Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شاہی فرمان

قمر جمیل

شاہی فرمان

قمر جمیل

MORE BYقمر جمیل

    سامنے ایک بابِ قانون ہے۔

    اور یہاں ایک دربان ایستادہ ہے۔ اس دربان کے پاس دیہات سے ایک شخص آتا ہے اور قانون کے دروازے میں داخل ہونے کی اجازت چاہتا ہے۔ دربان اُسے یہ اجازت نہیں دیتا۔

    ’’کیا کچھ دیربعد میں اندرآسکوں گا؟‘‘

    ’’ہاں مگر ابھی نہیں۔‘‘

    قانون کا دروازہ کھلا رہتاہے اس لیے دیہات سے آیا ہوا یہ شخص اسی دروازے میں سے اندر جھانکتا ہے۔

    دربان ہنستا ہے۔

    ’’اگر تمھیں اندر آنے کی اتنی ہی شدید خواہش ہے تو تم میری اجازت کے بغیر اندر کیوں نہیں چلے آتے؟‘‘

    ہاں مگر یاد رکھو میں بہت طاقتور ہوں ہر چند کہ یہاں کا سب سے چھوٹا دربان ہوں۔ یہاں ایک ایوان سے دوسرے ایوان تک ہر دروازے پر دربان ہیں۔ ان میں سے ہر دربان دوسرے دربان سے زیادہ طاقتور ہے تیسرے دربان کا چہرا تو اتنادہشت ناک ہے کہ میں بھی اسے دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا۔ دیہات کا یہ شخص اس لانبے لبادے میں لمبی ناک اور تاتاری داڑھی والے دربان کو دیکھتا ہے تو یہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ وہ اس دربان کی اجازت کے بغیر اندر نہیں جائے گا۔ دیہات کا یہ شخص جو بہت ساری تیاریاں کرکے گھر سے نکلا تھا ایک ایک کرکے اپنی ہر چیز دربان کو رشوت میں دے دیتا ہے۔ دربان اُسے بتاتا ہے کہ میں یہ چیزیں اس لیے قبول کررہا ہوں کہ تمہیں یہ احساس نہ ہو کہ تم نے اپنی کوشش میں کوئی کسر چھوڑی ہے۔‘‘

    اس طویل مدت میں جب قانون کے دروازے پر وہ اس امید میں بیٹھا رہا کہ شاید اندر جانے کی اجازت مل جائے وہ دربان کو پُر امید نگاہوں سے دیکھتا رہا یہاں تک کہ وہ تمام دوسرے دربانوں کو بھول گیا اور سمجھنے لگا کہ اس کے اور قانون کے درمیان صرف یہی ایک دربان رکاوٹ ہے۔ شروع میں تو وہ اپنی قسمت کوکوستا رہا لیکن بعدمیں جیسے جیسے بوڑھا ہونے لگا وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا رہتا یہاں تک کہ اس کی بچپن کی معصومیت دوبارہ واپس آتی ہے اور دربان کے کالر میں اسے جو پسو نظر آتے ہیں ان سے وہ درخواست کرتا ہے کہ دربان سے میری سفارش کردو، وقت گزرتا جاتا ہے اور اس دیہاتی شخص کا بڑھاپا بڑھتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی آنکھیں دھندلاجاتی ہیں اور وہ یہ نہیں طے کرپاتا کہ واقعی اس کی آنکھیں دھندلارہی ہیں یا اس کے اطراف کی دنیا دھندلی ہوتی جارہی ہے لیکن اس حالت میں بھی وہ قانون کے دروازے سے پھوٹتی ابدی روشنی کا ادراک کرسکتا ہے اب اس کی زندگی ختم ہونے پر ہے۔

    دربان پوچھتا ہے۔

    ’’اب اورکیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘

    ’’یہ کیا بات ہے کہ اس تمام مدت میں میرے سوا کوئی اور شخص اندر جانے کی غرض سے یہاں نہیں آیا؟‘‘

    دربان محسوس کرتا ہے کہ اب تو اس دیہاتی شخص کی سماعت بھی جواب دے رہی ہے اس لیے اس کے قریب جاکر اس کے کان میں چلاتا ہے۔

