کچھ لوگ اردو کی آزاد نظم کو نئی شاعری کہنے لگے ہیں۔ میں ان میں سے نہیں ہوں۔ کچھ لوگ آزاد نظم کے ساتھ موضوع کے لحاظ سے مزدور اور عورت کو ملاکر نئی شاعری سمجھتے ہیں۔ گویا زندگی کا سیاسی اقتصادی یا جنسی پہلو اُن کی نظر میں نئی شاعری کا خام مواد ہے۔ میں ان کی بھی نہیں کہتا۔ میرے خیال میں نئی شاعری ہر اس موزوں کلام کو کہا جاسکتا ہے جس میں ہنگامی اثر سے ہم کر کسی بات کو محسوس کرنے سوچنے اور بیان کرنے کا انداز نیا ہو۔ یعنی کوئی شاعر روایتی بندھنوں سے الگ رہ کر احساس جذبے یا خیال کے اظہار میں ا پنی انفرادیت کو نمایاں کرتا ہے تو وہ نیا شاعر ہے ورنہ پرانا۔ اور اس طرح اردو ادب کی تاریخ میں نئی شاعری کا پتہ ہمیں نظؔیراکبرآبادی سے ملتا ہے۔ نظؔیر سے پہلے بھی کبھی کبھار کوئی ایسی بے تاب اور بے باک روح دکھائی دے جاتی ہے جس نے کسی نہ کسی حدتک نئے راستوں پر چلنے کی کوشش کی۔ لیکن ماحول پر اپنے اثر کے لحاظ سے اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔ چنانچہ ہر طرح دیکھتے ہوئے نظیر ہی کو ہم نئی شاعری کا پہلا نمائندہ سمجھیں گے۔ نظیر کے بعد غالب ایسا سنگ میل ہے جس کی انفرادیت کا اثر اب تک جاری ہے اور آئندہ بھی معلوم نہیں کب تک جاری رہے گا۔ غالب کے بعد حالی یا آزاد اور اسمٰعیل میرٹھی کے نام ایک سانس میں نہیں لینے چاہئیں کیونکہ انہوں نے چند اصولوں کے مدنظر چند وقتی ضروریات کے تقاضے سے شعوری طور پر بعض نئے رجحانات کی طرف رغبت دلائی اور غزل سے ہٹ کر نظم کو اختیارکیا۔ لیکن ان کا یہ قدم کچھ ایسا تھا جیسے تعلیمی اداروں میں گلستان بوستاں کے بجائے اردو کورس ظاہر ہوئے۔ اور غالب کے بعد اگرچہ حالی اورآزاد کی روایات ہی کے سائے میں اس کی ابتدائی نشوونماہوئی۔ اقبال ہی ہمیں صحیح معنوں میں ایک نیا شاعر ملتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک دھندلکے میں چھپا ہوا ہیئت کا سب سے پہلاشعوری تجربہ شرؔر لکھنوی کا ہے جنہوں نے ڈراما کے ذریعے سے آزاد نظم کو رائج کرنے کی ناکام کوشش کی اور اقبال کے پھیلتے ہوئے اثرات کے ساتھ ساتھ مولوی عظمت اللہ، عبدالرحمن بجنوری، حفیظ جالندھری، اختر شیرانی، سیماب، ساغر اور جوش ابتدائی کشمکش کے بعد کی ترقی یافتہ صورتیں ہیں اور ان سب کے بعد نوجوان شعراء کا ایک ہجوم ہمارے سامنے آکھڑا ہوتا ہے اور اس ہجوم کے پہلو میں نئی صورتیں، نئے موضوع، نئے اندازِ بیان ایک الجھن پیدا کرتے ہیں۔
