Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تاریخی شعور

محمد حسن عسکری

تاریخی شعور

محمد حسن عسکری

MORE BYمحمد حسن عسکری

    ادبی جمود کے اسباب سیاسی بھی ہوسکتے ہیں، معاشی بھی۔ مگر من جملہ اور باتوں کے ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اہل فکر سے جو مطالبات زمانہ کر رہا ہے وہ ان کے لیے بڑے غیرمتوقع ہیں، چنانچہ وہ شش و پنج میں پڑگئے ہیں۔ ہر طرف سے یہ آواز آرہی ہے کہ ایک نئی قسم کا دستور بنے۔ (۱) ایک نیا معاشی نظام ہو، ایک نیا ادب پیدا ہو، مگر ’’نئے‘‘ کی تعریف واضح اور معین الفاظ میں کوئی نہیں کرتا۔ غالباً ایسی تعریف ممکن بھی نہیں، مگر اندیشہ ناک بات یہ ہے کہ وسیع پیمانے پر کوئی ایسی کوشش نہیں ہو رہی جس سے اور کچھ نہ سہی، ایک چلتی ہوئی سی تعریف ہی مہیا ہوجائے۔ اس ’’نئے نئے‘‘ کی رٹ نے بات کو اور مبہم بنادیا ہے۔ ہماری موجودہ سیاسی حیثیت نئی سہی مگر ہم یہ بات بھولے ہی جارہے ہیں کہ ہم ’’نئے‘‘ سے زیادہ پرانے ہیں۔ محض اتنی سی بات کا شدید اور ہمہ گیر احساس نہ رکھنے کے باعث یا احساس سے غفلت برتنے کے باعث ہماری ذہنی دشواریاں خواہ مخواہ بڑھ گئی ہیں۔

    (۱) یہ مضمون اس وقت کی پاکستانی صورت حال کو پیش نظر رکھ کر لکھا گیا تھا لیکن اس میں ایسی باتیں بھی زیر بحث آئی ہیں جو آج اور یہاں بھی معنی رکھتی ہیں۔ (م۔ ۱)

    مگر جو لوگ ہمارا ’’پراناپن‘‘ یاد دلاتے رہتے ہیں، وہ اور بھی قیامت ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہمیں ’’اصلی اسلام‘‘ کو ازسرنو زندہ کرنا چاہیے۔ ان کے نزدیک خلافت راشدہ کے بعد سے لے کر آج تک کی تاریخ ایک مسلسل بے راہ روی کی داستان ہے ان کا دعویٰ ہے کہ قرون اولی کے صحابیوں کے بعد اب ہم نے اسلام کو ٹھیک ٹھیک سمجھا ہے۔ چنانچہ پاکستان میں ہر کام، ہماری تفسیر و تشریح کے مطابق ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلمانوں کی تیرہ سو سالہ تاریخ باطل ہوگئی اور اس عرصے میں مسلمانوں نے انسانیت کے کلچر میں جو گراں قدر اضافے کیے ہیں، وہ بھی سوختنی قرار پائے۔ اس رجحان کو ایک اور سمت سے بھی مددملتی ہے، ایک گروہ کہتا ہے کہ اسلام چونکہ بنیادی طور سے جمہوری مذہب ہے اس لیے بادشاہت کا قیام ارتداد کے برابر ہے اور مسلمان بادشاہوں کے زیر اثر جو کچھ ہوا ہے وہ اسلام کی تاریخ سے خارج ہے اور جمہوریت پاکستان کے کلچری ترکے میں شامل نہیں ہے۔ اس استدلال کی لپیٹ میں الحمرا اور تاج محل سے لے کے الف لیلہ اور میر و غالب کی شاعری تک سب چیزیں آجاتی ہیں۔ عرب بادشاہوں نے جو کچھ کیا وہ تو پھر بھی تھوڑا بہت انگیز کرنے کے قابل ہے کیونکہ وہ بادشاہ عرب تھے مگر ہندوستان کے مسلمان بادشاہوں کے عہد میں جو تخلیقی کارنامے ہوئے ہیں وہ تو بالکل ہی خارج از بحث ہیں کیوں کہ یہ بادشاہ ہندوستانی تھے۔ امیر خسرو جیسے عالم اور صوفی کی تخلیقی کوششیں بھی اسی ذیل میں آجاتی ہیں کیوں کہ اسلام کو نہ تو امیر خسرو سمجھتے تھے اور نہ حضرت نظام الدین اولیاء، اصلی اسلام تو اب جاکے دوچار آدمیوں کی سمجھ میں آیا ہے۔

    یہ نظریہ صرف ’’اسلامی‘‘ جماعتوں ہی کا نہیں، ہماری حکومت کے بعض اہم شعبے تک اسی چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مثلاً ریڈیو پاکستان ایک پاکستانی موسیقی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ خیال ہے کہ کچھ لوگوں کوعراق بھیج کے موسیقی ’’منگوائی‘‘ جائے۔ ہندوستانی موسیقی پرمسلمانوں نے جو کچھ محنت پچھلے چھ سو سال میں کی ہے، وہ گئے بٹے کھاتے میں! تاریخی احساس نہ ہونے کے طفیل آ ج ہمارا ریڈیو اس پر آمادہ ہے کہ ہمارا کیا دھرا خاک میں مل جائے اور ہم پھر ایک سے گنتی شروع کریں۔ مسلمانوں کی تاریخ سے ایسی ہی بے رخی برتی گئی تو نہ جانے اور کیا کیا گل کھلیں گے۔

    اسی ایک واقعہ پر غور کیجیے تو کتنی باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے دو تاریخی لمحے ہیں۔ ایک تو امیر خسرو کا زمانہ دوسرا اپنا زمانہ، خسرو کے زمانے میں قوم کا اہل فکر طبقہ زندہ تھا۔ اس کی تخلیقی اہلیت بیدار تھی، اسے اپنے اقدار کا علم تھا اور ان پر کامل یقین تھا۔ ان کے لیے سب سے پہلی چیز تخلیق تھی، وہ لوگ مذہب کو کچا گھڑا نہیں سمجھتے تھے کہ ذرا سی ٹھیس میں پھوٹ جائے۔ امیر خسرو ترک تھے مگر وہ ہندوؤں کی موسیقی سے نہیں ڈرے۔ انہوں نے ہندوؤں کی موسیقی پر ایسا قبضہ جمایا کہ ہندوؤں کے ہاتھ سے ہی نکال لے گئے۔ اور آخر وہ دن آیا کہ مسلمان استاد ٹھہرے اور ہندوشاگرد اور مسلمان، ہندوؤں کو طعنہ دینے لگے کہ یہ تو ہمارا فن ہے تم کیاجانو، یہ تو تھا اس زمانے کا حال جب قوم کی تخلیقی صلاحیتیں پورے زور پر تھیں۔

    اس کے مقابلے میں ہمارا زمانہ ہے جب اہل فکر طبقے پر بے دلی طاری ہے، اپنی اقدار پر پوراایمان نہیں، اپنی قوم سے واقفیت نہیں، قوم کی محبت نہیں مگر قوم سے علیحدہ رہ کر بھی زندگی بسر نہیں کرسکتے، اس لیے کوئی بات منہ سے نکالتے ڈرتے ہیں کہ قوم ناراض نہ ہوجائے۔ یہ سن رکھا ہے کہ اسلام پر قوم کا اعتقاد ہے اس لیے اسلام کا نام لے لے کر قوم کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ جب تخلیقی کام کرنے والوں کا یہ رنگ ہو تو ظاہر ہے کہ موسیقی بھی عراق سے منگانی پڑے گی، بلکہ

