نیاز کے طنزیات اور ادبی شوخیاں
ظرافت کا مفہوم اس قدر وسیع ہے کہ اس کے ضمن میں ہر قسم کی زہرہ سرائی تک آجاتی ہے، حتی کہ پھکڑپن اور گالی گلوج بھی اس میں شامل ہے۔
آج کل ہندوستان کے بہت سے مزاح نگاروں کے مضامین اور بعض ہزل گو شعرا کے کلام میں یہ رکیک عنصر پایا جاتا ہے۔ خیالات کاتعلق تربیت سے ہے اور ماحول کا بہت گہرا اثر پڑتا ہے، اس لیے جن لوگوں نے ذہنی پستی اور اخلاقی فرو مائیگی کی فضامیں نشوونما حاصل کی ہو، ان کے رجحانِ طبعی کا معیار ظاہر ہے۔ عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مزاح نگاری کا واحد مقصد قارئین کو ہنسادینا ہے اور ایسے ہی مذاق کو کامیاب ترین تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت میں وہ ظرافت سب سے زیادہ بلند اور لائق تحسین ہے، جس میں طنزیات کا عنصر غالب ہو کہ اس میں اصلاحی پہلو بھی مضمر ہوتاہے۔
انگریزی ادبیات میں تھیکرےؔ مشہور ترین مزاح نگاروں میں شمار کیا جاتاہے۔ حالانکہ اس کی کتابیں پڑھ کر بہت کم ہنسی آتی ہے۔ بیشتر مضامین میں اس نے اپنی قوم کا، تہذیب و تمدن کا اور رسم و رواج کا مضحکہ اتنے طنزیہ پیرایہ میں اڑایا ہے کہ بعض لوگوں کے سینوں میں نشتر چبھ جاتے ہیں اور اصحابِ عقل و فہم اس سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔ نیازؔ کے مضامین کا مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا جاتا ہے کہ ان کے ہاں بھی طنزیات کا بحرِ بیکراں ہے، جس کی رو میں صدہا ایسی ادبی شوخیاں بھی مطالعہ میں آجاتی ہیں جو حقیقی ظرافت کی جان ہیں۔ اس لیے بلاشبہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو ادبیات میں نیازؔ کو وہی درجہ حاصل ہے جو انگریزی میں تھیکرےؔ کو حاصل تھا۔
پہلے نیازؔ کے اُن طنزیات کا ذکر کیا جاتا ہے جو صرف انہی کا مخصوص رنگ ہے اور دوسرے کے بس کا کام نہیں۔ عصرِجدید میں حامیانِ مذہب کو وہی رتبہ حاصل ہے جو کسی زمانہ میں یورپ کی سرزمین پر پادریوں کو حاصل تھا۔ اور جب محسوس کرلیا گیا کہ یہ مذہبی عفریت تہذیب و تمدن کو تباہ کرنے کے ذمہ دار ہیں، اس لیے ان کا قلع قمع ضروری سمجھا گیا اور تمام دنیا میں ان کے خلاف آواز بلند کی گئی۔ ہندوستان اس ضمن میں بہت پیچھے رہا اور نیازؔ سے قبل معدودے چند افراد نے اس طرف توجہ کی۔ چونکہ نیازؔ نے ایک ایسے ماحول میں تربیت حاصل کی تھی، جہاں مذہبی تعلیم کے ساتھ آزادیِ خیال کو بھی سمودیا گیا تھا۔ اس لیے انہوں نے پیشہ ور مولویوں کے خلاف اجتہاد شروع کیا اور خود ان مسائل کی تشریح و توضیح شروع کی، جن کی بے سروپا تاویلات سے مولویوں نے پیسہ کمانے کا ڈھونگ بنا رکھا ہے۔
یہ درست ہے کہ بعض اوقات ان کی شوخ نگاریاں حد سے زیادہ تجاوز کرجاتی ہیں۔ لیکن یہ صرف اس لیے کہ وہ جس مسموم درخت کو بیخ و بُن سے اُکھاڑ کر پھینک دینا چاہتے ہیں، اس کو کافی استقامت حاصل ہوچکی ہے اور تیز کلہاڑے کے بغیر اس کی قطع و بُرید مشکل ہے۔
ایک جگہ عورت کی اہمیت کو پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’’قدرت بھی اپنے روحانی کاروبار کو بغیر عورت کی مدد کے نہ چلا سکی۔‘‘ ممکن ہے بعض مولویانہ طبیعت کے حضرات اعتراض کریں کہ یہ قدرت کی توہین اور اس پر زبردست حملہ ہے لیکن اگر آدم و حوا کی روایت کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو یہ بھی ماننا پڑے گاکہ قدرت نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے عورت ذات کو ذریعہ کار بنایا۔ اگر حوا دائرہ تخلیق میں نہ آتیں تو آدم اپنی جنت ہی میں ہوتے اور اس دنیا میں سوائے آب و گل کے حیات کا مطلق وجود نہ ہوتا۔ یہ کوئی طنز نہیں، محض ادبی شوخی ہے۔
جنت کی حقیقت کسی کو معلوم نہیں لیکن علمائے کرام نے جو کچھ قیاس آرائیاں کی ہیں، وہ بجائے خود مضحکہ خیز ہیں۔ چونکہ اہل عرب ہمیشہ سے صنفِ نازک کے دلدادہ رہے ہیں، اس لیے ان کی تسکین روح کے لیے جنت میں اگر حوروں کا وجود نہ بتایا جاتاتو شاید وہ اسے جنت ہی نہ سمجھتے۔ لہٰذا اس امر پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے کہ نیک لوگوں کے لیے جنت میں حوریں ہوں گی جو محض طفل تسلی ہے۔ نیازؔ طنزاً لکھتے ہیں، ’’مذہب کہتا ہے کہ نیک کام کرواور حوریں لو۔ یعنی ہر گناہ سے باز رہنے کا صلہ اس طرح دیا جائے گا کہ وہاں اس سے زیادہ بہتر موقع گناہ کرنے کا ملے گا۔‘‘
کیسی معقول بات کہی ہے۔ اگرحور کا وجود ان تمام نسائی خصوصیات کے ساتھ ہے جو اس دنیا کی ایک عورت کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ گناہ و معصیت کا ارتکاب نہ ہو۔ جب کہ تعیش کے ساتھ بے فکری کی بھی فراوانی ہو اور یہ اندیشہ بھی نہ ہو کہ ایک بار پھر مرنا ہے۔ اگر برعکس اس کے، وہ ان خصوصیات کی حامل نہ ہو یا مرد کے احساسات ہی میں تغیر ہوجائے تو اس کا وجود اور عدم وجود برابر ہے۔ جنت کی حقیقت کے موضوع پر ان کاایک افسانہ سب سے زیادہ دلچسپ اورمشہور ہے، جو مئی ۳۱ء کے نگار میں شائع ہوا تھا۔
آپ خواب کی نیم شعوری حالت میں ہیں کہ ایک فرشتہ بیدار کرکے کہتا ہے، ’’چلو تمہیں جنت میں لے جانے کاحکم ملا ہے۔‘‘ فرشتے کی اس ناشائستگی پر ہنسی آجاتی ہے اور اپنے ہی دل میں کہتے ہیں، ’’چاہیے یہ تھا کہ ایک حور آکر آہستہ آہستہ شانہ دابتی، دوسری حور نرمی سے تلوے سہلاتی۔۔۔ اور اس پر بھی اگر میری آنکھ نہ کھلتی تو کونے میں بیٹھ کر کوئی ساز چھیڑتی، اپنے لبوں سے میری پیشانی کو مَس کرتی وار پھر جب میں انگڑائی لے ک راٹھنے والا ہوتا تو کم از کم سہارا ہی دیتی، اگر آغوش میں آتے شرم آتی تھی۔‘‘
کس قدر لطیف تخئیل ہے۔ اگر حوریں کثیر تعداد میں ایک جنس ارزاں کہ طور پر اہل جنت کے لیے میسر آسکتی ہیں تو اس کا اقتضا یہی ہے کہ انسان کو اس دنیا سے لے جانے کے لیے بھی وہی آئیں، فرشتوں کے ساتھ جانے میں کوئی شعریت نہیں ہے۔ فرشتے کے ناشائستہ طرزِ عمل اور گستاخ اندازِ تخاطب پر برہم ہوکر کہتے ہیں کہ، ’’داروغۂ جنت سے کہہ دو کہ اس کام کے لیے کسی انسان فرشتے کو مامور کریں۔ اور یوں بھی میں سمجھتا ہوں کہ تم غلطی سے میرے پاس آگئے ہو کیونکہ الحمد للہ آج تک میں کسی ایسی غلطی کا مرتکب نہیں ہوا کہ مجھے فردوس میں کوئی جگہ دی جائے۔‘‘ یہاں اس امر کواوضح کردینا ضروری ہے کہ لفظ ’’غلطی‘‘ سے نیازؔ کامطلب اس غرض مندانہ عبادت اور اس کے مفہوم سے ہے جس کے صلے میں جنت ملتی ہے۔ علمائے کرام نے عبادت کی فضیلت و برکت اور اس کے افادی پہلو کو ایسے رنگ میں پیش کیا ہے کہ بقول علامہ اقبالؔ وہ ’’سوداگری‘‘ ہوجاتی ہے اور عابد و معبود کے درمیان محض تاجرانہ تعلق پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ ارتکاب ’’غلطی‘‘ سے انکار کرتے ہوئے ’’الحمداللہ‘‘ کہنا ظاہر کرتا ہے کہ نیازؔ مذہب کی توہین نہیں کر رہے ہیں بلکہ صرف مولویوں کو چھیڑ رہے ہیں۔
اس کے بعد ان کی طبیعت میں ’’کھلنڈراپن‘‘ پیدا ہوتا ہے اور فرشتے کے ہمراہ جانے کے لیے راضی ہوجاتے ہیں اور ساتھ ہی اس سے فرمائش کرتے ہیں کہ، ’’ذرا سامنے کھڑے ہوکر لکھنؤ والوں کی طرح سلام تو کرو۔‘‘ مگر فرشتے کی کوشش حیدرآبادی سلام سے زیادہ ترقی نہیں کرتی۔ گویا مولویوں کو چھیڑتے چھیڑتے اہل لکھنؤ کو بھی گدگدا دیا۔ تاہم سرسری طور پر صرف ’’مزا‘‘ بدلنے کے لیے یہاں لکھنو ی طرزِ سلام بھی بیان کردینا خالی از دلچسپی نہیں۔
’’مذاکراتِ نیاز‘‘ میں اس کی تصویر نہایت لطیف الفاظ میں پیش کی ہے۔ ملاحظہ ہو، ’’سروگردن کے ایک ایسے خم کے ساتھ جو پشت تک مؤثر ہوتا ہے، داہنے ہاتھ کو سینے کے محاذ میں لاکر ہتھیلی اور انگلیوں کو پورا پھیلاکر گردن تان کر کلائی کے جوڑ کو ڈھیلا کرکے مسلسل کئی بار بار جلدی جلدی جنبش دینا اور اس طرح سارے ہاتھ میں تھرتھری پیدا کرنے کو رسمِ سلام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔‘‘ اگر آپ کو لکھنؤ جانے کااتفاق ہوا ہے یا کسی لکھنوی سے ملے ہیں تو ضرور محسوس کیا ہوگا کہ ان کاہر قول و فعل تصنع اور بناوٹ پر مبنی ہوتا ہے۔
جنت میں جاکر انہو ں نے وہ سب کچھ دیکھا جو آیاتِ قرآنی کی تفسیر میں مولویوں نے بیان کیا ہے۔ ہرچند مولفِ احسن التفاسیر کی روایت کے بموجب انہیں انگور کا دانہ اتنا بڑا تو نہیں ملا کہ اگر کوّا ستر ہزارسال تک اس کے اوپر سے اڑتا چلا جائے تو بھی اسے عبور نہ کرسکے تاہم وہ بہت بڑا تھا۔ نہروں میں دودھ اور شہد ملا ہوا بہ رہا تھا، اس لیے کناروں پر چپچپاہٹ پیدا ہوگئی تھی۔ زیتون اور کھجور وغیرہ کی بھی افراط تھی مگر ناگپوری سنتگرے لکھنوی خربوزے یا کابل کا سردہ نہیں تھا، اس لیے ان کو سخت مایوسی ہوئی۔ ممکن ہے اس تحریر سے بعض حضرات برہم ہوں لیکن یہ تمام باتیں سنجیدہ پیرایہ میں تفسیر کی کتابوں میں موجود ہیں اور غیرمذہب کے لوگ انہی چیزوں کو مدِنظر رکھ کر مذاق اڑاتے ہیں کہ آخر یہ کیا لغویت ہے۔
ظہور اسلام کے وقت عرب میں عیاشی اور نفس پرستی اپنے معراج پر تھی۔ چنانچہ قرآن میں ہزاروں جگہ بیان کیا گیا ہے کہ مرنے کے بعد نیک کام کرنے والوں کے لیے حسین و جمیل ہم عمر دوشیزہ حوریں ہوں گی۔ اہلِ عرب کھجور اور زیتون کے شائق تھے۔ دودھ اورشہد انہیں بہت پسند تھا، اس لیے جنت میں ان تمام اشیا کا وجود بتایا گیا۔ وہ لوگ دوسرے پیرایہ میں سمجھ ہی نہیں سکتے تھے۔ لیکن کیا ظلم ہے کہ اب بھی جب کہ دنیا اس قدر ترقی کرگئی ہے اور سائنس کے معقول نظریات نے آسمانوں کے تعینات کو فریبِ نظر ثابت کردیا ہے، ہم اب بھی یہی تسلیم کرنے کے لیے مجبور کیے جاتے ہیں کہ اوپر نیچے سات آسمان ہیں اور ان سے پرے جنت ہے، جہاں انگور ہے، کھجور ہے، زیتون ہے، شہد ہے، دودھ ہے، اور سب سے زیادہ حسین حوریں ہیں، جو ابتدائے آفرنیش سے دائرہ وجود میں ہیں اور پھر بھی نوعمر ہیں۔ اسی لیے تو حضرت اکبرؔ نے طنزاً کہا ہے،
ایسی جنت کا کیا کریں زاہد
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
نیازؔ جنت میں گھوم رہے ہیں، اپنے قصر نمبر ۲۴۶۷۵ کی تلاش ہے، تھک کر ایک مولوی کے محل میں گھس جاتے ہیں جو دودھ پینے اور شہد چاٹنے میں مصروف ہے۔ نہایت پرلطف گفتگو ہوتی ہے۔ عجیب و غریب مسائل کاحل ہوتا ہے۔ یعنی پہلے مرنے والی بیویاں جنت میں اپنے شوہروں کی منتظر رہتی ہیں اور اگر شوہر مرتد و ملحد ہوکر دوزخ میں چلے جائیں تو ان کی شادیاں جنت میں ان مردوں سے کردی جاتی ہیں جو کنوارے مرتے ہیں۔ لیکن وہاں بھی مرد بالکل اسی طرح عورتوں پر حاوی ہوتے ہیں جیسے اس دنیا میں۔ عورتوں کو صرف ان کے شوہر ملتے ہیں اور مردوں کو علاوہ بیویوں کے ہزاروں حوریں بھی۔ واہ! کیا انصاف ہے۔
غرض یہ مولوی صاحب کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی سب سے زیادہ خوبصورت حور کو طلب کریں۔ مولوی کو شک ہوتا ہے کہ کہیں اس اجنبی کی طبیعت اس پر مائل نہ ہوجائے۔ اس موقعہ پر نیازؔ کا استدلال دیکھیے۔ کتنا لطیف ہے کہ جنت میں نیک و بد کے اندر مطلق امتیاز نہیں اور اگر کوئی چیز بری بھی ہے تو کیا فکر، اس کی پاداش کچھ نہیں۔ کیونکہ جزااور سزا کا وقت گزرچکا۔ جنت میں ایک بار آجانے کے بعد ہمیشہ وہیں رہنا پڑتاہے۔ خواہ خوب دل کھول کر ریاکاری اور نفس پرستی کی جائے۔
یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آئی او رنہ کوئی مولوی معقول دلیل کے ساتھ سمجھا سکا کہ اگر ایک بار مرنے کے بعد اس دنیا میں نہیں آنا تو جزا اور سزا کا کیا مقصد ہے، جب کہ ظاہر ہے کہ کسی جرم کی پاداش صرف اس لیے دی جاتی ہے کہ آیندہ اس جرم کاارتکاب نہ کیاجائے اورنیک کاموں کااچھا صلہ اس لیے دیا جاتا ہے کہ آیندہ ایسے مستحسن افعال کیے جائیں اور دوسروں کو بھی عبرت حاصل ہو۔
حور کا حلیہ اور اس کی فطرت بھی عجیب تھی۔ ایک سفید فضائی پیکر حلۂ بہشتی زیبِ تن کیے، گویا ایک مردہ کفن پہنے کھڑا ہے۔ اس کی گردن جھکی ہوئی تھی۔ انہوں نے سراونچا کیا مگر نہ ہوسکا۔ گدگدی کی مگر وہ بے حس رہی۔ کمر میں چٹکی لی لیکن اس پر اثر نہ ہوا۔ پوچھا، ’’تم کون ہو؟‘‘ جواب ملا، ’’حور ہوں‘‘ ۔ لیکن یہ نہ بتاسکی کہ مرد یا عورت؟ قوتِ امتیاز کا بھی فقدان تھا۔ جذبات نام کو نہیں تھے۔ نہ اسے اپنی عمر معلوم تھی نہ یہ خبر کہ جوان ہوں یا نہیں۔ اب ذرا سوچیے کہ ایسی حور سے کیا فائدہ؟ اگر حور میں وہ تمام لوازماتِ حسن اور رعنائیاں نہ ہوں جو اس دنیا میں معیاری ہیں تو مرد کس طرح ان سے لذت یاب ہوسکتا ہے۔ چنانچہ یہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگتے ہیں اور رضوان کو ہدایت کرتے ہیں،
’’جنت کی تمام موجودہ حوروں کو فناکردیجیے اور ازسرِ نو حوریں بنوائیے لیکن اس کا خیال رہے کہ فردوس کی زمین یا یہاں کی کسی اور چیز سے ان کا خمیر نہ کیا جائے، بلکہ دنیا کی کسی ایسی سرزمین سے جہاں عورت کامفہوم ہی معصیت اور صرف معصیت ہے، اس کے لیے فی الحال یورپ کی سرزمین موزوں ہوگی۔
موجودہ حور کے اعضا میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ مدراس کے بال، بنگال کی آنکھ، پنجاب کی ناک، کشمیر کا چہرہ، امریکہ کی گردن، فرانس کاقد، اسپین کی لچک، سرکیشیا کارنگ اور جپسی عورتوں کا سینہ حاصل کیجیے۔ جب اس طرح ان کی تعمیر ہوجائے اور جان ڈالنے کا وقت آئے تو خون کے ساتھ پارہ بھی ملادیجیے اور ان کے دل میں یہ کیفیت پیدا کیجیے کہ جب مردوں کو دیکھیں تو بیتاب ہوجائیں لیکن زبان سے اس کا اظہار نہ کرسکیں۔ اسی کے ساتھ ان میں شانِ احتراز پیدا کیجیے۔ عشوہ و انداز اور لگاوٹ کی باتیں سکھائیے۔ گانا، ناچنا بتائیے۔ اور وہاں یہ سکھانا نہ بھول جائیے کہ صرف آنکھوں سے کیونکر مسکراتے ہیں۔‘‘
یہ طنزمحض مولویوں ہی کے خلاف نہیں ہے کہ انہوں نے حور کو ایک پیکرِ مرئی بنادیا ہے بلکہ اس حیا سوز تہذیب پر بھی طنز ہے جس میں بے شرمی کا نام ناز و ادا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ نیازؔ نے ابتداء میں لکھا ہے کہ ’’اس سرزمین سے جہاں عورت کا مفہوم ہی معصیت ہے۔‘‘ اندازِ بیان میں جو شوخیاں ہیں اسے قارئین خود سمجھ سکتے ہیں۔
’’حقیقتِ جنت‘‘ کے تضادمیں ایک افسانہ دوزخ سے متعلق لکھا ہے، جس کا عنوان ’’چند گھنٹے جہنم میں‘‘ ہے۔ سب سے پہلا سانحہ قبر میں گزرتا ہے، جب نکیرین شعلوں کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں۔ ان سے بہت کچھ گفتگو ہوتی ہے۔ فرشتوں کا یہ جواب بہت دلچسپ ہے کہ، ’’بے شک ہم نے آدم کو سجدہ کیا لیکن وہ سجدہ مجبوری کا تھا، نہ کہ دل کی خوشی کا۔‘‘
نیازؔ نے فرشتوں کے نام سے گویا خود انسان کے جذبہ پرستش پر حملہ کیا ہے۔ بمشکل ہزار میں سے ایک شخص ایسا ملے گا جو عبادت کو عبادت کی غرض سے کرتا ہے۔ یا تو مقصد براری کے لیے یا اپنے مصائب و آلام سے تنگ آکر اس امید میں کہ اس کے عوض سکون حاصل ہوجائے۔ لاکھوں ایسے ہیں جو تعلقِ عابد و معبود نہ جانتے ہوئے عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ خدا کا حکم ہے اور خلاف ورزی کرنے والے جہنم کی آگ میں ڈالے جاتے ہیں۔ یہ تعلیم ہے ان علمائے کرام کی جو کسی چیز کی حقیقت کو سمجھنے کی نہ خود کوشش کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو سمجھنے دیتے ہیں۔ وہاں جہنم کی ہولناک کیفیت اور فرشتوں کی روح فرساہیئت وہی ہے جو مفسرین بیان کرتے ہیں لیکن ایک مزاح کا پہلو یہ پیدا کردیا ہے کہ کچھ دیر بعد ایک پیکرِ آتشیں آکر حکم سناتا ہے کہ چند یوم کے لیے تم کو دوزخ میں آزاد چھوڑا جاتا ہے۔ اس کے بعد سزاکا سلسلہ شروع ہوگا۔ اگر یہ صورت پیدا نہ ہوتی تو دوزخ کے ایک ایک کونے میں جاکر اس آتش کدہ کا مطالعہ محال تھا۔ لکھتے ہیں، ’’خیر فردوس کی پابندی سے بہرحال جہنم کی آزادی بہتر ہے۔‘‘
اب سیر شروع ہوتی ہے۔ پہلے مکان کے دروازے پر ابلیسؔ کے نام کا بورڈ ہے مگر مکان خالی، کیونکہ اسے قیامت تک کے لیے دنیا میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ دوسرامکان فرعونؔ کا ہے۔ اسے کھولتے ہوئے پانی میں ڈبویا جارہا تھا اور یہ دوسرے قسم کا عذاب تھا۔ ہزارقسم کے عذاب ہیں، جس میں سے ہر ایک کی مدت ایک ہزار سال ہے۔ اس کے بعد پھر دس لاکھ سال کا لائحہ عمل مرتب ہوگا۔ پھر ہامانؔ، شدادؔ، قارونؔ، نمرودؔ، سامریؔ، ضحاکؔ وغیرہ کی عذاب گاہیں نظر آتی ہیں۔ قلو پطرہ کو بھی سخت عذاب دیا جارہاتھا لیکن اس وقت بھی اس کے اندر وہی رعنائیاں موجود تھیں۔ کیونکہ خدا کاجمالیاتی ذوق کبھی پورا نہیں ہوتا۔ لکھتے ہیں کہ، ’’اگر اس حالت میں بھی قیصرؔ و انطونیؔ اس کو دیکھ لیتے تو ایک بار دیکھنے کے لیے تمام عمر دوزخ میں رہناگوارا کرلیتے۔‘‘
زہرہؔ بھی نظر آتی ہے، جس نے ہاروت و ماروت کو دام میں پھنسایا تھا۔ دوسرے شعراکے ساتھ غالبؔ کا دوزخ میں ہونا ایک عجیب و غریب لطیفہ کے ماتحت ہے۔ یعنی یہ پہلے جنت میں تھے اور خوب مزے اڑاتے تھے کہ ایک فرشتے نے دریافت کیا کہ اگر کسی ناکردہ گناہ کی حسرت کا صلہ لینا ہے تو کہہ دو۔ ان کے منہ سے نکل گیا، ’’کوئی ایک۔۔۔‘‘ پھر کیا تھا۔ فوراً ان کے قصر کو جہنم میں ڈال دیا گیا کیونکہ فرشتوں نے، جو مولویوں کی طرح ظاہر پرست ہوتے ہیں، خداکے سامنے غالبؔ کا صرف یہ مصرع پڑھ دیا تھا، ’’دوزخ میں ڈال دے کوئی لے کر بہشت کو۔‘‘ اور اپنی کج فہمی سے یا ارادتاً مصرع اولیٰ نہیں پڑھا تھا۔ ورنہ غالبؔ کو فردوس کے اعلیٰ ترین حصہ میں جگہ مل جاتی۔
غالبؔ سے مزید گفتگو ہوتی ہے اور نیازؔ کی زبانی یہ سن کر کہ دوزخ میں ایسے ایسے مولوی اور تہجد گزار بزرگ بھی موجود ہیں جن کا جنتی ہونا یقینی تھا۔ کہتے ہیں، ’’اب دوزخ بھی رہنے کے قابل نہ رہی۔ دنیا میں تمام عمر ان کے صلاح و تقویٰ کا وعظ سنا اور اب یہ عذاب یہاں بھی موجود ہے۔‘‘ شعرا کو ایک ایک شعر کی داد عذاب کی شکل میں ملتی ہے۔ چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں غالبؔ اپنا منہ نوچنے اور سینہ زخمی کرنے لگے۔ گویا یہ داد تھی ان کے اس شعر کی،
تابندِ نقاب کہ کشودست کہ غالبؔ
رُخسار بہ ناخن صلہ دادیم و جگر ہم
’’جنت کی حقیقت‘‘ ایک خواب ہے اور ’’چند گھنٹے جہنم میں‘‘ ایک سکتہ کی کیفیت، جو شدید بیماری کے باعث طاری ہوگیا تھا۔ خدا ہی جانے کہ مولویانہ جماعت نے ان افسانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد کس نوع کی برہمی ظاہر کی ہوگی۔ جنت دوزخ کا کوئی حقیقی وجود ہے یا نہیں؟ اس کے متعلق قطعی فیصلہ کرنا مشکل ہے لیکن جو تفصیل مفسرین نے پیش کی ہے، اس کو تسلیم کرلینا حماقت ہے۔ اس کو کم فہم لوگوں کے لیے محض تعزیری طرزِ بیان کہاجائے تو درست ہے مگر حقیقت نہیں کہاجا سکتا، کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ وقت اور جگہ کے لحاظ سے جہاں تہذیب و تمدن کے دوسرے اصول مختلف ہوتے ہیں، اسی طرح جنت و دوزخ کا مفہوم بھی جدا ہوتاہے۔
مثلاً اہل چین کے نزدیک دوزخ اس جگہ کا نام ہے جہاں انتہائی برف باری ہوگی۔ شدید خنکی کے باعث لوگ ٹھٹھر جایا کریں گے اور برگ و گیاہ کا نام نہیں ہوگا اور جنت میں گرم ہوائیں ہوں گی، ہاتھ پاؤں سینکنے کے لیے آگ کے انبار ہوں گے۔ سورج چمکے گا اور بجائے برف کے انگارے گریں گے۔ گویا مسلمانوں کے نقطہ نظر سے بالکل متضادمفہوم ہے اور اس کاسبب چین اور عرب کاموسمی تضاد ہے۔
انہیں عقائد مذہبی کے سلسلے میں وہ طنزیات بھی شامل ہیں جو صرف مولویوں کی کورانہ اور نفس پرست ذہنیت سے متعلق ہیں۔ ایک افسانہ کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے۔ ملاحظہ ہو، ’’دنیا میں سانپ اور مولوی دو چیزیں ایسی ہیں جن کی قسموں کی انتہانہیں۔ البتہ فرق یہ ہے کہ اکثر سانپ زہریلے نہیں ہوتے اور مؤخرالذکر کایہ حال ہے کہ؎
’’ہرکرا جامۂ مولوی بینی
دردمش صد ہزار مارانگار‘‘
اس قوم کے افراد کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ لوگ خود وہ نہیں کرتے جس کی تلقین دوسروں کو کرتے ہیں اور اگر کبھی قول و فعل یکساں ہوئے بھی تو محض ظاہری شان پیدا کرنے کے لیے۔ چنانچہ نیازؔ لکھتے ہیں، ’’مسجد کے ملّا سے لے کر محراب و منبر کے واعظ تک، نمازِ جنازہ پڑھانے والے مولوی سے لے کر اس مولانا تک جو بیضاوی و بخاری کادرس دیتا ہے، ایک چیز سب میں مشترک پائی جاتی ہے اور وہ ان کے ظاہر و باطن کاتضادہے۔‘‘ نماز کی ہدایت کرکے خود بھی نماز پڑھتے ہیں لیکن اس دوران میں جو خیالات بدان کے دل کے اندر پیدا ہوتے رہتے ہیں، اس کی حقیقت کاعلم خدا ہی کو ہوسکتا ہے۔ زِنا سے بچنے کی نصیحت اور خود عصمت دری کریں۔ منبر پر کھڑے ہوکر وہ سب کچھ کہہ جاتے ہیں جو علمِ اخلاق کے نقطۂ نظر سے درست ہوتاہے لیکن یہ سوال کہ وہ خود اس پر عمل کرتے ہیں یا نہیں، بہت غور طلب ہے۔ حافظؔ کا یہ شعر یاد آگیا؎
واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبر می کنند
چوں بخلوت می روندآں کارِ دیگر می کنند
خواجہ حسنؔ نظامی نے بہت سے لوگوں کا حلیہ تحریر کیا لیکن ایک ٹھیٹ مادر زاد مولوی کی ہیئت آج تک انہوں نے الفاظ میں پیش نہیں کی۔ شاید اس لیے کہ نیازؔ اس چیز کو لکھ چکے ہیں، ’’ایک مولوی کی ہیئتِ وضعی جس میں اس کا بے تکا عمامہ، الجھی ہوئی زلف (گاہے تا گوش وگاہے تا بناگوش) لانبی پریشان داڑھی، زمین دوز بروت، سیاہ داغدار پیشانی، شیروانی نماکرتا، نیم ساقی پاجامہ، اور غیر د باغت شدہ متعفن چمڑے کاجوتا مع تسبیح و جریب و رومال اورناسدانی کے سب کچھ شامل ہے۔ ایک ایسی واضح صریح اختراع مستجل ہے، جس کو دیکھنے کے بعد گویا ہر شخص کافطری فرض ہوجاتا ہے کہ وہ اس وضع والے کو مولوی سمجھے۔‘‘ اور عام لوگوں پر تو اس وضع قطع کا اتنا گہرا اثر پڑتا ہے کہ لباس جتنا بوسیدہ اورصورت جتنی مسخ شدہ ہو اتنا ہی زیادہ ’’پہنچا ہوا‘‘ سمجھا جاتا ہے۔
’’نقاب اُٹھ جانے کے بعد‘‘ مجموعہ ہے بطرزِ افسانہ تین واقعات کا، جن میں تین صوفی منش مولویوں کاکردار پیش کیا ہے اور جن میں محض زیبِ داستاں کے لیے کچھ باتیں فرضی ہیں ورنہ وہ زندہ مرقع ہیں اوران کے مطالعہ کے بعد تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ حقیقت افسانے سے زیادہ تحیر خیز ہوتی ہے۔ مسرورؔ شاہ کی روداد بہت دلچسپ ہے۔ انہوں نے اپنی مقناطیسی قوت کے اثر سے ایک خاندان کو مسحور کر رکھا ہے اور ایک روز تنہائی میں صاحبِ خانہ کی لڑکی سے جو بلحاظ عمر خود ان کی لڑکی کے برابر ہے، نہایت بے حجابانہ گفتگو کر رہے ہیں اور وہ غریب مجبور ہے کہ اقتضائے شرم و حیا کے باوجود شاہ صاحب کی کسی بات پر برہم ہونے کی مجال نہیں رکھتی۔
