Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Abdul Hamid Adam's Photo'

عبد الحمید عدم

1909 - 1981 | پاکستان

مقبول عام شاعر، زندگی اور محبت پر مبنی رومانی شاعری کے لیے معروف

مقبول عام شاعر، زندگی اور محبت پر مبنی رومانی شاعری کے لیے معروف

عبد الحمید عدم کے اشعار

66.8K
Favorite

باعتبار

حسن اک دل ربا حکومت ہے

عشق اک قدرتی غلامی ہے

جس نے مہ پاروں کے دل پگھلا دیے

وہ تو میری شاعری تھی میں نہ تھا

میں عمر بھر جواب نہیں دے سکا عدمؔ

وہ اک نظر میں اتنے سوالات کر گئے

چھوڑا نہیں خودی کو دوڑے خدا کے پیچھے

آساں کو چھوڑ بندے مشکل کو ڈھونڈتے ہیں

یہ کیا کہ تم نے جفا سے بھی ہاتھ کھینچ لیا

مری وفاؤں کا کچھ تو صلہ دیا ہوتا

اور تو دل کو نہیں ہے کوئی تکلیف عدمؔ

ہاں ذرا نبض کسی وقت ٹھہر جاتی ہے

شوقیہ کوئی نہیں ہوتا غلط

اس میں کچھ تیری رضا موجود ہے

کون انگڑائی لے رہا ہے عدمؔ

دو جہاں لڑکھڑائے جاتے ہیں

زبان ہوش سے یہ کفر سرزد ہو نہیں سکتا

میں کیسے بن پئے لے لوں خدا کا نام اے ساقی

عدمؔ روز اجل جب قسمتیں تقسیم ہوتی تھیں

مقدر کی جگہ میں ساغر و مینا اٹھا لایا

جس سے چھپنا چاہتا ہوں میں عدمؔ

وہ ستم گر جا بجا موجود ہے

ہجوم حشر میں کھولوں‌ گا عدل کا دفتر

ابھی تو فیصلے تحریر کر رہا ہوں میں

جب ترے نین مسکراتے ہیں

زیست کے رنج بھول جاتے ہیں

بات کا خون کیوں کریں ناحق

آپ کو فرصت جواب کہاں

اے غم زندگی نہ ہو ناراض

مجھ کو عادت ہے مسکرانے کی

پھر آج عدمؔ شام سے غمگیں ہے طبیعت

پھر آج سر شام میں کچھ سوچ رہا ہوں

وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں

سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں

سو بھی جا اے دل مجروح بہت رات گئی

اب تو رہ رہ کے ستاروں کو بھی نیند آتی ہے

ہولے ہولے وصل ہوا

دھیرے دھیرے جان گئی

کسی نے حال جو پوچھا تو ہو گئے خاموش

تمہاری بات ہم اپنی زباں سے کیا کہتے

میرے ہونے میں مرا اپنا نہیں تھا کچھ شریک

میری ہستی صرف تیرے اعتنا کی بات تھی

دیکھا ہے کس نگاہ سے تو نے ستم ظریف

محسوس ہو رہا ہے میں غرق شراب ہوں

خدا نے گڑھ تو دیا عالم وجود مگر

سجاوٹوں کی بنا عورتوں کی ذات ہوئی

شکن نہ ڈال جبیں پر شراب دیتے ہوئے

یہ مسکراتی ہوئی چیز مسکرا کے پلا

تشریح

جبیں یعنی ماتھا۔ جبیں پر شکن ڈالنے کے کئی معنی ہیں۔ جیسے غصہ کرنا، کسی سے روکھائی سے پیش آنا وغیرہ۔ شاعر اپنے ساقی یعنی محبوب سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ شراب ایک مسکراتی ہوئی چیز ہے اور اسے کسی کو دیتے ہوئے ماتھے پر شکن لانا اچھی بات نہیں کیونکہ اگر ساقی ماتھے پر شکن لاکر کسی کو شراب پلاتا ہے تو پھر اس کا اصلی مزہ جاتا رہتا ہے۔ اس لئے ساقی پر لازم ہے کہ وہ دستورِ مے نے نوشی کا لحاظ کرتے ہوئے پلانے والے کو شراب مسکرا کر پلائے۔

شفق سوپوری

چھپ چھپ کے جو آتا ہے ابھی میری گلی میں

اک روز مرے ساتھ سر عام چلے گا

تھوڑی سی عقل لائے تھے ہم بھی مگر عدمؔ

دنیا کے حادثات نے دیوانہ کر دیا

یہ باتیں اور مجھ سا کہنے والا

فسانہ اور پھر تیرا فسانہ

سوال کر کے میں خود ہی بہت پشیماں ہوں

جواب دے کے مجھے اور شرمسار نہ کر

گرتے ہیں لوگ گرمئ بازار دیکھ کر

سرکار دیکھ کر مری سرکار دیکھ کر

مجھے توبہ کا پورا اجر ملتا ہے اسی ساعت

کوئی زہرہ جبیں پینے پہ جب مجبور کرتا ہے

اے دوست محبت کے صدمے تنہا ہی اٹھانے پڑتے ہیں

رہبر تو فقط اس رستے میں دو گام سہارا دیتے ہیں

نوجوانی میں پارسا ہونا

کیسا کار زبون ہے پیارے

شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ

محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں

وہ حسیں بیٹھا تھا جب میرے قریب

لذت ہمسائیگی تھی میں نہ تھا

جنوں اب منزلیں طے کر رہا ہے

خرد رستہ دکھا کر رہ گئی ہے

لذت غم تو بخش دی اس نے

حوصلے بھی عدمؔ دیے ہوتے

بعض اوقات کسی اور کے ملنے سے عدمؔ

اپنی ہستی سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے

پہلے بڑی رغبت تھی ترے نام سے مجھ کو

اب سن کے ترا نام میں کچھ سوچ رہا ہوں

مدعا دور تک گیا لیکن

آرزو لوٹ کر نہیں آئی

وہ ملے بھی تو اک جھجھک سی رہی

کاش تھوڑی سی ہم پئے ہوتے

کبھی تو دیر و حرم سے تو آئے گا واپس

میں مے کدے میں ترا انتظار کر لوں گا

ذرا اک تبسم کی تکلیف کرنا

کہ گلزار میں پھول مرجھا رہے ہیں

یا دوپٹہ نہ لیجئے سر پر

یا دوپٹہ سنبھال کر چلئے

تکلیف مٹ گئی مگر احساس رہ گیا

خوش ہوں کہ کچھ نہ کچھ تو مرے پاس رہ گیا

ساقی مجھے شراب کی تہمت نہیں پسند

مجھ کو تری نگاہ کا الزام چاہیئے

میں اور اس غنچہ دہن کی آرزو

آرزو کی سادگی تھی میں نہ تھا

مرنے والے تو خیر ہیں بے بس

جینے والے کمال کرتے ہیں

چلی ہے جب بھی دنیا کے مظالم کی شکایت سے

تو اکثر التفات دوستاں تک بات پہنچی ہے

آپ اک زحمت نظر تو کریں

کون بے ہوش ہو نہیں سکتا

زندگی زور ہے روانی کا

کیا تھمے گا بہاؤ پانی کا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے