے نہ رو دکھڑا زناخی بار بار اپنا
جب سے سایہ ان کو جن کا ہوگیا
مرزا مزاج ااپ کا جب سے بدل گیا
لے کے دل ہوگیا بیگانہ نہ اپنا نکلا
جان صاحب آکے دل مجھ پر ترا کیا پھر گیا
ہلکا نہیں ہے بھاری یہ ہے ٹیم ٹام کا
اندھا پہن پہن کے مرا ہار کرو یا
مینہ کا برسنا اور وہ پینا شراب کا
پڑی ہیں سر میں جوئیں اب ایسی کہ زچ ہے جینے سے دل ہمارا
کھانا چرا کے خوب نہیں مال سے پان کا
چھوٹے دیور سے مرے پردا کیا
عشق جس دن سے کیا کیا کہوں کیا کیا بھولا
اے بوا پتھر کا دل ہے اس ہوئے بے پیر کا
پیسا تھا پاس رہتے تھے ہر آن آشنا
کرتا رہا وعدہ تو یوں ہے دھوکے دھڑی کا
دکھ نئے میں نے بھرے بھائی کو سکھپال ہوا
گھسواؤں اس موئے کو بھی عنبر کے ہاتھ سے
کس کا ہوا اور کس کا ہوگا
بچی جو مری موئی داماد بہت رویا
جو دل میں ہو وہ جورسے تدبیر نہ کہنا
کھلا جنگل میں آکے حال ان چڑیوں کے بچوں کا
ہمزہ سے بھی ذہین ہے بیٹا کریم کا
لچھمی یہ چار پیسے جو کوئی لگائے گا
یہ بدگماں ہے دل اس نگوڑے نٹ کھٹ کا
عجب زمانہ میں اندھیراب ہی بد ر جہاں
جو رو پہ جو چلتا ترا قابو نہیں اچھا
ہوئی ضعیف میں رنڈیا نہ وہ شباب رہا
گھر چھوڑ کر وہ نکلا کیا کامیاب ہوگا
ابکی سسرال سے میکے تو ہو جانا میرا
ٹیسوں کا بال بال پہ اب تھا نہ ہوگیا
سخت جنا ہے او ہے پائل کا
ردیف ب
کہہ مجھ سے صاف او موئے بے پیر آفتاب
میان سے باہر ہیں اندر کچھ نہیں اسباب اب
یہ نہیں خورشید کے چشمے میں آب وتاب اب
غیبت کی اوہی یہ کیا شیطان کیا غضب
ردیف ت
خدا نے دی ہے بے نام خدا کس شان کی صورت
ہے دوالی سے سوا آج کا دن آج کی رات
کہدی مہتاب نے مہرن سے ملاقات کی بات
میں گلا کر تی نہیں کرتی ہو تم شکواعبث
ردیف ث
خون اپنا یہ کیا یا قوت نے پنا عبث
ردیف ج
چنگیز خاں سے کم نہیں خونخوار کا مزاج
سوکن سے میری نکلی زمانے کی احتیاج
لگی ہو نوج مرے دشمنوں کی یار میں روح
بی کریما میر گل بھی ہیں الف خاں کی طرح
ردیف ح
بنو شیریں کی ہے کہانی تلخ
ردیف خ
تو دو پٹا اوڑھ کر نرگس ہوئی بیمار سرخ
فتنہ انگیز اور آفت شوخ
اگر سنے گا نہ کوئی مری یہاں فریاد
ردیف د
نوج ہوں آفتاب کی مانند
مونہہ پہ کیا پوچھنا یوسف سے بوامیرے بعد
اے میری اچھی دوا کیا ہوا میرا تعویذ
جب گھر میں آئے ڈھونڈ چکی بیشتر کمر
ردیف ر
ردیف ذ
مرجاؤں تو نہ آوے وہ بندی کی گور پر
گھر میں بولی نہ سڑن سمجھی سڑن سے باہر
آج جو وعدہ کیا تھا پھر گیا وہ پیر پر
رہ رہ کے غصے آتے ہیں باندی کی گھور پر
نماز پڑھ پڑھ کے تو گناہوں سے اپنے توبہ بوا کیا کر
ردیف ز
اک دل پہ غم کے لگتے ہیں پتھر ہزار روز
اس کی الفت پہ کروں اپنے میں قربان عزیز
گفتگو کرتے ہو کیا اپنے نمکخوار سے تیز
رکھا ہے جب سے سوگ دو گانانے یار کا
ماں کا لازم ہے تم کو باپ کا پاس
ردیف س
ماں سے ہم کو سوا ہے پیاری ساس
ردیف ش
دو دن سے دانا پانی موئے کو حرام ہے