    ’’اس دروازے سے تمہارے سوا کوئی اندر نہیں جاسکتا تھا کیوں کہ یہ دروازہ صرف تمہارے لیے کھلا تھا اب مجھے یہ دروازہ بند کرنا ہوگا۔‘‘

    فرمان

    کہانی کہتی ہے کہ شہنشاہ نے بسترِ مرگ سے تمہارے نام ایک پیغام بھیجاہے تم جو نا چیز اور نابودہستی ہو اور شہنشاہیت کے آفتاب سے لامحدود فاصلے پر موجود ہو تم جواَن گنت سایوں کے بیچ ایک حقیر سا سایہ ہو تمہارے نام شہنشاہ نے ایک فرمان بھیجاہے۔ شہنشاہ نے قاصد کو اپنے قریب جھکنے کا حکم دیا اور اس کے کان میں اپنا مدعا بیان کیا پھر شہنشاہ نے حکم دیا کہ قاصد اس کا پیغام اسے کان میں دوبارہ سنائے تاکہ شہنشاہ کو یقین ہوجائے کہ قاصد نے اس کا پیغام درست سنا ہے۔ فرمان کے الفاظ قاصد نے شہنشاہ کے کان میںدُہرائے۔ تب شہنشاہ نے سر کی جنبش سے بتایا کہ قاصد نے اس کا پیغا م درست سناہے۔ شہنشاہ کے بسترِ مرگ کے اطراف کھڑے ہوئے تمام شہزادے ، مشیر اور وزیر گواہ ہیں کہ شہنشاہ نے تمہیں پیغام بھیجا ہے۔

    قاصد شہنشاہ کاپیغام لے کر راستے میں رکاوٹ بننے والے ہجوم کو ہٹاتا ہوا آگے بڑھتا رہتا ہے۔ ہجوم کو کبھی دائیں ہاتھ سے اورکبھی بائیں سے شہنشاہ کا قاصد ہٹاتاجاتا ہے یہاں تک کہ ایک مشکل مقام آجاتا ہے جو ناقابلِ عبور معلوم ہوتا ہے لیکن وہ اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں ایک سورج کا نشان چمکتا ہے اور یہ ثابت کرتاہے کہ وہ شہنشاہ کا خاص قاصد ہے اسے یہ مقام عبور کرنے کی اجازت مل جاتی ہے لیکن ہجوم بہت ہے اورقاصد برابر آگے بڑھنے کی کوشش کررہاہے۔ تم بہت جلد اپنے دروازے پر اپنے شہنشاہ کے قاصد کی دستک سن سکتے ہولیکن یہ اسی وقت ہوسکتاہے جب و ہ مرکزی خواب گاہ سے باہر آجائے لیکن اگر وہ محنت کرکے باہر آ بھی گیا تو کچھ حاصل نہیں ہوگا کیوں کہ سیڑھیوں سے بھی اُترنا ہوگا اور اس صورتِ حال میں سیڑھیوں سے اترنا کوئی آسان کام نہیں اگر سیڑھیوں سے اُتر کرآگے بھی چلاگیا تو دربار کو عبور کرنے کامسئلہ آئے گا۔ دربار کے بعد محل کا بیرونی دائرہ اور پھر ایک بار زینہ اور دربار اور پھر محل کا تیسرا دائرہ اور یوں اَن گنت سال گزر جائیں گے اگر وہ کئی جگہوں اور زمانوں کے بعدمحل سے نکل بھی آیا توکیاہوگا۔ قاصد کے سامنے دنیا ایک دارالخلافہ اپنے ہی وجود کی پستیوں سے لبریز ہوگا اس مقام سے کوئی کبھی نہیں گزر سکتا چاہے وہ کسی مرُدہ شہنشاہ کا قاصد ہی کیوں نہ ہو۔

    قلب ماہیت

    ’’قلب ماہیت (Metamorphosis)‘‘ یہ ایک سیلزمین کی کہانی ہے اور کافکا کی کہانیوں میں سب سے طویل، یہ شخص جب ایک صبح اُٹھا تو کیڑے میں تبدیل ہوچکا تھا ایک عظیم البحثہ کا کروچ بن چکا تھا۔ گریگر سمسا اس شخض کا نام ہے جب وہ کاکروچ بن جاتا ہے تو وہ اپنے اور اپنے خاندان میں تعلق کی بنیاد تلاش کرتا ہے تو پتہ چلتاہے کہ ان کا باہمی تعلق انسانیت تھی کیوں کہ جیسے ہی اس کے اہلِ خاندان یہ سمجھنے لگے کہ اب وہ ایک انسان نہیں بلکہ ایک کیڑا ہے تو وہ سب اس سے آہستہ آہستہ کنارہ کش ہونے لگے۔ ماں کے سوا ہر شخص اس سے اپنی جان چھڑانا چاہتا ہے اب یہی عزیز اس کے کمرے میںغلاظت پھینکتے ہیں اسے حیوان کی طرح کھانے کے لیے دیتے ہیں۔ گریگر سمسااپنی موت کے خلاف لڑتا ہے لیکن اس کی زندگی ہی اس کی موت بن چکی ہے جب وہ اپنی موت کے قریب ہوتا ہے اور اپنی بہن کو وائلن بجاتے ہوئے سنتاہے تو وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ جیسے وہ کسی روحانی غذا کی طرف بڑھ رہاہے۔ گریگر سمسا موسیقی کے ذریعے ایسی دنیا میں پہنچنا چاہتا ہے جہاں اس کی روح اور دنیا ایک ہوجائے لیکن وہ اس منزل تک پہنچے کیسے کیوں کہ کافکا کہتاہے کہ مقصد تو ہوتا ہے راستہ نہیں ہوتا راستہ تو بس پاؤں کے ڈگمگانے کا نام ہے Metamorphosis کے پہلے جملے ہی سے پتہ چل جاتا ہے کہ گریگرسمسا کی موت ضرور ہوجائے گی چنانچہ یہ پوری کہانی موت کے آہستہ آہستہ وقوع پذیر ہونے کی داستان ہے ۔ یہ کہانی طالسطائے کی کہانی ’’ایوان ایلیچ‘‘ کی موت کی کہانی سے بہت ملتی جلتی ہے۔ طالسطائے کی کہانی موت کے بارے میں ہے اور کافکا کی کہانی کا تعلق زندگی میں موت سے ہے۔

    گریگر کی کہانی کے پہلے جملے میںنظر آجاتا ہے کہ کہانی کا نقطۂ عروج آگیا ہے اس کے بعد کہانی کا زوال آتا رہتاہے تین بار یہ زوال آتا ہے جب گریگر کہانی سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے یہ تین ذیلی نقطۂ ہائے عروج ہیں یہ اس کہانی کا خود اپنا ایک مخصوص فورم ہے اور یہ مخصوص فورم خود کہانی سے پیدا ہوا ہے۔ یہ کہانی دراصل گریگر سمسا کی موت کے بارے میں ہے۔ آخر کار گریگر سمسااپنی زندگی کی سچائی کو قبول کرلیتاہے جو اس کی موت کی سچائی بھی ہے اور مرتے ہوئے روحانی روشنی اورزندگی کو پالیتا ہے اس روشنی اورزندگی کو پانے سے پہلے گریگر سمسا پر جو کچھ گزرتی ہے اس کو کافکا نے بڑی خوبصورتی سے ادا کیا ہے۔

    گریگر سمسا پہلے ایک سیلزمین تھا۔ اس نے ایک تاجر کے یہاں ایسی ملازمت کرلی تھی جس نے اسے پورے معاشرے سے کاٹ کر رکھ دیا تھا۔

    ’’خداوند !‘‘

    وہ سوچ رہا تھا۔

    ’’یہ کتنا تھکا دینے والا کام ہے جو میں نے اپنے لیے منتخب کیاہے دن رات سفر کرتے رہنا، دفتر میں بیٹھ کر عملی طور پر بزنس کرنے سے پہلے مشکل کام ہے اور اس سے بڑھ کر سفر کے بارے میں پریشان ہونا، ریل گاڑی کے اوقات اور ان کےConnectionsکا خیال رکھنا، وقت بے وقت کھانا انسانوں سے ایسے تعلقات رکھنا جو قائم ہوتے ہی ٹوٹ جائیں، لعنت ہے ایسے کام پر۔‘‘

