مجاز کی موت پر
گزشتہ پچاس برسوں میں جس تیز روی کے ساتھ زمانہ بدلتا رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارا شعور بھی ترقی کرتا رہا ہے، اس کی مثال اس سے قبل کے زمانے میں کم از کم اپنی قومی تاریخ میں تو نہیں ملتی ہے۔ جو تبدیلی کل تک بہت ہی سست رفتار اور غیرشعوری تھی، وہ آج تیز رفتار اور شعوری ہے۔ زمانے نے یہ برق پائی اس لئے پائی ہے کہ ہم خود ہی بہت زیادہ گرم سفر ہیں۔ اسباب کو پر دیے جا رہے ہیں۔ بالفاظ دیگر آج ہم مستقبل زدہ، مستقبل بیں اور مستقبل ساز ہیں۔ جینے سے زیادہ جینے کی فکر میں مبتلا ہیں۔ شاید اس لئے کہ چند جینے والوں نے ہم سے نہ صرف زندگی بلکہ جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ اس حقیقت کا شعور استحصالی قوتوں کے خلاف ایک مجاہدہ پیہم میں تبدیل ہو گیا ہے۔ اس عہد میں کسے یہ دماغ کہ ایک ہی جذبے کے غوطے میں رہے اور بقول میر یہ کہے، رگ خواب دل ہے کف شوق میں۔
اب وہ بات کہاں۔ یہ تو عطیہ تھا ایک بندھے ٹکے، ایک بظاہر نہ بدلنے والے سماج کا جو کم از کم ہزار سال سے ایک خواب گراں کی طرح ایشیا کے سینے پر مسلط رہا۔ ہم نے خود فراموشی کی وہ دولت۔۔۔ اس سے بڑی ایک دوسری دولت، ایک بھرپور پر مایہ اور آزاد زندگی کی چاہت میں کھودی۔ ایک فنکار کے لئے یہ ایک تلخ حقیقت ہے لیکن اس کی کوئی متبادل صورت بھی نہیں ہے۔ چنانچہ یہی سبب ہے کہ آج کا زندہ ادب صرف حسی ہونے پر ہی فخر نہیں کر سکتا ہے تاوقتیکہ وہ فکر انگیز اور عملی جذبے کا ابھارنے والا نہ ہو۔ جدید ادب کا یہ رجحان قدیم ادب کی بہت سی اقدار سے ٹکراتا بھی ہے۔ اس میں لاشعور سے زیادہ شعور، خواب سے زیادہ بیداری، افسانہ سے زیادہ ادراک حقیقت راہ پاتے جا رہے ہیں۔ یہ رجحان شعور، بیداری اور ادراک حقیقت کے غلبہ پانے کا ہے نہ کہ لاشعور، خواب اور افسانہ کی نفی کرنے کاہے۔ فرد اور سوسائٹی کی کشمکش تو خیر ہر دور میں رہی ہے لیکن تجربات کے معقول ہونے اور نہ ہونے کی جویہ کشمکش اس دور میں ابھر آئی ہے وہ دور قدیم میں نسبتاً کمزور تھی۔ کیونکہ اس وقت معقولات کا اتنا غلبہ نہ تھا۔
اگر احساسات حواس کی گوناگوں رنگینیوں میں اسیر رہنے پر مجبور ہیں تو عقل ہمیں فریب رنگ و بو سے آزاد بھی کرتی رہتی ہے اور یہ جتاتی رہتی ہے کہ حقیقت صرف وہی نہیں ہے جو محسوس ہے بلکہ وہ بھی ہے جو معقول ہے۔ ابھی تک ہماری شاعری میں محسوس اور معقول کی کشمکش جو اصل میں صورت و معنی کی کشمکش ہے، کسی وحدت میں ابھر نہیں پائی ہے، شاید اس لئے کہ جو کچھ کہ اپنے پرانے عہد کا ہمارا معقول ورثہ تھا، اسے ہم نے اپنے احساس کمتری میں کھو دیا اور جو علم کہ ہم نے مغرب سے مستعار لیا، اسے اچھی طرح ہضم نہ کر سکے۔ ان حالات میں ہمارے جدید ادب کو بہ حیثیت مجموعی رومانوی ہی ہونا چاہئے تھا اور وہ ابھی تک رومانوی ہے۔ مجاز کی شاعری جدید شاعری کے اس رجحان سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ وہ بھی فریب رنگ و بو ہی کھاتا رہا۔ لیکن اس احساس کے ساتھ