تھا کچھ تو چور دل میں جو سوبار کی تلاش
گزرا دن تو نہ آئی پاس خواص
ردیف ص
مجھ کو خوش آتا نہیں تیرا دو گانا اخلاص
جان صاحب سے میں دل بنو لگاؤں کیا غرض
ردیف ض
ردیف ط
میں نے تو تجھ کو بھیجے الف خاں ہزار خط
ہے دلھن جان تجھے دو لہ سے بیکار لحاظ
ردیف ع
لوعشق کی ہے سر میں نہ کیوں ہونثار شمع
آنکھوں میں نو بہار کے شاید سمائے باغ
دیکھ روشن چل رہا ہے کس قدر اندھا چراغ
ردیف غ
آتی ہے اڑ کے آنکھ پہ جو بار بارزلف
ردیف ف
ردیف ق
یوسف کو چاہے جو ہو اسے پیرہن سے شوق
طور نے جھوٹوں کہا تجھ پہ ہوں بیگا عاشق
بدلا ہے یہ بدلا ہے عشق
لیں گے نہ میر موسیٰ میرا سلام کبتک
ردیف ک
بنو برسات میں سنگار کا رنگ
ردیف گ
ایک ایک رنگ میں اجی دو دو ہزار رنگ
ردیف ل
اے جان کام آئے اگر یہ تمہارے دل
بھائی یوسف ! گئی سودے کو جو بازارا صیل
کسی کے میں نہ کوئی میرے پیار کے قابل
مردوں کا میرا چولی ہی دامن کا ساتھ ہے
ہم بالوں میں بیلے کے پہنتے ہیں بہن پھول
ردیف م
ان مردو سے جیتے جی دبنے کے ہم نہیں
گیلی سوکھی دونوں جلتی ہیں بواسر کا ر میں
ردیف ن
اشرفی خانم! بہو کا کیا مری آیا قدم
برسوں بچی کو نہیں پیار کبھو کرتے ہیں
خالی دیلی ایک نہیں ہے جہاں میں
اکیلی جاؤ جو مسجد میں طاق بھرنے کو
جب شاد شاد آئے مرے تم مکان میں
وہ جس کو ڈولہ اب اے نو بہار لیتے ہیں
دال آٹے کا سنو بھاؤ ہی اس دم کھلتا
جو جو نہیں اٹھانی تھیں میں نے اٹھا لیاں
بیاہ خانم کا کروں گی نہ مںی زنہارکھیں
جی سے بھاتے ہیں مجھے باجی تمہارے ہاتھ پاؤں
بیاہ خانم کا تو کردینے کو تیار ہوں میں
چاہت تمہارے دل میں ہماری اگر نہیں
سوت جل ککڑی آگئی بل میں
رکھیں ہمسائی مرا مال چرا کے گھر میں
خورشید کے ہیں ٹوٹتے مہتاب ہاتھ پاؤں
پھلا پھولا آباد گھر دیکھتے ہیں
نہ کیں جو روسے تقریریں ہزاروں
اپنے رسوا تجھے خود کرتے ہیں بیگانوں میں
میں اری دولت قدم مشکی پہ کیا کوڑا کروں
کیا کلیلیں کریں یہ مررہے بیچارے ہیں
نگوڑے مردوئے کیا کیا گناہ کرتے ہیں
مری ہی جائی ہو تم مجھ سے عقلمند نہیں
دو چار نہیں من چکی دس طور کی باتیں
پسند باغ کی مالن سے حور کی باتیں
لونڈی ہوں بیچنے کے یہی میرے پیر ہیں
پہونچی ان تک بے قراری کی خبر برسات میں
غرض نہ ساس کی الفت نہ چاہ سے ہم کو
جانور تک گھونسلے کو لائے پر برسات میں
ردیف و
قید کرتے اوہی بے معمول ہو
اب نہ سوؤں گی تمھارے ساتھ اور کوسونگی یہ
نجاؤ تم پڑوچولھے میں بھیجومیرے بھائی کو
غلط باکل پڑھاتی ہے بڑی روٹی تو فتو کو
مہتاب کو بری نہ میاں آفتاب دو
بوا حرمت خدانے جیسی عصمت دی تھی مریم کو
دھمکاؤ کسی بودی کو تلوار دکھاؤ
لگا کیا ہے شیطان سمجھائے کوئی
ہے قیامت جاننا تیماء داری رات کو
تو خصم والی بنی سچ ہے اری ہاں اب تو
کیو ں نہ دیدوں کو کہوں نوح کی اولاد میں ہیں
رنڈدے کب تک رہوگے بھائی گھبرآباد کرو
دانوں پر ہر مرد چڑھتا ہے بڑی مشاق ہو