اس موقعہ پر نیازؔ کا یہ جملہ کہ، ’’اپنے اوباشانہ فقروں کے درمیان وہ ایک آدھ لفظ اصطلاحاتِ تصوف کا بھی اس لیے صرف فرمادیے تھے کہ اگر کبھی ضرورت ہو تو اس کی کوئی درویشانہ تاویل ہوسکے۔‘‘ بالکل حقیقت پر مبنی ہے۔ خود میرے علم میں ایسے صدہاواقعات ہیں مگر محض خلطِ مبحث کے خوف سے ان کو ترک کرتاہوں۔
بقول نیازؔ، ’’مولوی کی اولین قسم جو ارتقاء مولویت کی سب سے پہلی کڑی تھی اور جو مکتبوں کے بوریوں پر نظر آتی تھی، اب تقریباً مفقود ہوچکی ہے مگر ان کے کارنامے مولویت کی تاریخ لکھنے والے کے لیے ہمیشہ اہمیت رکھیں گے کیونکہ موجودہ مولوی اسی گزشتہ مولوی کی ترقی یافتہ صورت ہے،
‘‘ پہلے اس طبقہ کاوسیلہ معاش چھوٹے بچوں کو تعلیم دے کر روپیہ حاصل کرنا تھا لیکن عہدِجدید میں جب سے مولوی رئیس الاحرار بناہے، اس کی شان جدا ہے اور آمدنی کے ذرائع مختلف ہوگئے ہیں۔ چندہ کے نام سے جمع کی ہوئی رقم اس کے لیے حلال ہے۔ لہٰذا تعویذ گنڈوں کے ذریعہ روپیہ کمانا اب زیادہ تر ’’مولویائن‘‘ کاکام ہے۔ اگر اتفاق سے اس کی رسائی کسی ایسے متمول طبقہ میں ہوجائے، جہاں پرانے خیال کے لوگ زیادہ ہوں تو اس کی بڑی آؤبھگت ہوتی ہے اور ایسی صورت میں اس کے ذوقِ شکم کو پورا کرنے کے لیے دسترخوان کا پروگرام نیازؔ کے الفاظ میں حسب ذیل ہوتا ہے،
’’صبح کانسخہ۔ نماز کے بعد ہی کشمیری چائے۔ سیر بھر دودھ اونٹا ہوا، پاؤ بھر مسکہ، ایک چھٹانک پسے ہوئے بادام، آدھ پاؤ قند، دوپراٹھے، تین ابلے ہوئے انڈے، چار کباب اور بس۔
دوپہر کا کھانا۔ مرغ کا قورمہ، مرغ پلاؤ، بریانی، پسندے، باقرخانی، مزعفر، بالائی۔
سہ پہر کاناشتہ۔ سادہ چائے اور تازہ پھل۔
شب کاکھانا۔ وہی جو دوپہر کو مگر شامی کباب اور بھنی ہوئی مچھلی کے اضافہ کے ساتھ۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ بہت کم مولوی نحیف و کمزور نظر آئیں گے اور بعض تو اس قدر تنومند ہوتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر مفت کی ورق گردانی کرنی پڑتی ہے، یہ معلوم کرنے کے لیے کہیں ’’مولویت‘‘ اور ’’فربہی‘‘ ایک ہی چیز کے دو نام تو نہیں ہیں؟ نیازؔ ایک موٹے تازے مولوی کی فربہی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’’اپنے اعضا کی مضبوطی، قامت کی تنومندی اور پھیل جانے والے گوشت کے لحاظ سے یہ اس ساخت کے انسانوں میں سے ہیں جن کے جسم کی لمبائی کو ہمیشہ اس کی چوڑائی سے شرم آیا کرتی ہے۔‘‘ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے لوگ جو ٹھگنے بھی ہوں اور موٹے بھی، وہ بالکل چوکور معلوم ہونے لگتے ہیں اور چلتے وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سڑک کوٹنے کا بیلن لڑھک رہا ہے۔‘‘
نیازؔ ایک مولوی کے ساتھ ریل میں مصروفِ سفر ہیں۔ مولانا کے مقابل ایک حسین خاتون بیٹھی ہے، جس کے دیدار سے وہ اپنی قوتِ بصارت میں اضافہ فرمارہے ہیں۔ اب اسے افسانہ سمجھیے یا واقعہ، نیازؔ ان سے ایک مسئلہ دریافت کرنے کی اجازت لے کر پوچھتے ہیں کہ ’’غناء خانہ ہمسایہ اور حسنِ راہ گزرے‘‘ سے فائدہ اٹھانے کا مسئلہ محض شاعرانہ ادعا ہے یا واقعی کوئی شرعی حقیقت اس میں پنہاں ہے؟‘‘ ظاہر ہے کہ اس سوال پر مولانائے مکرم کس قدر برہم ہوئے ہوں گے لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ حسن پرستی کاذوق سب سے زیادہ اسی طبقہ کے افراد میں ہوتا ہے اور اگر کوئی اعتراض کرے تو ’’اللہ جمیل ویحب الجمال‘‘ کہہ کر اپنے بچاؤ میں ایک مولویانہ تاویل پیش کردیتے ہیں۔
طنزیات کے ضمن میں نیازؔ کی چھیڑ عام لوگوں کی معاشرتی کمزوری اور رسمی خرافات سے بھی متعلق ہوتی ہے۔ مذہبی تہوار یا قومی رسوم نہ صرف دلچسپی کے لیے ضروری ہیں بلکہ تعمیرِ اخلاق میں بھی ان سے مددملتی ہے لیکن وہی رسوم افضل و اعلیٰ ہیں جن میں سطحی عنصر نہ ہو بلکہ ان سے پیدا ہونے والے نقوش دیر تک لوحِ قلب پر مرتسم رہاکریں۔ اگر ایک رسم مزاحیہ رنگ میں ہے تو اس میں دیرپا فرحت ہونی چاہیے اور اگر المیہ ہے تو ایسی کہ اس سے کچھ عبرت تو حاصل ہو، ورنہ یہ تمام عارضی ہنگامے بیکار ہیں۔
طنزیات کے ضمن میں نیازؔ کی چھیڑ عام لوگوں کی معاشرتی کمزوری اور رسمی خرافات سے بھی متعلق ہوتی ہے۔ مذہبی تہوار یا قومی رسوم نہ صرف دلچسپی کے لیے ضروری ہیں بلکہ تعمیرِ اخلاق میں بھی ان سے مدد ملتی ہے۔ لیکن وہی رسوم افضل و اعلیٰ ہیں جن میں سطحی عنصر نہ ہو بلکہ ان سے پیدا ہونے والے نقوش دیرتک لوحِ قلب پر مرتسم رہاکریں۔ اگر ایک رسم مزاحیہ رنگ میں ہے تو اس میں دیرپا فرحت ہونی چاہیے اور اگر المیہ ہے تو ایسی کہ اس سے کچھ عبرت تو حاصل ہو۔ ورنہ یہ تمام عارضی ہنگامے بیکار ہیں۔
مذاکراتِ نیازؔ نیم مزاحیہ مضامین کامجموعہ ہے، جن میں سب سے زیادہ طنزیہ مضمون ’’لکھنو اور لکھنویات‘‘ ہے۔ یہ مختلف حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصہ میں لکھنؤ کے محرم کا ذکرِ خیر ہے۔ میں بذاتِ خود محرم کے زمانے میں کبھی لکھنؤ نہیں گیا لیکن یہ تسلیم کرسکتا ہوں کہ نیازؔ نے جو کچھ لکھا ہے بالکل صحیح ہے، کیونکہ لاہور، میرٹھ اور آگرہ کے محرم میں شریک ہوچکا ہوں اور اس خرافات کاغائر نظر سے مشاہدہ کیا ہے جس کومذہبی اہمیت دی جاتی ہے۔ امام باڑوں کی تزئین اس قدر شان دار طریقہ پر کی جاتی ہے کہ حقیقتاً وہ عروس خانہ معلوم ہوتے ہیں۔
ایک غیر متعلق شخص جو محرم کی حقیقت کو نہ جانتا ہو، اس موقعہ پر شریک مجلس ہوکر کبھی محسوس نہیں کرسکتا کہ یہ ہنگامہ کسی شہید کے ماتم میں برپا کیا جارہا ہے۔ اس لیے نیازؔ کا یہ لکھنا کہ، ’’ہرشخص نہایت شوق و مسرت کے عالم میں پوری سج دھن کے ساتھ شاہ نجف چلا جارہاہے اور وہاں ہزاروں رنگین برقی قمقموں میں اس طرح پرتکلف دعوتیں ہو رہی ہیں جیسے واجدؔ علی شاہ کی سال گرہ منائی جارہی ہو۔‘‘ بالکل حقیقت پر مبنی ہے۔