    آئیں گے غسال کا بل سے، کفن جاپان سے

    جس قوم نے الحمرا اور تاج محل جیسی عمارتیں، الف لیلہ اور طلسم ہوشربا جیسی داستانیں، حافظ اور میر کی سی شاعری اور امیر خسرو جیسے موسیقار پیدا کیے ہوں، وہ آخر تخلیق سے کیوں ڈرے؟ قوم تو شاید نہیں ڈرتی، البتہ ایسے لوگ ضرور ڈرتے ہیں جن کے اندر زندگی گھٹ کے ’’جوے کم آب‘‘ رہ گئی ہے۔ اگر واقعی قوم بھی ڈرتی ہے تو اسے بھی مسلمانوں کی تاریخ سنانے کی ضرورت ہے، یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ خلافت راشدہ کے ساتھ ساتھ ’’اصلی اسلام‘‘ بھی ختم ہوگیا تو اس طرح یہ لوگ اسلام کو ایک چھوٹی سی چیز بنادیتے ہیں۔ اگر اسلام کوئی ادبی تحریک ہوتا تو خیر، یہ بات سمجھ میں آنے والی تھی۔ بیس تیس سال کی عمر بھی ایسی تحریکوں کے لیے عمر نوح ہے مگر ایک ایسا خیال جو زندگی کا عالمگیر نظام بن کر سامنے آئے اور اس پر عمل ہو بس چھتیس سال، تو وہ خیال ہی کیا ہوا! اگر خلافت راشدہ کے بعد مسلمانوں میں بے راہ روی آگئی تو یہ تعجب کی بات نہیں، تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ہزار خرابیوں کے باوجود مسلمان آج تک زند رہے، اور بڑے ٹھاٹ سے جینے کی لگن اب بھی سینے میں رکھتے ہیں۔

    تعجب کی بات تو یہ ہے کہ بے راہ روی کے باوجود مسلمانوں نے لاکھوں کو تخلیق کی راہ پر ڈالا۔ اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ مطلق العنان بادشاہی کے باوجود اسلام کی بنیادی جمہوریت کو جہاں بھی موقع ملا چمک اٹھی، جو لوگ اسلام کو مسلمانوں کی تاریخ سے الگ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اسلام کے دشمن ہیں۔ اسلام نے خیال اور عمل کوایک کردیا تھا۔ یہ لوگ اسلام جیسی زندہ حقیقت کو محض ایک عقیدہ بنادیناچاہتے ہیں۔ امریکہ اور اشتراکی روس کو طعنہ دیا جاتا ہے کہ تم نودولت ہو، تمہارا کوئی ماضی نہیں اس لیے تمہیں اپنے مستقبل کا بھی پتا نہیں۔ ہمارے پاس تیرہ سو سال کی تاریخ موجود ہے، اور یار لوگ ہمیں صلاح دیتے ہیں کہ اسے طاق نسیاں پر رکھ دو۔ اپنی قوم کے اجتماعی تجربے سے اگر ہم فائدہ نہ اٹھاسکے تو یوں ہی اندھیرے میں بھٹکتے پھریں گے، بلکہ غیروں سے آنکھیں مانگیں گے۔ اس تیرہ سو سال کے عرصے میں ہماری قوم نے نہ جانے کیا کیا دیکھا ہے بنی بھی بگڑی بھی ہے، ہنسی بھی ہے اور روئی بھی ہے، پاک باز بھی رہی ہے اور عیاش بھی۔ غرض وہ کون سا کام ہے جو ہم نے کرکے نہیں دیکھا۔ ان سب چیزوں کااثر ہماری رگ و پے میں اترچکا ہے۔ ہم اس اثر سے پیچھا چھڑانا چاہیں تو بھی نہیں چھڑا سکتے۔

    ہم صرف عمر بن عبدالعزیز ہی کے جانشین نہیں ہیں، واجد علی شاہ اور محمد شاہ رنگیلے کے بھی جانشین ہیں۔ اگر مسلمانوں کی تاریخ ہماری تاریخ ہے تو ہمیں اس تاریخ کو مجموعی طور پر قبول کرنا پڑے گا۔ اس تاریخ کے کسی دور کو ہم اچھا یا برا کہہ سکتے ہیں، مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر پاکستان کو ایک عظیم الشان ملک بننا ہے تو ہر پاکستانی کو اپنی پوری تاریخ کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانا ہوگا۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ محسوس کرنا پڑے گا کہ عمر بن عبدالعزیز کی اچھائیاں میری اچھائیاں ہیں اور واجد علی شاہ کی برائیاں میری برائیاں ہیں، اور ان سب اچھائیوں برائیوں کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔ تاریخ میں بہت سی شرمناک باتیں ضرور ہیں مگر ان کو شرمناک کہنے سے ہمیں اسی وقت فائدہ حاصل ہوسکتا ہے جب ہم یہ سمجھتے ہوں کہ یہ شرمناک باتیں ہم سے سرزد ہوئی ہیں اور ویسے بھی اگر ہم اپنے مستقبل پر یقین رکھتے ہیں تو ان باتوں پر ضرورت سے زیادہ شرمانا بھی نہیں چاہیے۔ جو قوم قرنوں کی عمر لے کر آئی ہو، اسے پچاس، سو سال پستی اور ذلت کی زندگی بھی بسر کرنی پڑجاتی ہے۔

    غرض یہ کہ اس وقت پاکستانیوں کے سامنے جو سب سے بڑا ذہنی مسئلہ ہے۔ وہ مسلمانوں کی تیرہ سو سالہ تاریخ کو اپنے شعور میں رچانے کا ہے۔ ہمارے سینکڑوں سوالوں کا جواب اس ایک چیز میں ملے گا۔ ہمیں اپنی تاریخ کو ازسرنو سمجھنا ہے اور اپنی قومی زندگی کی چھوٹی سی چھوٹی باتوں میں اسے اپنا رہنما بنانا ہے۔ جب قوم کے ذہنی مسائل انتہا سے زیادہ پیچیدہ نظر آنے لگتے ہیں تو یہ سوچ کے مجھے بڑی تسلی ہوتی ہے کہ میری قوم ۱۷۸۵ء یا اکتوبر ۱۹۱۷ء میں نہیں پیدا ہوئی۔ ہم نے تیرہ سو سال میں بہت سے کام کیے ہیں اور اب وہی کام پھر سے نئے حالات کا لحاظ رکھ کے کرنے ہیں۔ ہمارے سامنے نمونوں کی کوئی کمی نہیں۔ ہمیں اپنی تاریخ سے بس یہ سوال پوچھنا ہے کہ اسلام چند ٹھوس عقاید کا مجموعہ بن کر دنیا میں آیا یا ایک زبردست تخلیقی تحریک بن کر۔

    جدھر بھی نظرڈالیں ہمیں یہی دکھائی دے گا کہ مسلمانوں نے اپنے بنیادی اقدار کو تو ضرور پیش نظر رکھا مگر تخلیق کی دھن میں یہ سوچنے کے لیے کبھی نہیں رکے کہ فلاں چیز ہماری ہے یا غیروں کی۔ انہیں جہاں سے بھی خام موادملا بے کھٹکے لے لیا، اور اس سے اپنی مرضی کے مطابق چیزیں بنائیں۔ انہوں نے یونانیوں سے سیکھا، ایرانیوں سے سیکھا، ہندووں سے سیکھا، ہر ایک سے سیکھا، مگر آخر میں ان کی انفرادیت ہرجگہ ابھرآئی۔ اس طرح وہ انسان کی نفسیات سے بھی نہیں ڈرے۔ جنس کا نام آتے ہی ان کا وضو نہیں ٹوٹا۔ سعدی نے پھکڑپن سے بھی گزیر نہیں کیا مگر پھر بھی رحمتہ اللہ علیہ بنے رہے۔ مسلمانوں نے ڈرنا اس وقت سیکھا جب تخلیقی لہر کمزور پڑگئی۔