ردیف ہ
دربار چلے ہیں اجی زنہار نہ ٹوکو
جب چاہوں وہ احمق بنے الو سے زیادہ
گو آبرو مرزا کی ہے گنگو سے زیادہ
گوئیاں چھپا نہ عیب ہوا سب پر آئنہ
خوب گن سیکھے کو اری کھیل کر جشن کے ساتھ
باجی جائے گی نہ جوتی موئے ناشاد کے ساتھ
رانڈ ہو گور کا یا منہ اری مکن دیکھے
اب کہنے کو مانو گی نہ زنہار تمھارے
ردیف ی
کس گدھے بابو سے بنوا کے ہے لائی بجلی
جب نہ دو پیسے کمانے کی ہو تدبیر کوئی
ڈر لگے کیونکر نہ ان دونوں کو مجھ کو چال سے
ہوں کھرے کھوٹے نہ اس میں آئی ہیں ٹکساں سے
اجی وہ آندھی سے لڑنے کو ایک بار آئی
چوتھی کو تو صورت میں ذرا دیکھوں دولھن کی
دم مرا ناک میں ے ہاتھ سے نا شادوں کے
سر پہ باندی جو مرے آکے تو چلا تی ہے
دیا ہے کونسا میرا خزانہ بھر تونے
کہتی ہوں میں خدا سے یہ شام اور سویرے
کھلوانہ ٹھوکریں موئے دل در بدر مجھے
سوت کا پیٹ ہے یہ غم ٹھہرے
سرکار میں ہے گھر میں وہ بے پیر نہیں ہے
میری جوتی سے نوبہار گرے
محل میں آئے وہ میرے گئی گردش ستارے کی
ڈولا گئی سرکار میں ہمشیر تمہاری
دکھا یا رنگ زمانے نے اوہی کیا کیا ہے
جو میرے ڈالنے کی گھر میں جستجو کرتے
نوج تم پر کسی کا جی نکلے
روز پھر آتی ہے لونڈی مری جا کر خالی
چھوٹی خانم کے جو گھر بن کے غزل خواں پہنچے
اگر رہا ہے اپنے بیگانوں میں رسوا دل مجھے
کب کب آتے تھے جو مرزا مرے گھر آنے لگے
انگوٹھی تو یوں مفت پائی نہ ہوگی
بامن یہ مجھ سے کہتے ہیں پوتھی بچار کے
قاضی جی کس کتاب میں لکھا یہ حال ہے
کام چمپا سے نہ رکھتی ہوں نہ میں سوسن سے
کوئی بھی پوچھتا نہیں لچھمی یہ حال ہے
اس نناویں کی سدا نام سے پر ہیز کرو
نام پھر حاتم کا جاگا سوم خلقت ہوگئی
زبردستی لڑی مجھ سے پری خانم کو سودا ہے
ثریا جاہ عادل ہیں سراسر قدر دانی ہے
مرتے ہیں سب کے مرد یہ تاثیر ہوگئی
ٹسویے بہایے نہ مرے آکے سامنے
کس کس سے کہوں لوگو کہ چور آیا کدھر سے
جب آکے گھر میں وہ خانہ خراب رہتا ہے
بی ستارہ نے پہیلی کیا کہی نایاب ہے
مرنجاتا میلے سر تھی وہ رہی بیمار سے
جس کے تھی قبضے میں پھل پایا یہ اس خونخوار سے
اور کیا پھبتی کہوں بن آئے ہو لنگور سے
گھر میں مہتاب کے خورشید کہاں رہتا ہے
یوسف مرا گھر مصر کا بازار ہوا ہے
تمہارا دل اگر مجھ پر نہیں ہے
کھوؤں کیو ں حرمت میں اپنی دو کے پہر واسطے
کروں گی دھوم سے شادی نسبت تو ٹھہری ہے
دو گانا پی کے وہ مجھ سے مدام رہتا ہے
یہ بات سچ ہے جسے جس سے پیار ہوتا ہے
سنو شیریں عجب میٹھا نیا مضموں ہمارا ہے
خدا دیتا ہے ٹکڑانان نفقے کا سہارا ہے
خوب ہے شاد کیا اوئے ناشاد مجھے
چھو چھو کے واسطے نہ کھلائی کے واسطے
منڈیا میں کاٹوں کو ڑیا خانم کے یار کی
دم بدم جب وہ نابکار الجھے
خیر سے نکلو تم مرے گھر سے
گھر سے تجھ نحس کا قدم نکلے
دیوانی جا کے چھپ گئی کس کو ہ قاف میں
باجی گرمی میں جہنم سے سوا گرمی ہے
سوت کی بات کا معلوم جو پہلو ہو جائے