نئی صورتیں، نئے موضوع، نئے اندازِبیان۔ شاعری میں ان سب کی آمد ایک طرح سے داخلی اور خارجی ضرورت کی پابند ہے۔ ابتدائی انسان کی ضروریات محدود تھیں۔ اس لیے ان کی شاعری بھی محدود رستوں ہی پر چل سکی۔ بلکہ یوں کہیے کہ اس کی نگاہیں اپنی ضروریات کے دائرے ہی میں شعریت کی تلاش کرسکیں۔ پیٹ بھر کراپنی ہمدم شبانہ کے ساتھ فراغت کے لمحوں سے لطف اٹھانا، پیٹ بھرنے کے لیے خوراک کی فراہمی اور ڈر۔ فطرت کے مظاہر سے ڈرنا، اپنے ہم جنس دشمنوں سے ڈرنا۔ بس یہی باتیں تھیں جن سے گیت کی بات نکلتی تھی۔ اشتہا اور خوف کے دو متوازی خطوط کا درمیانی فاصلہ ابتدائی انسان کی شاعری ہے۔ جوں جوں ارتقائی منازل طے ہوتی گئیں اور تہذیب و تمدن کی الجھنوں سے واسطہ پڑا انسان کے تخیل کا ستارہ پھیل کر اپنے جلو میں اڑتی ہوئی نورانی دھول سے خیال کے آسمان میں ایک کہکشاں بناتا گیا۔ تہذیب و تمدن کی آمد نے نہ صرف احسا س و جذبات کی ادبی تسکین کی بلکہ اس کے بعد ذہن ہر طرح کے فطری اور غیرفطری راستوں پر گامزن ہونے لگا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سوچنے لگا کہ اب کون سے نقطے کو اپنی منزل بنایا جائے۔
ادب شخصیتوں کا ترجمان ہے۔ اور شخصیتیں زندگی کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ آج کل ہماری زندگی ہر مہینے نہیں تو ہر سال ضرور بدلتی جارہی ہے۔ اور یوں نہ صرف اقتصادی اور سماجی حالات ادب پر اثرانداز ہورہے ہیں۔ بلکہ اس کے ساتھ ہی ذہنی طور پر خصوصاً مغرب سے آئے ہوئے خیالات جہاں ادب اورآرٹ میں فنکاری کے نئے اسلوب رائج کرنے کا باعث ہوئے ہیں وہاں اخلاقی لحاظ سے بھی روزمرہ کی باتوں کو دیکھنے کا ایک نیا ڈھب آتا جارہا ہے بلکہ آچکا ہے۔
پہلے دور میں ہر بات محدود اور معین تھی۔ اصنافِ سخن محدود تھیں۔ موضوع شعری کا ایک معین دائرہ تھا اور اس کے ساتھ ہی ہر شخص کا ذہنی افق بھی ایک ہی رنگ کا حامل تھا۔ نئے دور میں موضوعات شعری میں وسعت پیدا ہوئی۔ اصنافِ سخن میں بھی نت نئے بت ڈھالے جانے لگے اور ذہنی افق بھی اپنے رنگارنگ جلووں سے نگاہوں کو لبھانے لگا۔
گزشتہ پانچ سات سال میں اردو ادب میں سب سے زیادہ توجہ کے لائق جو تحریک چھڑی ہے۔ وہ ترقی پسند ادب کا نظریہ ہے۔ لیکن فیض احمد کے ایک عنوان سے الفاظ مستعار لیتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اس خواب کو کثرتِ تعبیر نے پریشاں کردیا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں اب اصل بات کا پتہ چلے تو کیسے؟ اس تحریک کے اولین علم برداروں کی پہلی اور بنیادی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے ترقی پسند ادب کو محض اشتراکی جمہوریت کا ہم معنی سمجھا۔ اور یوں اپنی انتہا پسندی کے باعث صرف ایک نئے قسم کے اذیت پرستانہ ادب کے سمجھانے والے بن کر رہ گئے۔ حالانکہ ہر اس ادبی تخلیق کو ترقی پسند کہا جاسکتا ہے جو خیال افروز ہو۔ اور ذہنی اور جسمانی زندگی کے کسی بھی شعبے میں ہمیں کم سے کم ایک قدم آگے بڑھانے پرمجبور کردے۔
آج سائنس کی ایجادوں نے ہر ایک چیز کو ہر دوسری چیز سے قریب کردیا ہے۔ لیکن انسان انسان سے دور ہوچکا ہے۔ مانا کہ وہ پہلی سی آنکھ اوجھل والی بات اب نہیں رہی۔ لیکن ایک دوسرے کو جاننے کے لیے جس خلوص کی ضرورت ہے، سوچ کی جو گہرائی درکار ہے وہ ہر کسی کی طبیعت میں باقی نہیں رہی یا کم سے کم مٹتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادب زندگی سے قریب ہوتے ہوئے بھی اکثر دور ہی رہتا ہے۔ پہلے بھی یہی صورتِ حال تھی۔ لیکن ایک اور انداز میں۔ پہلے اردو شاعری کے راج بھون میں مدت سے پھولوں کی ایک سیج بچھی ہوئی تھی۔ اور اس پر ایک چنچل سندری غزل کا روپ دھارے سولہ سنگاروں سے سجی بیٹھی ہوئی تھی۔ تشبیہوں کی داسیاں استعاروں کے چنور ہلاتی ٹہل سیوا میں مصروف تھیں۔ راج محل میں آنے جانے والے چنچل سندری کی موہنی چھب سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والے اور دل کو گرمانے والے چُنے چنائے گنتی کے چند آدمی تھے، اور ایسی ا لگ اور اچھوتی سبھا میں ہر کسی کو جانے کی جرأت بھی نہ ہوسکتی تھی۔ وہاں وہی جاسکتا تھا جسے راج دربار میں جانے کا سلیقہ ہو، جو ایسی محفلوں کے ادب آداب سے واقف ہو، جو دوسروں کی سن کر واہ واہ کہہ سکتا ہو، اپنی سی کہنے پر نہ تلا بیٹھا ہو۔ نظیر، غالب، شرر۔ چند جادوگر ایسے آئے جنہوں نے پرانے راگ کے سروں سے مدد لے کر نیا ٹھاٹھ جمانا چاہا لیکن سننے والوں کے کانوں میں اپنے اپنے وقت کی گونج بن کر ہی رہ گئے۔ راج محل کے رہنے والوں کی دکھائی نہ دینے والی بیڑیاں کٹ نہ سکیں اور راستہ چلتی، کھاتی پیتی، ہنستی بولتی اپنی بات کہتی، دوسرے کی سنتی اور نئے رستوں کی تلاش کرتی ہوئی زندگی محل کے سنہری چوکھٹ کے اندر قدم نہ رکھ سکی۔
اس کے بعد سات سمندر پار ایک جنگی طوفان اٹھا۔ مغربی تعلیم اور تہذیب و تمدن کی آندھی آئی۔ خس و خاشاک اڑاتی۔ لیکن اپنے اپنے جلو میں نئی کونپلوں کو پروان چڑھانے والی برکھا بھی لائی۔ اب رفتہ رفتہ نئی آوازیں سنائیں دینے لگیں۔ کوئی بولا ادب کو زندگی سے قریب لانا چاہیے۔ کوئی کہنے لگا ہم اپنے سرمایے سے دست بردار نہیں ہوسکتے۔ کوئی پکار اٹھا ہم صرف دو باتیں جانتے ہیں خلوص اور آزادی اور اس اپنے اپنے راگ کے ہنگامے نے ایک الجھن پیدا کردی۔ ایک ایسی الجھن جس سے نئی لہریں مچل اٹھتی ہیں۔ جس سے نکل کر زندگی کی نئی منزلوں کو طے کرتی ہے۔ لیکن جس کا دھندلکا ایک بھول بھلیاں کی مانند ہوتا ہے۔ ایسی بھول بھلیاں جس میں سے چند ہی لوگ صحیح راستے کو دیکھ کر اس پر گامزن ہوسکتے ہیں۔
یہی کیفیت اس وقت نئی شاعری کی ہے۔ اور نیا شاعر اب ایک ایسے چوک میں کھڑا ہوا ہے جس سے دائیں بائیں آگے پیچھے کئی راستے نکلتے ہیں۔ لیکن اسے پوری طرح نہیں معلوم ہے کہ کون سا راستہ اس نے طے کرلیا۔ ماضی کے تجربے کیا اہمیت رکھتے ہیں۔ کب تک اسے یونہی کھڑا رہنا ہے، حال کی اضطراری کیفیات کس حدتک اس کا ساتھ دیں گی اور کون سے راستے پر اس کو چلنا ہے۔ مستقبل کے خطرات اس کو کیا نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ نیا شاعر ماحول میں اپنی گہری دلچسپی کا بہانہ کرتا ہے۔ لیکن حقیقتاً وہ صرف اپنی ذات کے ایک دھندلے سے عکس میں محو ہے۔ اس کے آس پاس اب وہ پرانے سہارے نہیں رہے جن کے بل پر لوگ گھریلو زندگی کے جھمیلے میں سب عمر بسر کردیتے تھے۔ وہ اب اکیلا ہے اور اسے سہارے کی جستجو ہے۔ کبھی وہ غلط چیزوں کو سہارا سمجھ لیتا ہے۔ کبھی صحیح سہارے تک پہنچ کر بھی اسے نہیں معلوم ہوتاکہ کیا بات ہوئی۔ اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جس عمارت کو اسے سجانا ہے۔ نئے روپ میں ڈھالنا ہے۔ اس کی بنیادوں کا حال اسے پوری طرح نہیں معلوم ہے۔
اس الجھن کے اسباب ۱۸۵۷ء کے مبہم دور سے شروع ہوتے ہیں۔ جب سیاسی اور سماجی لحاظ سے پہلا شیرازہ بکھرنے لگا اور نئے نظام کے لیے جگہ بنی۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ نوجوان شعراء اور ان بزرگوں میں چند پشتوں کافاصلہ پیدا ہوچکا ہے۔ جنہوں نے اس ذہنی کشمکش کے دور کو بنفسہ دیکھا تھا۔ لیکن تاریخ اور نسلی یادیں مل کر گزرے ہوئے زمانے کو بھی اپنا تجربہ بنادیتی ہیں۔ اس کے علاوہ کسی شخص کی ذہانت ماضی حال اور مستقبل سے مل کر بنتی ہے۔ ماضی اس کے بنیادی خصائص کو ڈھالتا ہے۔ حال اپنی ہر نئی تحریک سے چھان پھٹک کرتا ہے اور وہ امنگیں جو ارادے بن کر مستقبل میں تکمیل کو پہنتی ہیں اس کی انفرادیت کو نمایاں کرتی ہیں۔
سیاسی لحاظ سے جب ہم آج کے شاعر کا ماضی اپنے سامنے لاتے ہیں تو ہمیں ملکی حکومت کے زوال سے ابھرنے والے پست خیال کے ساتھ ساتھ نئی سیاسی تحریکوں کے زندگی بڑھانے والے اجزاء بھی ملتے ہیں اور یہ پہلے زوال کی پستی کی شدت ہی تھی جس نے سیاسی رنگ لے کر اپنے دیس کا دنیا بھر سے مقابلہ کرتے ہوئے نئی امنگیں پیدا کردیں۔ اور زندگی کے ہر شعبے میں ترقی اور آزادی کی طرف رغبت پیدا کی۔
سماجی پہلو سے غور کرتے ہوئے نئے شاعر کی زندگی میں ہمیں ایک سے زیادہ باتیں الجھاتی ہیں۔ شہروں کے فاصلے مٹے،، نئی تعلیم آئی اور کنوئیں کا مینڈک سوچنے لگا کہ اس کی ذات اور ماحول سے بالاتر بھی ایک زندگی ہے۔ جس میں ایک اٹل وسعت اپنی گہرائی سے پہلے خیالوں کو ہیچ ثابت کر رہی ہے۔ تعلیم اور تجارت کی آسانیوں نے نئے مقامات کی سیرکرائی۔ اور گھریلو زندگی کا نقشہ مٹنے لگا۔ گھر سے دور ہوکر تنہائی کا احساس نشوونماپانے لگا وہ احساس جسے ہر طرف بڑھتی اور پھیلتی ہوئی طاقتیں کمتری کے احساس میں تبدیل کرنے لگیں۔ اس کے ساتھ ہی نئے دور میں رفتارِ حیات کی تیزی نے جہاں زندگی کے اختصار کااحساس دلایا۔ وہاں اضطراری کیفیت کی طرف بھی ہر کسی کے ذہن کو مائل کردیا کہ جوں توں اس چاردن کی چاندنی میں ذاتی خواہشات کی تکمیل کرلینا چاہیے۔ چنانچہ گہرے منظم تفکر سے ہٹ کر ہر بات کو سرسری نظر سے دیکھنا انسان کا خاصہ بن گیا۔ سطحیت حاوی ہوگئی۔ اور غیر ذمہ داری بڑھ گئی۔ نئے لکھنے والے نوجوان، شاعر پہلے بننے لگے۔ اور شاعری کے لیے جس قدر علم کی ضرورت ہے۔ اس کی طرف بعد میں توجہ کرنے لگے۔ بلکہ اسے یکسر نظرانداز کرگئے۔ اور اس لیے علم کی یہ کمی جب گہرائی اور وسعت کے اس فقدان سے ہم آہنگ ہوئی جو نئے شعرا میں اکثر موجود ہے تو اعتراضات کی گنجائش نکلی۔ گویا ابھی ایک تجربہ تکمیل کو پہنچا بھی نہ تھا کہ تجربہ کرنے والوں کے دعوؤں نے مخالف بھی پیدا کردیے۔
گھریلو زندگی کی تخریب اور نئی خواہشات کی تشنگی۔ یہی دوباتیں مختلف صورتیں اختیار کرکے ہر نئے شاعر کے کلام اور حالات میں دکھائی دیتی ہیں۔ زندگی میں ہر شخص کو کسی نہ کسی سہارے کی ضرورت ہے۔ پہلے اقتصادی لحاظ سے پرانے منظم طریقے سہارا تھے، وہ نہ رہے او رمقابلہ کا دور آگیا۔ پہلے نوعی لحاظ سے گھریلو زندگی سہارا تھی۔ اس میں ایک دل جمعی تھی۔ وہ دل جمعی نہ رہی۔ اور اس کے ساتھ ہی تعلیم نسواں اور سنیما نے مل کر لذت کی نئی راہیں دکھائیں۔ وہ راہیں جن کو دور سے دیکھنے کی اجازت ہے۔ لیکن جن پر چل کر زندگی کے مکمل کرنے کی ممانعت۔ یہ پہلو بھی تشنہ رہا۔ پہلے ادب کے فنی پہلو میں شعر کے معین دائرے تھے۔ وہ دائرے مٹ گئے یا ایک دھندلکے میں جاچھپے اور نفسا نفسی کے عالم میں نئے اصول نہ بن سکے، یہ سہارا بھی نہ رہا۔ اس حالت میں نیا شاعر ڈولنے لگا اور دنیا کا تو اصول ہی یہی ہے کہ جسے ٹھوکر لگے وہ اسے دھکا دیتی ہے تاکہ وہ منہ کے بل گرے۔
چنانچہ پہلے سہاروں کے نعم البدل کی کمی کا اظہار ہر نئے شاعر کے کلام میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ لیکن اس میں نئی شاعری کاکوئی قصور نہیں اور اگر افادیت ہی مقصود ہو تو اس کی افادیت سے کبھی انکارنہیں۔ نئی شاعری ایک مسلسل تجربہ ہے۔ خامیاں اس میں ہوسکتی ہیں، ہر تجربے میں ہوتی ہیں۔ لیکن اس کی خوبیاں ہی اہمیت رکھتی ہیں۔ کیونکہ خامیاں تو وقت کی جانچ پڑتال کے بعد دور ہوجائیں گی۔ اور خوبیاں پہلے سے زیادہ نمایاں اور مسلم۔ اس کے لیے ہمیں اس وقت تک انتظار کرنا ہوگا جب تک کہ ہم سیاسی، سماجی اور انفرادی زندگی کے تانے بانے کو نہ سلجھالیں اور اس دوران میں ہمیں ہمدردانہ انداز نظر رکھتے ہوئے اس حقیقت کو بھی یاد رکھنا ہوگا کہ نئی شاعری اپنے بلند اور وسیع امکانات کے باوجود ابھی ایک تجربہ ہے ایک ایسا تجربہ جس سے فوری تکمیل کی توقعات بے معنی اور نامناسب ہیں۔ اور جس کا مستقبل یقیناً روشن دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن یہ سب کامیابی نئے شاعروں کے ہاتھ میں ہے اگر وہ بات کے ہر پہلو کو دل لگاکر دیکھیں، خلوص سے اس پر غور کریں اور دل جمعی سے آگے بڑھیں تو چاہے کچھ بھی ہو میدان انہیں کے ہاتھ میں رہے گا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.