احمد مشتاق
غزل 80
اشعار 72
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
بہتا آنسو ایک جھلک میں کتنے روپ دکھائے گا
آنکھ سے ہو کر گال بھگو کر مٹی میں مل جائے گا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
کسی جانب نہیں کھلتے دریچے
کہیں جاتا نہیں رستہ ہمارا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
مضمون 1
کتاب 13
تصویری شاعری 26
مل ہی آتے ہیں اسے ایسا بھی کیا ہو جائے_گا بس یہی نا درد کچھ دل کا سوا ہو جائے_گا وہ مرے دل کی پریشانی سے افسردہ ہو کیوں دل کا کیا ہے کل کو پھر اچھا بھلا ہو جائے_گا گھر سے کچھ خوابوں سے ملنے کے لیے نکلے تھے ہم کیا خبر تھی زندگی سے سامنا ہو جائے_گا رونے لگتا ہوں محبت میں تو کہتا ہے کوئی کیا ترے اشکوں سے یہ جنگل ہرا ہو جائے_گا کیسے آ سکتی ہے ایسی دل_نشیں دنیا کو موت کون کہتا ہے کہ یہ سب کچھ فنا ہو جائے_گا
تھم گیا درد اجالا ہوا تنہائی میں برق چمکی ہے کہیں رات کی گہرائی میں باغ کا باغ لہو رنگ ہوا جاتا ہے وقت مصروف ہے کیسی چمن_آرائی میں شہر ویران ہوئے بحر بیابان ہوئے خاک اڑتی ہے در و دشت کی پہنائی میں ایک لمحے میں بکھر جاتا ہے تانا_بانا اور پھر عمر گزر جاتی ہے یکجائی میں اس تماشے میں نہیں دیکھنے والا کوئی اس تماشے کو جو برپا ہے تماشائی میں
آج رو کر تو دکھائے کوئی ایسا رونا یاد کر اے دل_خاموش وہ اپنا رونا رقص کرنا کبھی خوابوں کے شبستانوں میں کبھی یادوں کے ستونوں سے لپٹنا رونا تجھ سے سیکھے کوئی رونے کا سلیقہ اے ابر کہیں قطرہ نہ گرانا کہیں دریا رونا رسم_دنیا بھی وہی راہ_تمنا بھی وہی وہی مل بیٹھ کے ہنسنا وہی تنہا رونا یہ ترا طور سمجھ میں نہیں آیا مشتاقؔ کبھی ہنستے چلے جانا کبھی اتنا رونا