    کافکا کے والد نے کافکا کے بارے میں کہا تھا کہ زندگی میں اس کے لڑنے کا طریقہ کیڑوں جیسا ہے کاٹنا بھی اور پھر خون بھی چوسنا۔ اس کہانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ کافکا پر اس کے والد کے جملے کا کتنا گہرا اثر ہوا۔

    ’’قلب ماہیت‘‘ میں جب گریگر سمسا دفتر نہیں جاتا اس کے کمرے پر دستک ہوتی ہے وہ سیدھا ہوکر دروازہ کھولنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے آپ کو دفتر کے چیف کلرک اور گھروالوں کو دکھانا چاہتا ہے اور سوچتا ہے کہ اگر وہ ڈر جاتے ہیں تویہ ان کی ذمہ داری ہے اس کی ذمہ داری نہیں ہے لیکن اگر وہ اس سچویشن کو خاموشی سے قبول کرلیں تو پھر اس کے لیے بھی پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور پھر وہ جلدی کرکے آٹھ بجے کی گاڑی پکڑسکتا ہے لیکن گریگر سمسا کی ماں اُسے دیکھ کر بے ہوش ہوجاتی ہے۔ چیف کلرک بھاگ کر رخصت ہوجاتا ہے اور اسے اس کا باپ کمرے میں واپس دھکیل دیتا ہے اور پیدل چلنے والی چھڑی کے ذریعے اور باپ کے دھکا دینے سے وہ کمرے میںآکر گرجاتاہے اور اس کے جسم سے خون بہنے لگتا ہے دروازہ بند کردیا جاتاہے۔‘‘

    اور پھرخاموشی ہوجاتی ہے۔ پہلی ہی بار انسان اس کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں لیکن اب بھی وہ اس دھوکے میں ہے کہ یہ صورتِ حال عارضی ہے گریگر سمسا کی آواز اس قدر بدل گئی ہے کہ دوسرے اس کی بات نہیں سمجھ سکتے۔ خاندان میںگریگرسمسا کے لیے اصل آدمی اس کا بوڑھا مگر مضبوط باپ تھا لیکن اس نے پہلے دن ہی یہ طے کرلیا کہ بیٹے کے ساتھ سختی کی جائے کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ اس کا بیٹا اب زندہ رہنے کے لائق نہیں ہے لیکن اس کی ماں اس پر رحم کھاتی ہے بہن بھی اس قدر بدل چکی ہے کہ چلاتی ہے کہ اسے یہاں سے چلا جانا چاہیے۔ مسئلے کا حل یہی ہے۔

    ’’ابا جان !‘‘

    گریگر سمسا کی بہن نے میز پر مکا مارتے ہوئے کہا۔

    ’’اب ہماری زندگی اس طرح نہیں گزر سکتی ممکن ہے آپ محسوس نہ کرتے ہوں لیکن مجھے شدت سے محسوس ہوتاہے کہ میں اس عفریت کے سامنے اپنے بھائی کا نام بھی نہیں لے سکتی۔ مجھے بس یہی کہنا ہے کہ ہمیں اس سے بس نجات حاصل کرلینی چاہیے۔ ہم نے ہرطرح کوشش کی ہے کہ ہم اس کے ساتھ رہیں مگر نہیں رہ سکے۔ اب ہمیں کوئی الزام نہیں دے سکتا۔‘‘

    گریگرسمسا کی بہن اپنی ماں کے قریب گئی اور جب اس کی ماں کو شدّت سے کھانسی آرہی تھی۔

    ’’ابا جان ! اس میں آپ دونوں کی موت واقع ہوجائے گی جتنی محنت ہم لوگوں کو کرنی پڑتی ہے ناں،ہم اتنی محنت کے ساتھ گھر پر اس نوعیت کے دکھ کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتے۔‘‘

    اس کی ماں کھانس رہی تھی اور اُس پر کھانسی کا دورہ بہت شدید تھا وہ بڑی شدّت سے چیخ چیخ کرونے لگی یہاں تک کہ اس کے آنسو اس کی ماں کے چہرے پر گر کر بہنے لگے۔

    RECITATIONS

    ظفر جمیل

    ظفر جمیل,

    ظفر جمیل

    volume01 article04 ظفر جمیل

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے