کیف احمد صدیقی
غزل 24
نظم 20
اشعار 14
آج پھر شاخ سے گرے پتے
اور مٹی میں مل گئے پتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
آج کچھ ایسے شعلے بھڑکے بارش کے ہر قطرے سے
دھوپ پناہیں مانگ رہی ہے بھیگے ہوئے درختوں میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
چمن میں شدت درد نمود سے غنچے
تڑپ رہے ہیں مگر مسکرائے جاتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
سرد جذبے بجھے بجھے چہرے
جسم زندہ ہیں مر گئے چہرے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
ہم آج کچھ حسین سرابوں میں کھو گئے
آنکھیں کھلیں تو جاگتے خوابوں میں کھو گئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
لوری 1
کتاب 6
تصویری شاعری 1
کتنی محنت سے پڑھاتے ہیں ہمارے استاد ہم کو ہر علم سکھاتے ہیں ہمارے استاد توڑ دیتے ہیں جہالت کے اندھیروں کا طلسم علم کی شمع جلاتے ہیں ہمارے استاد منزل_علم کے ہم لوگ مسافر ہیں مگر راستہ ہم کو دکھاتے ہیں ہمارے استاد زندگی نام ہے کانٹوں کے سفر کا لیکن راہ میں پھول بچھاتے ہیں ہمارے استاد دل میں ہر لمحہ ترقی کی دعا کرتے ہیں ہم کو آگے ہی بڑھاتے ہیں ہمارے استاد سب کو تہذیب_و_تمدن کا سبق دیتے ہیں ہم کو انسان بناتے ہیں ہمارے استاد ہم کو دیتے ہیں بہر_لمحہ پیام_تعلیم اچھی باتیں ہی بتاتے ہیں ہمارے استاد خود تو رہتے ہیں بہت تنگ_و_پریشان مگر دولت_علم لٹاتے ہیں ہمارے استاد ہم پہ لازم ہے کہ ہم لوگ کریں ان کا ادب کس محبت سے بڑھاتے ہیں ہمارے استاد