مجھ کو احساس فریب رنگ وبو ہوتا رہا
میں مگر پھر بھی فریب رنگ وبو کھاتا رہا
وہ شاعری کیا جس میں فریب رنگ و بونہ ہو، لیکن مجاز کی ہوش مندی اسی میں تھی کہ وہ اسے فریب ہی سمجھتا رہا۔ مجاز کی لیریکل شاعری کے بیک وقت رومانوی اور انقلابی ہونے کا سبب یہی ہے کہ اس میں دور حاضر کی وہ آگہی موجود تھی جو فریب رنگ و بو کو فریب سمجھتی رہی ہے۔ اسی شعور نے اسے اپنے عہد کے عام رومانی شعرا سے ممتاز کر رکھا ہے۔ اس کا جذبہ عشق ایک انقلابی جذبہ بھی ہے اور اس کی فریب خوردگی حقیقت آشنا ہے۔ مجازکی کوئی بھی غزل یا نظم عشق و محبت کی واردات سے متعلق ایسی نہیں ہے جس میں اس کا یہ انقلابی شعور موجود نہ ہو۔ میں نے لفظ شعور (CONSCIOUSNESS) استعمال کیا ہے نہ کہ کوئی اور لفظ۔ شعور میں اشیاء کے بدلتے ہوئے رشتوں کی آگہی ہوتی ہے نہ کہ ان کا منطقی تصور اور شاعری میں شعور ہی کا اظہار ہوتا ہے نہ کہ منطقی تصورات کا۔ چنانچہ یہی سبب ہے کہ میں اس کے اپنے اس ذاتی اعتراف کے باوجود،
سچ تو یہ ہے مجاز کی دنیا
حسن اور عشق کے سوا کیا ہے
اپنے کو اس خیال پر آمادہ نہ کر سکا کہ اسے عرف عام کا ایک رومانوی شاعر تسلیم کروں۔ بے شک وہ ایک لیریکل شاعر تھا۔ لیکن وہ ایک انقلابی لیریکل شاعر تھا۔ فیض کے الفاظ میں وہ انقلاب کا مطرب تھا اور یہ صحیح ہے کیونکہ مجاز کی لیریسزم میں باوجود ایک نشتر زہر آگیں کی چبھن اور ایک درپردہ حزن کی کسک کے، جبر سے زیادہ اختیار اور خوف سے زیادہ امید ہے۔ اس کی شاعری کا بیشتر حصہ ایک نئے موسم گل کی رسالت اور اس کی حسن آفرین قوتوں کا طربیہ ہے۔ وہ جو ایک شگاف دنیا کے مزدوروں نے سرمایہ دارانہ نظام کے قلعے میں ۱۹۱۷ء میں ڈالا تھا اور ایک نئی روشنی پس دیوار احتساب جھانکی تھی، مجاز کی لیریسزم میں اس نئی روشنی کی ایک شوخ کرن بھی جلوہ گر تھی جو اس کی نظر میں مشاطہ زندگی تھی۔ نہ کہ محاسب کم و بیش۔
اسی شوخ کرن نے جنگ آزادی کے جلو میں اس کے تخیل کو جلا اور اس کے تعقل کو ضیائے رنگیں بخشی۔ مجاز نے بھی انقلاب ہی کی ایک شمع جلائی لیکن محسوسات کے فانو س میں جو لفظ بھی اس کی نوک زبان سے چٹکا وہ موجہ رنگ و بو سے پرافشاں رہا، جو نغمہ بھی اس کی شاخ دل سے پھوٹا وہ ایک سیل نور میں غلطاں رہا۔ ظاہر میں نگاہیں دعوت نظر میں کھو گئیں اور اس کی دعوت فکر کو بھول گئیں۔ مجاز کے ساتھ یہ ناانصافی اکثر ہوئی ہے۔ گو مجھے یہ تسلیم ہے کہ اس کی شاعری میں دعوت فکر کم ہے۔ میں یہ کب کہتا ہوں کہ وہ کوئی مفکر تھا۔ وہ تو راہ عشق کا ایک مسافر شب گزار تھا۔ رہا نہ رہا۔ لیکن یہ کیا کم ہے کہ وہ اپنی گرم روی سے کہکشاں کو گردراہ کر گیا۔ ماناکہ وہ زندانی گیسوئے جمیل تھا۔
نہ ہم آہنگ مسیحا نہ حریف جبریل
تیرا شاعر کہ ہے زندانی گیسوئے جمیل
مگر وہ زندانی گیسوئے جمیل مذاق زندگی کا ناقد بھی تھا۔ کیا ہوا اگر کسی زہرہ جمال نے اس کو اپنی بزم ناز سے اٹھا دیا۔ وہ اپنا مذاق زیست تو چھوڑ گیا اور یہ اسی مذاق زیست کی تلخ کلامی کا نتیجہ تھا کہ جب اس نے احساس جمال کو اس نظام کہن میں سوگوار پایا اور زندگی کو انسانیت کے رشتوں سے عاری دیکھا تو پھر اس نے کسی فریادی کا نہیں بلکہ ایک مجاہد کا جامہ زیب تن کرکے تیغ کو بوسہ اور ساطور کو اذن خرام دیا۔
بہت لطیف ہے اے دوست تیغ کا بوسہ
یہی ہے جانِ جہاں اس میں آب پیدا کر
یہ کیسا حسن کا رسیا ہے کہ گناہ عشق کے ایک جلاوطن کو اس کی واپسی پر دعوت شمشیر دیتا ہے۔ کیایہ نکتہ اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتا ہے کہ وہ قتیل شیوہ دلبری اصل میں انقلابی تھا۔ اس نے شمشیر کی آبداری اور ساز کے آہنگ کو ایک ہی آئینے میں سمو رکھا تھا، یہی اس کا سحر و اعجاز تھا۔ تبھی تو وہ محبوب کو آنچل سے پرچم بنا لینے کو کہتا اور ریل گاڑی کو انقلاب کی آندھی کے امیج میں تبدیل کر دیتا۔
جس وقت تک ساغر حیات مئے زیست سے لبریز ہاتھوں ہاتھ ہوتا ہے، یہ زندگی فطرت کا نغمہ اور سچائی کا آئینہ رہتی ہے۔ لیکن جب ہاتھوں ہاتھ کاسہ گدائی ہو اور ظالم کا خمخانہ عیش خون استحصال سے پرہو، تو پھر یہ زندگی عوام کے لئے دکھ ورد کا کارخانہ یا پھر منفی ردعمل میں مایا کا جنجال اور کچھ نہ ہونے کا حیرت خانہ ہے۔ ماضی میں اسی منفی ردعمل نے ہم سے قوت فکر کے ساتھ ساتھ قوت پیکار بھی چھین لی تھی اور زندگی کی جگہ دوسری دنیا میں وعدہ زیست دے رکھا تھا۔ مجاز دور جدید کے ان شعراء میں سے ہے، جنہوں نے دوسری دنیا کے وعدہ زیست کو اسی زمینی زندگی میں نقدی کرنا چاہا۔ شیخ و برہمن کانپے، محتسب چونکا۔ لیکن وہ اندھیری رات کا مسافر خواب سحر دیکھ گیا اور دکھلا ہی گیا، جس طر ف دیکھا نہ تھا اب تک ادھر دیکھا تو ہے۔
مجاز انہیں معنوں میں انقلاب کا ایک راہی ہی نہیں بلکہ انقلاب کا رہبر تھا لیکن اس کے انقلابی شعور کی سطح روش عام کے مطابق سطحی، وہی نوجوانوں سے خطاب کرنے کا رنگ اور وہی قدیم خطابت۔ اس اعتبار سے مجاز کی وہ شاعری زیادہ دقیع نہیں ہے۔ تاہم اس کی اس انقلابی شاعری میں وہ شعریت موجود ہے جو سوز و گداز، لطف بیان، الفاظ کے رقص اور موسیقی سے عبارت ہے۔ مجاز کا کلام بڑا نیا نیا سا ہے۔ وہ جو ہماری شاعری کا ایک نیا ڈکشن فارسی کی دلآویز ترکیبوں سے ڈھل کر ٹکسالی اردو کا لکھنؤ سے ابھرا تھا، اس کا بڑا ہی حسین اور جاندار نمونہ مجاز کی شاعری میں ملتا ہے۔ ایسا اچھا نمونہ کہ ہر ایک کو رشک کرتے پایا ہے۔ مگر مجاز نے اپنی شاعری کو اردو زبان کا ٹکسال بننے سے بچا بھی لیا۔ وہی کہا جسے اس کے احساسات نے اس کی پلکوں پر چن دیا، یا پھر نوک زبان پر لاکر رکھ دیا۔ اس کا ہر خیال اپنا ہے۔ اس میں زیادہ گہرائی نہ سہی لیکن یہ کیا کم ہے کہ اس نے اپنی بات کہی اور شاعرانہ انداز میں کہی۔
حالی کے زمانے سے لے کر دور حاضرتک ہماری قومی اور ملی شاعری میں جو ایک قسم کی اکتا دینے والی خطابت پیدا ہو گئی تھی، مجاز اس رجحان کا ایک شاعرانہ ردعمل بھی تھا۔ اس نے اپنی شاعری میں نہ تو غیرت قومی کے جذبے کو ابھارنے کی کوشش کی اور نہ ترحم کے جذبے کو۔ بلکہ اس کے برعکس اظہار ذات کو راہ دی۔ جگر کے زخموں کو ابھارا۔ اس نغمگی کو زندہ کیا جو شاعری کی روح ہے۔ اس لطافت کو راہ دی جو تزئین آرائش سے آزاد ہوکر سلیقہ مندی کی حامل ہوتی ہے۔ کہیں کہیں اس کی سلیقہ مندی میں خلل بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ ’اس کنارے نوچ لوں اور اس کنارے نوچ لوں ‘، ’آنکھوں کی مستی مہنگی نہ سستی۔ ‘ لیکن بحیثیت مجموعی وہ لطافت قائم رہتی ہے۔ مجاز اپنے اس ڈکشن میں ماضی کی روایات سے ایک خاص رشتہ قائم رکھتا ہے لیکن چونکہ وہ پرانے الفاظ کو نئے معنی دیتا ہے اور نئی تشبیہات و استعارات بھی لاتا جاتا ہے، اس لئے اس کا یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ، ہٹ کر چلے ہیں رہ گزر کا رواں سے ہم۔
جدید غزل میں جو انقلابی بانکپن آیا ہے، اس کی بنیاد مجاز ہی نے رکھی ہے۔ میرے اس خیال سے ممکن ہے کچھ لوگ متفق نہ ہوں۔ شاید اس لئے کہ مجاز نے غزلیں بہت کم کہی ہیں اور آج انقلابی بانکپن کے ساتھ مجاز سے بہتر غزل کہنے والے شعرا موجود ہیں لیکن وہ لوگ میرے اس خیال سے ضرور اتفاق کریں گے جن کا مرنا بھرنا پندرہ بیس سال سے دور حاضر ہی کے ادب کے ساتھ رہا ہے کہ مجاز سے پہلے نظم اور غزل دو قسم کی شاعری تھی۔ مجازکے بعد ان کا فرق صرف اصناف سخن کارہ گیا نہ کہ اقسام کا۔ اشارہ داخلیت اور موسیقیت کی طرف ہے نہ کہ مسلسل گوئی کی طرف۔
مجاز کا اسلوب منفرد بھی ہے اور بے داغ بھی۔ اس میں ذہانت بھی ہے اور شعریت بھی۔ تاہم ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ مجاز کے ڈکشن کا انداز بجز مسعود اختر جمال اور کسی کے ہاں نظر نہیں آتا ہے۔ کیا اس لئے کہ مجاز نے اپنی آواز کو نہ پایا جو بقول فراق مرکر حاصل ہوتی ہے۔ یہ بات نہیں ہے۔ مجاز کے یہاں فکر کی چاشنی یا ذہنی تصویروں میں تجریدی طریق کار کی کمی ہے۔ وہ تشبیہات زیادہ اور استعارات کم استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ دونوں میں فرق تھوڑا ہی سا ہے۔ ان کی ذہانت فقروں کو لچکانے کی ہے نہ کہ خیالات کے مرتکز کرنے اور منفرد میں یونیورسل کو دریافت کرنے کی۔ اس کا ایک دوسرا سبب یہ بھی ہے جو نسبتاً کم اہم ہے کہ وہ گزشتہ دس سال سے خاموش رہے۔ مجاز شاعری کے میدان میں ایک کوہکن ہی تھا لیکن اسے کیا کیا جائے کہ وہ اپنے تیشے کوبہت جلد توڑ بیٹھا، شاید جگر کا کام تمامی کو کھنچ گیا۔ یہ بات جائے عبرت بھ ہے اور مقام افسوس بھی۔
اس وقت سے مجاز موت کی آرزو میں نہیں بلکہ موت کے انتظار میں بیٹھے رہے۔ آج جس کا ہم ماتم کر رہے ہیں۔ وہ اپنا الوداعی مرثیہ پہلے ہی لکھ چکا تھا۔
کچھ روز کا مسافر و مہماں ہوں اور کیا
کیوں بدگماں ہوں یوسف کنعان لکھنؤ
اب اس کے بعد صبح ہے اور صبح نو مجاز
ہم پر ہے ختم شام غریبان لکھنؤ
آخر کار موت نے اس کو ہم سے چھین ہی لیا اور زندگی اپنا ساز، سحر و اعجاز سب کچھ لئے اس کے انتظار میں بیٹھی ہی رہ گئی، کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.