    قائد اعظم نے کہا تھا کہ پاکستان بننے سے انسانی روح آزاد ہوگئی ہے کہ اپنی تخلیقی جدوجہد میں پوری سرگرمی دکھائے۔ مگر یہ کیا قید ہے کہ ہم میں سے بعض لوگ خود اپنی تاریخ سے گھبرا رہے ہیں؟ اگر ہماری روح میں تازگی اور توانائی ہے تو ہمارے دور انحطاط کی تاریخ بھی ہمیں بہت کچھ سکھاسکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ناکہ مراہاتھی بھی سوالاکھ کا ہوتا ہے، مسلمان بگڑتا بھی ہے تو اپنے انداز میں بگڑتا ہے، اس میں بھی ا یک الگ ادا ہوتی ہے۔ لکھنؤ کی زندگی جو بناوٹی رنگ اختیار کرگئی تھی، اس کے جتنے بھی نام رکھے جائیں بجا ہے۔ لیکن تکلفات کی ورزشوں میں انسانی روح کے بعض حصے واقعی سنور گئے تھے اور ہمیں ایسی چونکادینے والی مثالیں ملتی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ لکھنؤ کی نفاست کپڑوں تک محدود نہیں رہی تھی۔ مثلاً آتش کا یہ شعر دیکھیے۔

    مری طرف سے صبا کہیو میرے یوسف سے

    نکل چلی ہے بہت پیرہن سے بو تیری

    یوں تو لکھنؤ کی شاعری بڑی بدنام ہے مگر یہ شعردلی والوں کے بس کا نہیں۔ محبوب کے ’’ہرجائی پن‘‘ کی شکایت اگر اس لطافت اور نفاست، اس احتیاط اور شرافت کے ساتھ ہوسکے تو میں تو اسے کلچر میں ایک زبردست اضافہ کہوں گا۔ یہ شعر انحطاطی دور کا سہی، مگر جمہوری پاکستان کو کیا روحانی نفاست کی ضرورت نہیں؟ اور اگر شاہی درباروں کی رنگ رلیاں نتھر اور نکھر کے یہ بن جائیں۔

    دماغ اپنا بھی اے گل بدن معطر ہے

    صباہی کے نہیں حصے میں آئی بو تیری

    تو کیا تازہ دم اور جواں سال پاکستان اس شعر کے ذریعے اپنے نفس کی تربیت کرنے سے انکار کردے گا؟

    ایک اور وجہ سے بھی تاریخی احساس ہمارے لیے لازمی ہے۔ واقعات کا جب تک آگا پیچھا نہ ہو، ان میں معنویت ہوتی ہی نہیں۔ اگر ہماری قومی زندگی میں کوئی واقعہ پیش آتا ہے، اور ہمیں اس کی نظیر اپنی تاریخ میں بھی مل سکتی ہے تو ہم اس کا مطلب سمجھ سکتے ہیں۔ پھر وہ واقعہ ایک علامت بننے لگتا ہے۔ ہماری زندگی میں معنویت ہمارے ماضی کی بدولت آتی ہے۔ اس کی مثال بھی میں شاعری ہی سے دوں گا۔ فسادات ہماری قومی تاریخ کا ایک بہت بڑا باب ہیں۔ مگر ہمارے ادب میں قرار واقعی طور پر فسادات نے کوئی جگہ نہیں پائی۔ سعادت حسن منٹو نے فسادات پر کچھ کامیاب افسانے ضرور لکھے ہیں، مگر فسادات ہمارے ادب میں اس طرح حل نہیں ہوئے کہ وہ محض واقعات نہ رہیں، ان کی تفصیلات بھی یاد سے مٹ جائیں، مگر وہ ایک اجتماعی تجربہ بن کر ہمارے قومی شعور میں جذب ہوجائیں ہمارا افسانہ ابھی یہ کام نہیں کرسکتا کیونکہ ہم نے اپنی نثر کی روایت سے رشتہ توڑدیا تھا۔ یہ تو اسی وقت ممکن ہے جب ماضی کے تجربات اور حال کے تجربات ایک دوسرے میں مدغم ہوجائیں۔ یہ بات الفاظ کے ذریعے ہوا کرتی ہے۔ مگر ہمارے الفاظ دوسرے ہیں، اردو کے حقیقی نثرنگاروں کے الفاظ دوسرے تھے۔ یہی حال نظم میں بھی ہے، البتہ غزل فسادات کو ہمارے شعور میں جذب کرسکتی ہے، اور غزل نے یہ کام شروع بھی کردیا ہے۔ غزل نے الفاظ بھی وہ جام جہاں نما قسم کے پائے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ غزل فسادات کے بیان ہی کے لیے وجود میں آئی تھی یا فسادات اس لیے ہوئے تھے کہ غزل میں پھر سے جان آجائے۔ اس کا احساس مجھے پہلے تو حفیظ ہوشیارپوری کی ایک غزل، اور پھر نوجوان شاعر ناصر کاظمی کے شعر سن کر ہوا۔ معلوم ہوتا ہے کہ غزل کی تنگ دامانی کی شکایت اصل میں شاعرانہ عجز کی وجہ سے ہے یا غزل میں ڈوبے ہوئے نہ ہونے کی وجہ سے ورنہ غزل تو زمان و مکان کی طنابیں کھینچ کے رکھ دیتی ہے۔ اب ناصر کاظمی کے دو شعر سنیے۔

    دیتے ہیں سراغ فصل گل کا

    شاخوں پہ جلے ہوئے بسیرے

    جنگل میں ہوئی ہے شام ہم کو

    بستی سے چلے تھے منہ اندھیرے

    یہ شعر جس طرح ماضی، حال مستقبل کی سرحدیں ملادیتے ہیں، وہ افسانہ نگار کے بس کی بات نہیں۔ یہ شعر فسادات کے تجربے کی پیداوار ہیں، مگر فسادات کے بارے میں نہیں ہیں۔ غزل کی روایت نے غزل میں جو اجتماعی تجربہ محفوظ ہے اس نے اس نوجوان غزل گو سے کیا کام لیا ہے! اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ فسادات کے معنی ہمارے شعور نے سمجھنے شروع کردیے ہیں۔ مگر یہ اسی وقت ممکن ہوا جب شاعر کے وجدان نے ماضی اور حال کے تجربات کوایک دوسرے میں گھلا دیا۔

    اگر ہمارے فن کاروں نے ہمارے حال اور ماضی کی اس طرح ترجمانی شروع کردی تو قوم میں تاریخی شعور بڑی آسانی سے پیدا ہوجائے گا۔ مگر خود فنکاروں کی توجہ بھی تو اس طرف مبذول کرانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے شعوری کوشش ہونی چاہیے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس کام کے لیے بڑا علم چاہیے، اور اس سے بھی زیادہ کوئی بڑا آدمی ہونا چاہیے جو اس وقت موجود نہیں۔ ہم لکھنے والے چھوٹے چھوٹے لوگ ہیں مگر ممکن ہے ہماری مشترکہ کوشش، ایک زندہ قوم کے ارادے کی مدد سے ایک بڑے آدمی کا کام کرلے۔ بہرحال مسلمانوں کی فلاح تاریخ کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ قرآن پہلی مذہبی کتاب ہے جس نے تاریخ کو غیرمعمولی اہمیت دی ہے۔

    (ساقی۔ جنوری ۱۹۴۹ء)

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے