شہردل
سنو بچپن۔۔۔! آج بیٹھے بٹھائے جو یاد آ گئے سوچا اک نامہ تمہارے نام لکھوں جو شکووں سے بھرا ہو تمہیں یاد تو ضرور ہوں گی وہ بارشیں جو دھندلکوں میں چھپ گئ ہیں۔۔۔ موسم پر فسوں طاری ہے ہر طرف رم جھم نے رنگ بکھیر دیے ہیں لیکن اب لوٹ اے گزرے ہوئے ایام تو کے مستزاد۔ صرف بارشیں برستی ہیں برسات نہیں ہوتی۔۔۔ وہ ننھی معصوم بوندیں، کبھی گھر کی چھت پر کبھی چہرے پر گرتیں تو دل کی دنیا جل تھل کر دیتی تھیں۔۔۔ کہاں کھو گئے تم میری عمر کے گزرے پل۔۔۔ وہ ساون کے جھولوں کے ہلکورے۔ وہ نیم کی چھاؤں میں جلتی دوپہروں کے ٹھنڈے پل۔ کاغذ کی ناؤ کو لمبے سفر کے قصد سے روانہ کرنا اور جلد ڈوبتے دیکھ کر افسردہ ہو جانا۔
مگر دیکھو! میرے ہاتھوں کی لکیروں نے وہ سارے تتلی کے رنگ کشید کر لئے پیروں کو جن کے تعاقب سےآبلہ پائی ملی وہ گڑیوں کی چاہت۔ وہ ھنڈ کلیوں کے ادھورے پکوانوں کی لذت، وہ روٹھنا اور یک دم من جانا، پریوں کی کہانی کے انتظار میں دیر تلک جاگنا، وہ پیڑوں سے چرائے جامن و امرود کی کچی خوشبو کی سرشاری۔۔۔ وہ آنکھ مچولی کے ساتھی۔۔۔گڑیا کے نرم بالوں کی لذت۔
جانے کہاں گئے میرے جگنو ستارے جلتی دوپہریں۔ ٹھنڈی شامیں، وہ بےنیاز قہقہے، وہ ہنسی کا جلترنگ، چاند رات جاگنا، عید کی آمد کا انتظار، مگر اب اے بچپن! تیرے قہقہے مجھے کیوں بلاتے ہیں۔۔۔؟ کیوں دکھاتے ہیں وہ راستے جو قید ہوئے کیوں رلاتے ہیں وہ پل۔۔۔ جھلک دکھلا کے کہاں چھپ گئے ہو اے میرے بچپن۔۔۔!
از طرف! تمہاری دوست۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.