شاہ نجف کی تمام دیواروں پر دیولے رکھنے کے اس قدر کنڈے لگے ہوئے ہیں کہ کوئی حصہ خالی نہیں چھوڑا۔ اور اب تو سناگیا ہے کہ بجائے دیولوں کے بجلی کے قمقے روشن ہوتے ہیں، جن کی تیز چمک رات کو دن بنادیتی ہے۔ جھاڑ فانوس اس کثرت سے آویزاں ہیں کہ دالانوں میں کھڑے ہوکر دیکھا جائے تو چھت بمشکل نظر آتی ہے۔ اندرونی حصہ بھی کچھ کم قابلِ دید نہیں۔ اور بقول نیاز،ؔ امام باڑہ دلہن کی طرح سجاہواہوتا ہے اور حوضوں میں فوارے چھوٹتے ہیں۔ اس ظاہری زینت کے بعد سوز خوانی کی مجالس بھی نفس ِموضوع کے لحاظ سے مضحکہ خیز ہوتی ہیں۔ نیازؔ نے ان مجالس کی دوقسمیں کرکے ان کی تصویر ان الفاظ میں کھینچی ہے،
’’اول قسم کی محافل کا مقصود زیادہ تر یہ ہوتا ہے کہ مرثیہ گو اپنی شاعری، اپنی مرثیہ گوئی اور اپنی حرکاتِ رقصیہ کی داد لے۔ اور دوسری قسم کی مجلس میں صرف فنِ خطابت کی تکمیل کی نمائش ہوتی ہے۔‘‘ صرف وہ مرثیہ گو کامیاب سمجھا جاتا ہے جو اپنے بیان سے سامعین کو رلادے یا ان پر رونے کی کیفیت طاری کردے۔ پھر رونے کاانداز بھی نرالا ہوتا ہے۔ چنانچہ نیازؔ نے لکھا ہے، ’’شہادتِ حسین پر جس انداز سے اظہارِ الم کیا جاتا ہے، وہ اہل بیت سے تو کسی طرح منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ ممکن ہے کہ جان عالم کے مٹیا برج جاتے ہوئے ان کے پس ماندگان نے اس طرح کا شور وشیون کیا ہو۔‘‘
مجھے خود مجالس میں شریک ہونے کاموقع ملاہے۔ ان لوگوں کی ادائے گریہ وزاری کا تصور کرکے بے محابا ہنسی آتی ہے، کیونکہ ان کے بدن کی جنبش بھی ایسی ہی معلوم ہوتی ہے جیسے کوئی ان کو گدگدا رہاہے۔
رسمِ محرم کا تقدس اس حسنِ انتظام سے ظاہر ہے کہ ہر شہر میں شیعہ حضرات تعزیوں کاجلوس ان بازاروں سے ضرور نکالتے ہیں جہاں شاہدانِ بازاری کے کوٹھے ہوتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ اس سینہ کاوی کی داد ’’عالمِ بالا‘‘ سے ملتی رہے، یا اس لیے کہ صنفِ نازک کے اعضا کا نرم و نازک لوچ بھی شریکِ ماتم ہوسکے۔ لکھنؤ کے چوک کاحال لکھتے ہوئے نیازؔ تحریر کرتے ہیں، ’’یہاں کے اکثر بالا خانے اس مخصوص طبقہ سے آباد ہیں کہ اگر اس عنصر کو انسانی آبادی سے علیحدہ کردیا جائے تو دنیا میں سوائے مسجدوں کے اور کچھ نہ رہ جائے۔‘‘ طنز کے علاوہ اس جملے کی شوخ بیانی بھی داد طلب ہے۔
نیازؔ کو تعجب ہوتاہے کہ اپنے سینوں کو فگار کرلینے کے بعد ان لوگوں کے دلوں کے اندر وہی ’’نشاطِ غیرمعصوم‘‘ کیوں موجزن رہتا ہے اور کیا وجہ ہے کہ اس ’’ہنگامہ مسرت‘‘ کے ختم ہوجانے پر ’’کوئی غیرمعمولی سوگ‘‘ فضا میں پیدانہیں ہوتا۔ یہ بات ہرشخص کے مشاہدے میں ہے کہ سخت بارش یا تیز آندھی کے ختم ہوجانے پر کائنات کا ایک ایک ذرّہ افسردہ و مضمحل نظر آتا ہے۔ اس کے قوی تھک جاتے ہیں لیکن ماتم کرنے والوں کے چہرو ں پر وہی بشاشت و تازگی قائم رہتی ہے۔ پھر عصر جدید میں تو اسے ہنگامۂ مسرت ہی کہہ لیجیے لیکن کسی زمانے میں یہی رسم ایک کاروبارِ معصیت بنی ہوئی تھی، جس کی تردید محال ہے، کیونکہ تاریخی واقعات کو مدنظر رکھ کر نیازؔ نے لکھا ہے،
’’اس کی ابتدا اولین فرماں روائے اودھ کے عہد میں ہوئی اورانتہا آخری شاہِ اودھ کی اس سیرت پر جو قیصر باغ کے ایک ایک حوض سے عریاں ہوکر نکلنے والی دوشیزہ کوموجِ کوثر وتسنیم میں ڈوبی ہوئی حور سمجھ کر مالِ یغما نہیں بلکہ حصہِ مومن کی حیثیت سے قابض ہوجاتی تھی۔ اس ’فراموش کار فردا‘ عہد کے ذاتِ مبثوثہ یہاں کی فضا میں اب بھی بالکل اس طرح نظر آتے ہیں، جیسے کسی رقاصہ کی محفل سے اُٹھ جانے کے بعد اس کے زرکار ملبوس سے ٹوٹے ہوئے بادے کے ریزے کہیں کہیں فرش پر چمکتے ہوئے مل جائیں۔‘‘
اگر شیعہ حضرات اس تحریر سے برہم ہوں تو یہ ان کی غلطی ہے اور اسے محض تعصبِ دماغی سے تعبیر کیا جائے گا کیونکہ اس طنز کے اصلاحی پہلو پر غور کرکے انہیں سوچنا چاہیے کہ اگر آج کل بھی اس رسم کے ساتھ کوئی لغویت وابستہ ہے (اور یقیناً ہے) تو اسے دور کردیا جائے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن پر دوسرے مذاہب کے لوگ ہنستے ہیں اور ان کا ہنسنا بجا ہے۔ واجدؔ علی کے زمانے میں محرم کی رسم جس طرح ادا کی جاتی تھی، وہ اس قدر مذموم ہے کہ اس کا خیال کرکے ہنسی بھی نہیں آتی بلکہ عبرت کے آنسو بہانے پڑتے ہیں۔ نیازؔ کی یہ سطور ملاحظہ ہوں،
’’دنیا اس واقعہ کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی کہ اسی قیصر باغ میں شہر کے اکابر و امرا کی حسین حسین لڑکیاں محرم کی روضہ خوانیوں، عزاداریوں اور تمثیل سازیوں میں ائمہ اطہار کی بیویاں بنا بناکر پیش کی جاتی تھیں اور یہاں کا عظیم المرتبت اور شوکت و جبروت والا بادشاہ اچھوتیوں کے ساتھ خود بھی دردِزہ میں مبتلا رہنے کے بعد کسی نہ کسی امام زادہ کو (مومی شبیہ، چینی کی مورت یا گڑیا کی صورت میں) جنا کرتاتھا اور جب مبارک سلامت کے ترانے گائے جاتے تھے تو وہ ایک نوعروس کی طرح گھونگھٹ نکال کر بیٹھ جاتا تھا اور جب عالمِ نشاط کی فراوانی سے مجبور ہوجاتا تو وہ خود بھی کنچنوں، پاتروں اور کسبیوں کے ساتھ مل کر اپنی بھدی کمر میں لرزش رقصانہ اور عفریتی جسم میں جنبش رامش گرانہ پیدا کرنے کی کوشش کرتا تھا۔‘‘
آج اگر کوئی فلم کمپنی ایسا تماشا تیار کردے جس میں کسی فرضی مسلمان بادشاہ کی توہین ہوتی ہو تو ہندوستان کے گوشے گوشے سے آواز بلند کی جاتی ہے، حتی کہ اس فلم کے مخصوص حصے تلف کردیے جاتے ہیں۔ کہاں یہ کہ عصمت فروش لڑکیاں ائمہ اطہار کی بیویاں اور بدکردار مرد امام زادے بنیں اور شہادت کی پوری تمثیل ایک کامیڈی کی شکل میں پیش کی جاے اور پھر بھی اس کا نام ’’ماتمِ حسین‘‘ رکھا جائے۔
اس مضمون کا دوسرا حصہ ان تعلقہ داران سے متعلق ہے جن کی جاگیریں لکھنؤ کے مختلف حصوں میں منتشر ہیں۔ اور بقول نیازؔ، ’’صوبہ اودھ میں اس جماعت کو وہی درجہ حاصل ہے جو روئے زیبا پر مصنوعی خال کاہوا کرتا ہے۔‘‘ یہ ان لوگوں کی جماعت ہے جنہیں تمام لوازمِ نشاط میسر ہیں، صرف اس لیے کہ انہیں شاہِ اودھ سے نمک حرامی کرنے اور حکومتِ برطانیہ کے ساتھ وفاداری تعلق رکھنے کے عوض بہت سے حقوق حاصل ہیں، تاہم ان میں سے بعض کی مالی حالت اس قدر خراب ہے کہ ’’وثیقہ کی تنگی انہیں جی کھول کر افیون پیمائی کی بھی اجازت نہیں دیتی۔ ان کا ایک ایک بال قرض میں بندھا ہوا ہے۔ غالبؔ کی تنخواہ میں ساہوکار صرف تہائی کا شریک ہوا تھا مگر وہ دلی کی باتیں ہیں اور دور کی۔ یہاں لکھنؤ میں ساہوکار تین چوتھائی سے زیادہ کا شریک ہے اور باقی حصہ چنیا بیگم کے لیے بھی کافی نہیں ہوتا۔‘‘
اس کے علاوہ اور سیکڑوں طنزیات ہیں، جن سے اگر کوئی سبق لینے والا ہو تو بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے۔
اس کاتیسرا حصہ شعرائے لکھنؤ سے متعلق ہے اور چونکہ یہ تمام مضمون ایک سیاحت نامہ کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے ہرشاعر کے کلام پر ایک طائرانہ نظر ڈالی ہے۔ اس میں حددرجہ سنجیدگی سے کام لیا گیا ہے، اس لیے فی الحال اس کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ کسی آیندہ موقعہ پر دیکھاجائے گا۔
اسی مجموعہ کے دوسرے مضمون میں ایک خط منقول ہے، جو بمبئی کے کسی دوست کی طرف سے لکھا گیا ہے۔ اس کی ادبی لطافتوں کو بیان نہیں کرتا کہ وہ خارج از بحث ہیں، تاہم ظرافت کی چاشنی بھی اس میں شامل ہے۔ یہ جملہ خوب ہے، ’’زکوٰۃ حسن سے افزایش جمال کا حال تو مجھے معلوم نہیں لیکن شباب کے باب میں اس مسئلہ کی صداقت پر مجھے کامل اعتماد ہے۔‘‘
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اپنے مال و متاع کی زکوٰۃ دینی چاہیے تاکہ خیروبرکت ہو۔ اس نظریے کوملحوظ رکھتے ہوئے یہ شاعرانہ نازک خیالی کہ اگر حسن کی بھی زکوٰۃ دی جائے، یعنی محبوب اپنے جلوؤں کو عشاق کے لیے عام کردے تو اس کی رعنائیوں میں اضافہ ہوتا رہے گا، ایک فرسودہ سی چیز ہے۔ اور اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ شباب کی افزونی صرف اس کے تحفظ میں ہے لیکن زکوٰۃ کے مسئلہ کو پیش کرکے یہ لکھنا کہ شباب بھی زکوٰۃ دینے کے بعد ترقی پذیر ہوجاتا ہے، امرِ واقعی ہو یا نہ ہو لیکن یہ ادبی شوخی کس قدر لطیف معلوم ہوتی ہے۔
ساحلِ سمندر پر بیٹھے اپنے تصورات میں محو ہیں۔ معاً دنیا کی بے شمار آبادی کا خیال آتا ہے اور اس مثال کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ خوردبین سے جراثیم کو دیکھ کر حیرت ہو یا نہ ہو، ان کی کثیر تعداد نگاہ میں کوئی وقعت نہیں رکھتی، یہ نتیجہ نکالتے ہی کہ فطرت کی وسیع نگاہ میں نوعِ انسان کی بھی کچھ حقیقت نہیں ہوسکتی، ’’پھر اس کے لیے حشر و نشر کااہتمام، عذاب و ثواب کا طومار، بہشت و دوزخ کاقصہ، آخر کیوں؟‘‘ ایک ایسی ادبی چٹکی ہے، جس سے مولویوں کے دل میں ٹیس ضرور ہوگئی ہوگی۔
سوچنے کی بات ہے کہ نوعِ انسان کے اعمال سے قدرت پر کیا اثر پڑسکتاہے۔ اگر تمام دنیا گناہ کرنے کا تہیہ کرے یا سب متحد ہوکر نیک کام کرنے لگیں تو بصورت اوّل نہ نظامِ قدرت درہم برہم ہوگا اور نہ بصورتِ ثانی اس میں استقامت و استواری۔ درآنحالیکہ وقت اورجگہ کے لحاظ سے نیک و بد کامعیار ہمیشہ مختلف رہامگر مذہبی تاویلوں سے خدا بچائے کہ ان سے قدرت کی عظمت ظاہر ہونے کی بجائے اس کی ہیچ میرزی ثابت ہوتی ہے۔
مذاکرات میں سب سے زیادہ دلچسپ ’’چاند کاسفر‘‘ ہے، جو ایک پرمذاق طنز ہے علمائے سائنس کے ان نظریوں پر جو محض قیاساتِ ذہنی کی بنا پر دعویٰ کرتے ہیں کہ کرۂ ارض کی طرح دیگر ستاروں میں بھی آبادی ہے اور وہاں تک پہنچنا انسان کے لیے کسی نہ کسی دن ممکن ہوجائے گا۔ یہ سفر ایک تیز رفتار ہوائی جہاز کے ذریعہ کیا جاتا ہے، جس میں دس بارہ آدمیوں کے لیے تمام ضروریاتِ زندگی موجود ہیں، حتی کہ تفریح طبع کے لیے سینما کا بھی انتظام ہے۔ اس میں ریڈیو ہے اورلاسلکی بھی، جس کے ذریعہ جہاز کے بیٹھنے والے امریکہ کے لوگوں سے گفتگو کرتے جاتے ہیں اور وہاں کے حالات کابھی علم ہوتا رہتاہے۔
سومیل کے بعد جب کرۂ ہوائی ختم ہوجاتا ہے تو تنفس کے لیے آکسیجن سے امداد لی جاتی ہے اور اس وقت نبض کی رفتار۱۵۰ فی منٹ تک بڑھ جاتی ہے۔ سفر اس قدر آسان ہے گویا ایک ریل گاڑی ہے جو نہایت اطمینان کے ساتھ زمین پر دوڑ رہی ہے، جہاں چاہا روک لیا اور جب چاہا چلادیا، یا رفتار میں کمی بیشی کردی۔ چنانچہ دوربین کے ذریعہ جب کپتان کو علم ہوتا ہے کہ چاند کے سمندروں میں طوفان آرہا ہے تو وہ جہاز کی رفتار اس قدر سست کردیتا ہے کہ مدتِ سفر بقدر دس یوم بڑھ جاتی ہے۔ بیس دن کی مسافت کے بعد کشش زمین سے نکل کر چاند کی حدود میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس وقت جہاز کو چلانے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ کچھ دن بعد اس کا موٹر الٹا چلایا جاتا ہے تاکہ رفتار میں تضاد ہو اور یکایک سطح چاند سے تصادم نہ ہوجائے۔
وہاں کی فضا دوسری نوعیت کی تھی، اس لیے ہر شے کا وزن زمین کے معیار سے مختلف ہوگیا تھا۔ جہاز کبھی مرطوب بادلوں میں سے گزرتا ہے اور کبھی سدیم کے آتشیں شعلوں میں سے۔ ایک بار شہابِ ثاقب کے چند ٹکڑے جہاز کے عرشہ پر آگرتے ہیں اور لوگ بطور یادگار ان کو اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ سفر بخیر و خوبی ختم ہوجاتاہے۔ وہاں کی عجیب وغریب مخلوق کی جوہیئت کذائی پیش کی ہے، وہ اس قدر پرلطف ہے کہ بلاقصد ہنسنے کو جی چاہتاہے۔ اگر ان کی جسمانی ساخت یہی ہوتی جو اس دنیا میں نوعِ انسان کی ہے تو کوئی معقول بات نہ ہوتی۔ اس لیے مذاق کارنگ پیدا کرنے کے لیے نیازؔ لکھتے ہیں کہ، ’’ان کا جسم صرف ایک ٹانگ پر قائم تھا، جو لکڑی کی طرح بالکل سیدھی اور بے جوڑ تھی، تاہم جسم سے اسے الگ کرسکتے تھے۔‘‘
یہ الفاظ پڑھ کر مجھے بے اختیار ہنسی آگئی۔ اپنے احباب کی ایک پرلطف نشست میں شریک تھا۔ مختلف موضوع زیر بحث تھے۔ ایک ایسے صاحب کا ذکر ہوا جو بالکل بہرے ہیں۔ اس پر شاہدؔ احمد صاحب (مدیر ساقیؔ) فرمانے لگے کہ اگر مشینوں کی طرح انسان کے بھی فالتو اعضا مل سکتے تو اچھا ہوتا، تاکہ حسبِ ضرورت ازکاررفتہ کو الگ کرکے نئے لگا لیا کرتے۔ غنیمت ہے کہ اس محفل میں کوئی مولوی صاحب نہیں تھے، ورنہ بھائی شاہدؔ کے خلاف کفر کافتویٰ لگادیا جاتا، کیونکہ انہوں نے قدرت کی ایک خامی پر تنقیدی نظر ڈال تھی۔
چاند کے لوگ پھیپھڑوں سے بھی بے نیاز تھے، کیونکہ بقائے حیات کے لیے ہوا کی ضرورت نہیں تھی۔ دانت نہیں تھے، کیونکہ وہاں کوئی سخت چیز کھانے کے لیے نہیں تھی۔ صرف مشروبات پر گزارا ہوتا تھا، اسی لیے انتڑیاں نہیں تھیں اور شکم بہت چھوٹا تھا۔ پیشانی پر صرف ایک کان۔ دو آنکھیں رخساروں پر اور دو گدی پر۔ تعلقِ جنسی کا طریقہ معلوم ہی نہ ہوسکا، جس سے افزائش نسل کا اصول پردۂ اخفاء میں رہا۔ ان کے علاوہ اور بہت دلچسپ مشاہدات ہیں۔ اور اختتام یہ کہ چھوٹی بچی جھنجوڑ کر اٹھا دیتی ہے اور ان کی آنکھ کھل جاتی ہے۔
ذاتی خطوط کے اندر جو بے تکلفی ہوتی ہے، وہ شاید دوسرے مضامین میں پیدا نہیں ہوسکتی۔ مضامین اس لیے لکھے جاتے ہیں کہ بہت سے لوگ پڑھیں اور داد دیں۔ خط صرف ایک ہستی کے لکھا جاتا ہے اور اسی لیے الفاظ کی ترکیب اور جملوں کی بندش میں زیادہ تصنع سے کام نہیں لیا جاتا۔ بناوٹ مطلق نہیں ہوتی۔ کچھ عرصہ سے نگار میں مکتوباتِ نیازؔ شائع ہو رہے ہیں۔ بعض سنجیدہ ہیں اور بعض نہایت لطیف۔ چونکہ ایک کہنہ مشق ادیب کی طرزِ نگارش اس میں پنہاں ہے، اس لیے غالبؔ وغیرہ کے خطوط کی طرح ان میں اس قدر وسعتِ خیال ہے کہ غیر متعلق اشخاص کے لیے بھی سامان دل بستگی ان کے اندر موجود ہے اور نگار کامطالعہ کرنے والے اس سے اچھی طرح لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ ایک خط میں لکھتے ہیں،
’’اگر ایک لمحہ کے لیے بھی مجھے منصب خدائی مل جاتا تو آپ کو معلوم ہے میں کیا کرتا؟ خضر والیاس کی عمریں چھین کر آپ کو دے دیتا اور مولوی کاجذبۂ پیر افشانی خود لے لیتا، وہ اس لیے کہ آپ کی حیات آپ کے ولولۂ کرم کا ساتھ دے اور یہ اس لیے کہ بڈھا ہونے کے بعد بھی جوان بنا رہا ہوں۔‘‘
یہ معلوم نہیں کہ مکتوب الیہ کون ہے مگر تحقیق کی کیا ضرورت۔ اس شوخ بیانی سے کون حظ نہیں اٹھا سکتا۔ ایک اور خط میں محض الفاظ کے الٹ پھیر سے ایسا حسنِ تضاد پیدا کیا ہے کہ بے اختیار داد دینے کو جی چاہتاہے۔ لکھتے ہیں، ’’غالبؔ وفاداری پر استواری چاہتا ہے۔ میں کہتا ہوں کاش آپ بیوفائی پر استوار ہوجائیں کہ اگروہ اصل ایماں ہے تو یہ بھی حسنِ کافری کی جان ہے۔‘‘ ایک شخص کو شادی کی مبارک باد دیتے ہوئے لکھتے ہیں، ’’اس حادثہ کی خبر اس قدر اچانک، اتنی غیرمتوقع طور پر معلوم ہوئی کہ اگر تم مجھ سے ملامت کا تقاضہ کرتے تو اس کے لیے بھی کوئی مناسب لفظ مجھے نہ ملتا۔‘‘
شادی کو حادثہ سے تعبیر کرناصرف مزاح ہی نہیں بلکہ درسِ عبرت بھی ہے کیونکہ نوشہ میاں نوعمر ہیں اور اسی لیے کچھ نصیحت کرتے ہوئے ایک مشاہدے کی چیز لکھتے ہیں کہ، ’’جوانی میں بوڑھا ہوجانا اتنا مشکل نہیں جتنا بڑھاپے میں جوان بننا۔‘‘ یہ جملہ ان لوگوں کے لیے بہت مفید ہے جو شادی کا مقصد صرف تعلقِ جنسی سمجھتے ہیں اور نشاطِ روح کو بھلا دیتے ہیں۔
ایک خط میں کسی دوست سے تعویق جواب کی شکایت کرتے ہیں لیکن کتنے اچھے پیرایہ میں۔ ملاحظہ ہو، ’’کاش آپ بیمار ہوتے کہ میں خود آپ کی طرف سے عذرِ سکوت ڈھونڈ لیتا۔ عدیم الفرصت ہونے کااس رسمی بہانہ سے اپنے آپ کو دھوکا دے دیا کرتا۔ یہ نہ تھا تو کسی جگہ مبتلائے عشق ہوجاتے کہ خرابی دماغ کایقین کرکے صبر کرلیتا لیکن جب یہ نہیں توپھر سوائے اپنی شومیٔ قسمت کے اورکیا کہہ سکتا ہوں۔‘‘ ایک دوسرے شخص کی طرف سے خط میں تاخیر ہونے کو اپنی شومیٔ قسمت بتانا ایک ایسی ادبی گدگدی ہے کہ اس مکتوب الیہ کو متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکتی اور اگر وہ فوراً جواب لکھنے کے لے آمادہ ہوجائے تو کوئی تعجب نہیں۔
اس کے علاوہ اور بہت سے دلچسپ ٹکڑے ہیں جن کو طوالتِ مضمون کے خوف سے فی الحال نظر انداز کرتا ہوں۔ اس سلسلہ میں ایک آخری چیز رہ گئی ہے جس کو بیان کردینا مناسب ہے۔ نیازؔ عموماً القاب نہیں لکھتے اور اگر لکھتے ہیں تو اس قدر لطیف کہ پورے ایک خط کاتلذّذ اسی ایک لفظ سے حاصل ہوجاتاہے۔ سرسری طور پر ایک نظر ڈال کر چند القاب جمع کیے ہیں جو ہدیۂ قارئین ہیں۔ ملاحظہ ہوں، قبلۂ روحانیاں۔۔۔ جانِ عالم۔۔۔ کرم گسترا۔۔۔ اے صاحبِ مکارم اخلاقِ کرد گار۔۔۔ مطاعی الاجل۔۔۔ اُلفت پناہا مودتِ دستگاہا۔۔۔ صاحبِ الطافِ عمیم۔۔۔ ان میں سے بعض القاب کے متعلق قیاس بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کس کی شان میں ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.