مرے جو حرف تھے قسمت کے وہ تحریر میں آئے
مردوئے کیوں ہوں میں تیری آشنا کے سامنے
ہر طرح آپ کی منظور مجھے خاطر ہے
کیا نا تا چھوڑے گاؤں کا در گور ہو چمار
آبرو تالاب پر لی وہ دیا چھینٹا مجھے
مہتاب در ی کل جو گئی بارہ دری سے
لگا کے آگ اک دن تیرے شر سے
ڈھونڈنے آپ کو بوبندی نہیں بیجا نکلی
میں اس چمن میں بند نہی ں اب ہزار سے
تمہارا مال ہے ہر وقت اختیار میں ہے
نوج گھر میرے وہ نامرد نگوڑآئے
خمسی
کچھ کھا کے سورہوں گی میں جندر گنواؤں گی
پلوٹھی کا جننا مصیبت نئی ہے
قرآن کا جامہ بھی اگر پہن کے آئیں
عشق کے نام سے میں تو کبھی آگاہ نہ تھی
واسوختی
جس پہ بیتی ہو یہ وہی جانے
مسدس پہلی رات کی کیفیت دولہن کی زبان سے
خمسی دیوالی
کھیلیں بتاسے اور کھلونے منگائیے
شہر آشوب
کم نہیں قاروں سے ہو ہر اک کی خصلت آج کل
پیڑوں کے پھول پھولوں کی دیکھنے سنگھاررنگ
خمسی
میں صدقے گئی آکے یہ قطعہ دیکھو
قطعہ تاریخ طبع زاد جان صاحب مصنف دیوان
پیٹ پر پیٹ گرا پیٹ نہ میرا ٹھہرا
ضمیمہ دیوان جان صاحب
ردیف ت 271
ہے ہی امام خاں کا رہا غم تمام شب
ردیف ب
اے صنم دیکھ تو اللہ کے گھر کی صورت
سکۂ داغ جگر اپنے ہیں پر کھائے بہت
وعدہ وصل کے دن ہجر میں ٹھہراے بہت
ردیف ج
وعدے جو کل کیے تھے وفا ہوں وہ یار آج
دل سے مژگاں کو ہے کاوش بت نے پیر عبث
ردیف ث
بد تمیزی چاہیے ہر گز نہ حیواں کی طرح
ردیف ح
مقتول جراحت کے سبب ہیں ہمہ تن سرخ
ردیف خ
ردیف
برق وش یار کی ہے زلف گرہ گیر پسند
ردیف ر
کھیلینگے بازوؤں پر جانؔ ادھر ادھر تعویذ
ردیف ذ
گلوری کھانے سے دونی ہوئی دہن کی بہار
ردیف ز
دشمن غم ہے شب ہجر گجر کی آواز
مائل ہے قتل پر نہیں جلاد کی ہوس
ردیف س
پایا نہ دل کو سینے میں سو بار کی تلاش
ردیف ش
ردیف ص
بڑھ کے ہر وحشی سے ہے وحشت کا اولیلےٰ خواص
گزری شب فراق اس آرام سے غرض
ردیف ض
ردیف ط
دل آئے پیچ میں جو ہو گیسوسے ارتباط
ردیف ظ
کرم کیا میں ہوا میرے مہرباں محظوظ
ردیف ع
نہ چار پھول نہ اک روز دو چڑھائے چراغ
ردیف غ
ہے ہر اک ہمدم عیاں درد نہانی وقت نزع
ردیف ف
غور سے دیکھا جو اس شیریں شمائل کی طرف
ردیف ق
عاشق سے دم وصل یہ شرماتے ہیں معشوق
ردیف ن
کسی رات تو ہو مہرباں زہرہ جبیں تو کہا اوہوں
چڑھی اترے گی تیوری بھی ماہ جبیں تو کہا کہ اوہوں تو کہا کہ اوہوں
ردیف ی عیدی
مری ذات سے طرز یہ ہے نئی
فرہنگ دیوان جان صاحب بہ ترتیب حروف تہجی
نظامی پریس بدایوں کی خاص مطبوعات
طبع ثانی کا تعارف
مقدمہ دیوان جان صاحب
مقدمہ
ضمیمہ مقدمہ
شان میں اللہ کی مطلع ہو و دیوان کا
ردیف الف
چوری ہوئی پتا نہیں ملتا ہے مال کا
کہتی ہوں دل میں جب سے مجھے تو نظر پڑا
کیا منھ ہے منھ چڑائے کوئی اس زبان کا
وہ دل در گو ر ضیاں لے کبھی جو نام الفت کا
چال رسوائی کی لوگو یہ ہی اکثر چلتا
مجھ کو دے لا کر جو کچھ کیا منہ ہی اس کنگال کا
جان تک مجھ سے نہیں کرتے ہو پیاری مرنا
نیلا چلن تو اجی عمر بھر نہیں آتا
آرزو بندی کی خالق سے ہے اک دن میری سوت
خالق کے مہینے سے وہ خالا! نہیں رہتا
گئی تھی دیکھنے باجی میں سورج کنڈ کا میلا
ترا ہوا ہے چہرہ کل سے کمال تیرا
یہ دل مسوس کے چپ بھی نہیں رہا جاتا
ان کو لو روزی پورا سال ہوا
میں گری تو بھی گرا پانوں نہ تیرا ٹوٹا
مرے آگے نہ رو دکھڑا زناخی بار بار اپنا
جب سے سایہ ان کو جن کا ہوگیا
مرزا مزاج ااپ کا جب سے بدل گیا
لے کے دل ہوگیا بیگانہ نہ اپنا نکلا
جان صاحب آکے دل مجھ پر ترا کیا پھر گیا
ہلکا نہیں ہے بھاری یہ ہے ٹیم ٹام کا
اندھا پہن پہن کے مرا ہار کرو یا
مینہ کا برسنا اور وہ پینا شراب کا
پڑی ہیں سر میں جوئیں اب ایسی کہ زچ ہے جینے سے دل ہمارا
کھانا چرا کے خوب نہیں مال سے پان کا
چھوٹے دیور سے مرے پردا کیا
عشق جس دن سے کیا کیا کہوں کیا کیا بھولا
اے بوا پتھر کا دل ہے اس ہوئے بے پیر کا
پیسا تھا پاس رہتے تھے ہر آن آشنا
کرتا رہا وعدہ تو یوں ہے دھوکے دھڑی کا
دکھ نئے میں نے بھرے بھائی کو سکھپال ہوا
گھسواؤں اس موئے کو بھی عنبر کے ہاتھ سے
کس کا ہوا اور کس کا ہوگا
بچی جو مری موئی داماد بہت رویا
جو دل میں ہو وہ جورسے تدبیر نہ کہنا
کھلا جنگل میں آکے حال ان چڑیوں کے بچوں کا
ہمزہ سے بھی ذہین ہے بیٹا کریم کا
لچھمی یہ چار پیسے جو کوئی لگائے گا
یہ بدگماں ہے دل اس نگوڑے نٹ کھٹ کا
عجب زمانہ میں اندھیراب ہی بد ر جہاں
جو رو پہ جو چلتا ترا قابو نہیں اچھا
ہوئی ضعیف میں رنڈیا نہ وہ شباب رہا
گھر چھوڑ کر وہ نکلا کیا کامیاب ہوگا
ابکی سسرال سے میکے تو ہو جانا میرا
ٹیسوں کا بال بال پہ اب تھا نہ ہوگیا
سخت جنا ہے او ہے پائل کا
ردیف ب
کہہ مجھ سے صاف او موئے بے پیر آفتاب
میان سے باہر ہیں اندر کچھ نہیں اسباب اب
یہ نہیں خورشید کے چشمے میں آب وتاب اب
غیبت کی اوہی یہ کیا شیطان کیا غضب
ردیف ت
خدا نے دی ہے بے نام خدا کس شان کی صورت
ہے دوالی سے سوا آج کا دن آج کی رات
کہدی مہتاب نے مہرن سے ملاقات کی بات
میں گلا کر تی نہیں کرتی ہو تم شکواعبث
ردیف ث
خون اپنا یہ کیا یا قوت نے پنا عبث
ردیف ج
چنگیز خاں سے کم نہیں خونخوار کا مزاج
سوکن سے میری نکلی زمانے کی احتیاج
لگی ہو نوج مرے دشمنوں کی یار میں روح
بی کریما میر گل بھی ہیں الف خاں کی طرح
ردیف ح
بنو شیریں کی ہے کہانی تلخ
ردیف خ
تو دو پٹا اوڑھ کر نرگس ہوئی بیمار سرخ
فتنہ انگیز اور آفت شوخ
اگر سنے گا نہ کوئی مری یہاں فریاد
ردیف د
نوج ہوں آفتاب کی مانند
مونہہ پہ کیا پوچھنا یوسف سے بوامیرے بعد
اے میری اچھی دوا کیا ہوا میرا تعویذ
جب گھر میں آئے ڈھونڈ چکی بیشتر کمر
ردیف ر
ردیف ذ
مرجاؤں تو نہ آوے وہ بندی کی گور پر
گھر میں بولی نہ سڑن سمجھی سڑن سے باہر
آج جو وعدہ کیا تھا پھر گیا وہ پیر پر
رہ رہ کے غصے آتے ہیں باندی کی گھور پر
نماز پڑھ پڑھ کے تو گناہوں سے اپنے توبہ بوا کیا کر
ردیف ز
اک دل پہ غم کے لگتے ہیں پتھر ہزار روز
اس کی الفت پہ کروں اپنے میں قربان عزیز
گفتگو کرتے ہو کیا اپنے نمکخوار سے تیز
رکھا ہے جب سے سوگ دو گانانے یار کا
ماں کا لازم ہے تم کو باپ کا پاس
ردیف س
ماں سے ہم کو سوا ہے پیاری ساس
ردیف ش
دو دن سے دانا پانی موئے کو حرام ہے
تھا کچھ تو چور دل میں جو سوبار کی تلاش
گزرا دن تو نہ آئی پاس خواص
ردیف ص
مجھ کو خوش آتا نہیں تیرا دو گانا اخلاص
جان صاحب سے میں دل بنو لگاؤں کیا غرض
ردیف ض
ردیف ط
میں نے تو تجھ کو بھیجے الف خاں ہزار خط
ہے دلھن جان تجھے دو لہ سے بیکار لحاظ
ردیف ع
لوعشق کی ہے سر میں نہ کیوں ہونثار شمع
آنکھوں میں نو بہار کے شاید سمائے باغ
دیکھ روشن چل رہا ہے کس قدر اندھا چراغ
ردیف غ
آتی ہے اڑ کے آنکھ پہ جو بار بارزلف
ردیف ف
ردیف ق
یوسف کو چاہے جو ہو اسے پیرہن سے شوق
طور نے جھوٹوں کہا تجھ پہ ہوں بیگا عاشق
بدلا ہے یہ بدلا ہے عشق
لیں گے نہ میر موسیٰ میرا سلام کبتک
ردیف ک
بنو برسات میں سنگار کا رنگ
ردیف گ
ایک ایک رنگ میں اجی دو دو ہزار رنگ
ردیف ل
اے جان کام آئے اگر یہ تمہارے دل
بھائی یوسف ! گئی سودے کو جو بازارا صیل
کسی کے میں نہ کوئی میرے پیار کے قابل
مردوں کا میرا چولی ہی دامن کا ساتھ ہے
ہم بالوں میں بیلے کے پہنتے ہیں بہن پھول
ردیف م
ان مردو سے جیتے جی دبنے کے ہم نہیں
گیلی سوکھی دونوں جلتی ہیں بواسر کا ر میں
ردیف ن
اشرفی خانم! بہو کا کیا مری آیا قدم
برسوں بچی کو نہیں پیار کبھو کرتے ہیں
خالی دیلی ایک نہیں ہے جہاں میں
اکیلی جاؤ جو مسجد میں طاق بھرنے کو
جب شاد شاد آئے مرے تم مکان میں
وہ جس کو ڈولہ اب اے نو بہار لیتے ہیں
دال آٹے کا سنو بھاؤ ہی اس دم کھلتا
جو جو نہیں اٹھانی تھیں میں نے اٹھا لیاں
بیاہ خانم کا کروں گی نہ مںی زنہارکھیں
جی سے بھاتے ہیں مجھے باجی تمہارے ہاتھ پاؤں
بیاہ خانم کا تو کردینے کو تیار ہوں میں
چاہت تمہارے دل میں ہماری اگر نہیں
سوت جل ککڑی آگئی بل میں
رکھیں ہمسائی مرا مال چرا کے گھر میں
خورشید کے ہیں ٹوٹتے مہتاب ہاتھ پاؤں
پھلا پھولا آباد گھر دیکھتے ہیں
نہ کیں جو روسے تقریریں ہزاروں
اپنے رسوا تجھے خود کرتے ہیں بیگانوں میں
میں اری دولت قدم مشکی پہ کیا کوڑا کروں
کیا کلیلیں کریں یہ مررہے بیچارے ہیں
نگوڑے مردوئے کیا کیا گناہ کرتے ہیں
مری ہی جائی ہو تم مجھ سے عقلمند نہیں
دو چار نہیں من چکی دس طور کی باتیں
پسند باغ کی مالن سے حور کی باتیں
لونڈی ہوں بیچنے کے یہی میرے پیر ہیں
پہونچی ان تک بے قراری کی خبر برسات میں
غرض نہ ساس کی الفت نہ چاہ سے ہم کو
جانور تک گھونسلے کو لائے پر برسات میں
ردیف و
قید کرتے اوہی بے معمول ہو
اب نہ سوؤں گی تمھارے ساتھ اور کوسونگی یہ
نجاؤ تم پڑوچولھے میں بھیجومیرے بھائی کو
غلط باکل پڑھاتی ہے بڑی روٹی تو فتو کو
مہتاب کو بری نہ میاں آفتاب دو
بوا حرمت خدانے جیسی عصمت دی تھی مریم کو
دھمکاؤ کسی بودی کو تلوار دکھاؤ
لگا کیا ہے شیطان سمجھائے کوئی
ہے قیامت جاننا تیماء داری رات کو
تو خصم والی بنی سچ ہے اری ہاں اب تو
کیو ں نہ دیدوں کو کہوں نوح کی اولاد میں ہیں
رنڈدے کب تک رہوگے بھائی گھبرآباد کرو
دانوں پر ہر مرد چڑھتا ہے بڑی مشاق ہو
ردیف ہ
دربار چلے ہیں اجی زنہار نہ ٹوکو
جب چاہوں وہ احمق بنے الو سے زیادہ
گو آبرو مرزا کی ہے گنگو سے زیادہ
گوئیاں چھپا نہ عیب ہوا سب پر آئنہ
خوب گن سیکھے کو اری کھیل کر جشن کے ساتھ
باجی جائے گی نہ جوتی موئے ناشاد کے ساتھ
رانڈ ہو گور کا یا منہ اری مکن دیکھے
اب کہنے کو مانو گی نہ زنہار تمھارے
ردیف ی
کس گدھے بابو سے بنوا کے ہے لائی بجلی
جب نہ دو پیسے کمانے کی ہو تدبیر کوئی
ڈر لگے کیونکر نہ ان دونوں کو مجھ کو چال سے
ہوں کھرے کھوٹے نہ اس میں آئی ہیں ٹکساں سے
اجی وہ آندھی سے لڑنے کو ایک بار آئی
چوتھی کو تو صورت میں ذرا دیکھوں دولھن کی
دم مرا ناک میں ے ہاتھ سے نا شادوں کے
سر پہ باندی جو مرے آکے تو چلا تی ہے
دیا ہے کونسا میرا خزانہ بھر تونے
کہتی ہوں میں خدا سے یہ شام اور سویرے
کھلوانہ ٹھوکریں موئے دل در بدر مجھے
سوت کا پیٹ ہے یہ غم ٹھہرے
سرکار میں ہے گھر میں وہ بے پیر نہیں ہے
میری جوتی سے نوبہار گرے
محل میں آئے وہ میرے گئی گردش ستارے کی
ڈولا گئی سرکار میں ہمشیر تمہاری
دکھا یا رنگ زمانے نے اوہی کیا کیا ہے
جو میرے ڈالنے کی گھر میں جستجو کرتے
نوج تم پر کسی کا جی نکلے
روز پھر آتی ہے لونڈی مری جا کر خالی
چھوٹی خانم کے جو گھر بن کے غزل خواں پہنچے
اگر رہا ہے اپنے بیگانوں میں رسوا دل مجھے
کب کب آتے تھے جو مرزا مرے گھر آنے لگے
انگوٹھی تو یوں مفت پائی نہ ہوگی
بامن یہ مجھ سے کہتے ہیں پوتھی بچار کے
قاضی جی کس کتاب میں لکھا یہ حال ہے
کام چمپا سے نہ رکھتی ہوں نہ میں سوسن سے
کوئی بھی پوچھتا نہیں لچھمی یہ حال ہے
اس نناویں کی سدا نام سے پر ہیز کرو
نام پھر حاتم کا جاگا سوم خلقت ہوگئی
زبردستی لڑی مجھ سے پری خانم کو سودا ہے
ثریا جاہ عادل ہیں سراسر قدر دانی ہے
مرتے ہیں سب کے مرد یہ تاثیر ہوگئی
ٹسویے بہایے نہ مرے آکے سامنے
کس کس سے کہوں لوگو کہ چور آیا کدھر سے
جب آکے گھر میں وہ خانہ خراب رہتا ہے
بی ستارہ نے پہیلی کیا کہی نایاب ہے
مرنجاتا میلے سر تھی وہ رہی بیمار سے
جس کے تھی قبضے میں پھل پایا یہ اس خونخوار سے
اور کیا پھبتی کہوں بن آئے ہو لنگور سے
گھر میں مہتاب کے خورشید کہاں رہتا ہے
یوسف مرا گھر مصر کا بازار ہوا ہے
تمہارا دل اگر مجھ پر نہیں ہے
کھوؤں کیو ں حرمت میں اپنی دو کے پہر واسطے
کروں گی دھوم سے شادی نسبت تو ٹھہری ہے
دو گانا پی کے وہ مجھ سے مدام رہتا ہے
یہ بات سچ ہے جسے جس سے پیار ہوتا ہے
سنو شیریں عجب میٹھا نیا مضموں ہمارا ہے
خدا دیتا ہے ٹکڑانان نفقے کا سہارا ہے
خوب ہے شاد کیا اوئے ناشاد مجھے
چھو چھو کے واسطے نہ کھلائی کے واسطے
منڈیا میں کاٹوں کو ڑیا خانم کے یار کی
دم بدم جب وہ نابکار الجھے
خیر سے نکلو تم مرے گھر سے
گھر سے تجھ نحس کا قدم نکلے
دیوانی جا کے چھپ گئی کس کو ہ قاف میں
باجی گرمی میں جہنم سے سوا گرمی ہے
سوت کی بات کا معلوم جو پہلو ہو جائے
مرے جو حرف تھے قسمت کے وہ تحریر میں آئے
مردوئے کیوں ہوں میں تیری آشنا کے سامنے
ہر طرح آپ کی منظور مجھے خاطر ہے
کیا نا تا چھوڑے گاؤں کا در گور ہو چمار
آبرو تالاب پر لی وہ دیا چھینٹا مجھے
مہتاب در ی کل جو گئی بارہ دری سے
لگا کے آگ اک دن تیرے شر سے
ڈھونڈنے آپ کو بوبندی نہیں بیجا نکلی
میں اس چمن میں بند نہی ں اب ہزار سے
تمہارا مال ہے ہر وقت اختیار میں ہے
نوج گھر میرے وہ نامرد نگوڑآئے
خمسی
کچھ کھا کے سورہوں گی میں جندر گنواؤں گی
پلوٹھی کا جننا مصیبت نئی ہے
قرآن کا جامہ بھی اگر پہن کے آئیں
عشق کے نام سے میں تو کبھی آگاہ نہ تھی
واسوختی
جس پہ بیتی ہو یہ وہی جانے
مسدس پہلی رات کی کیفیت دولہن کی زبان سے
خمسی دیوالی
کھیلیں بتاسے اور کھلونے منگائیے
شہر آشوب
کم نہیں قاروں سے ہو ہر اک کی خصلت آج کل
پیڑوں کے پھول پھولوں کی دیکھنے سنگھاررنگ
خمسی
میں صدقے گئی آکے یہ قطعہ دیکھو
قطعہ تاریخ طبع زاد جان صاحب مصنف دیوان
پیٹ پر پیٹ گرا پیٹ نہ میرا ٹھہرا
ضمیمہ دیوان جان صاحب
ردیف ت 271
ہے ہی امام خاں کا رہا غم تمام شب
ردیف ب
اے صنم دیکھ تو اللہ کے گھر کی صورت
سکۂ داغ جگر اپنے ہیں پر کھائے بہت
وعدہ وصل کے دن ہجر میں ٹھہراے بہت
ردیف ج
وعدے جو کل کیے تھے وفا ہوں وہ یار آج
دل سے مژگاں کو ہے کاوش بت نے پیر عبث
ردیف ث
بد تمیزی چاہیے ہر گز نہ حیواں کی طرح
ردیف ح
مقتول جراحت کے سبب ہیں ہمہ تن سرخ
ردیف خ
ردیف
برق وش یار کی ہے زلف گرہ گیر پسند
ردیف ر
کھیلینگے بازوؤں پر جانؔ ادھر ادھر تعویذ
ردیف ذ
گلوری کھانے سے دونی ہوئی دہن کی بہار
ردیف ز
دشمن غم ہے شب ہجر گجر کی آواز
مائل ہے قتل پر نہیں جلاد کی ہوس
ردیف س
پایا نہ دل کو سینے میں سو بار کی تلاش
ردیف ش
ردیف ص
بڑھ کے ہر وحشی سے ہے وحشت کا اولیلےٰ خواص
گزری شب فراق اس آرام سے غرض
ردیف ض
ردیف ط
دل آئے پیچ میں جو ہو گیسوسے ارتباط
ردیف ظ
کرم کیا میں ہوا میرے مہرباں محظوظ
ردیف ع
نہ چار پھول نہ اک روز دو چڑھائے چراغ
ردیف غ
ہے ہر اک ہمدم عیاں درد نہانی وقت نزع
ردیف ف
غور سے دیکھا جو اس شیریں شمائل کی طرف
ردیف ق
عاشق سے دم وصل یہ شرماتے ہیں معشوق
ردیف ن
کسی رات تو ہو مہرباں زہرہ جبیں تو کہا اوہوں
چڑھی اترے گی تیوری بھی ماہ جبیں تو کہا کہ اوہوں تو کہا کہ اوہوں
ردیف ی عیدی
مری ذات سے طرز یہ ہے نئی
فرہنگ دیوان جان صاحب بہ ترتیب حروف تہجی
نظامی پریس بدایوں کی خاص مطبوعات
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.