علی عباس حسینی کے افسانے
باسی پھول (۲)
صابرہ کو رخصت کیے ہوئے سات برس کا زمانہ گزر چکا تھا۔ میں بھی نوجوانی کی حدوں کو پار کرکے اور طالب علمی کی بےفکری کو خیرباد کہہ کے، اب ایک ذمہ دار انسان کی طرح اور ایک باقاعدہ وکیل کی حیثیت سے دن بھر کچہریوں کی خاک چھانتا اور بارہ بارہ بجے رات تک، صابرہ
گاؤں کی لاج
یہ ایک خوبصورت سماجی افسانہ ہے۔ لکھن پور میں امراؤ سنگھ اور دلدار خاں دونوں ایک دوسرے کو زیر کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ دلدار خاں کی بیٹی کی شادی ہے، لیکن بات مہر کے رقم میں الجھ جاتی ہے۔ امراؤ سنگھ کو جب پتہ چلتا ہے تو وہ یہ کہتا ہوا کہ بیٹی کسی کی بھی ہو پورے گاؤں کی لاج ہوتی ہے، سیدھا خاں صاحب کے یہاں جاتا ہے اور سمدھی سے بات کر نکاح کی رسم پوری کراتا ہے۔
بیلوں کی جوڑی
یہ تین ایسے دوستوں کی کہانی ہے جو رام جی سیٹھ سے بیلوں کی جوڑی کو ہتھیانے کا منصوبہ بناتے ہیں۔ سیٹھ جی کو جانوروں کو پیٹے جانے سے تکلیف ہوتی ہے۔ جانوروں کو مارے جانے سے دکھی ہو کر انھوں نے گاؤں کی ایک پنچایت میں کہا تھا کہ جو بھی اپنے جانوروں کے ساتھ اچھا سلوک کریگا اسے وہ بطور انعام دو بیلوں کی جوڑی دینگے۔
پوتر سیندور
یہ افسانہ آزادی سے قبل ملک کے کسانوں کی بدحالی کی داستان بیان کرتا ہے۔ زمین پر کھیتی کرنے کو لے کر 1942 میں رامو کا زمیندار سے جھگڑا ہو گیا تھا اور اس جھگڑے نے ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی تھی۔ اس تحریک میں اس نے اپنے جوان بیٹے کو کھو دیا تھا۔ بالآخر آزادی کی صبح آئی اور رامو کو اس کی زمین واپس مل گئی۔
نئی ہمسائی
ایک مولوی خاندان کے پڑوس میں ایک طوائف آکر رہنے لگتی ہے۔ مولوی کا خاندان اس نئے پڑوسی سے فاصلہ بنائے رکھتا ہے۔ اتفاق سے مولوی کو کسی ضروری کام سے کہیں باہر جانا پڑا جبکہ ان کا بچہ سخت بیمار تھا۔ اس درمیان بچے کی طبیعت اور خراب ہو گئی۔ ایسی حالت میں نئے پڑوسیوں نے مولوی کے گھر والوں کی جس طرح مدد کی وہ قابل تعریف تو تھی ہی مولوی کے اخلاق و کردار کا آئینہ بھی تھا۔
میلہ گھومنی
یہ دو بھائیوں چنو منو کی کہانی ہے۔ چنو بڑا اور فرمانبردار تھا اسلیے گھر والوں نے جہاں کہا شادی کرلی لیکن منو آوارہ صفت انسان تھا۔ گاؤں کا ایک درزی میلے سے ایک بنجارن کو اپنے ساتھ لے آیا تھا۔ بنجارن پہلے درزی کے ہاں رہی پھر میر صاحب کے ہاں آ گئی۔ میر صاحب نے اس کی شادی منو سے کردی۔ کچھ دن بعد بنجارن نے چنو سے شادی کر لی اور پھر گاؤں کے ایک نوجوان کے ساتھ بھاگ گئی۔
رفیق تنہائی
قربان میاں کوکبھی کوئی ساتھی نہ ملا۔ بچپنایونہی گذرا، جوانی یونہی گذری۔ اب بڑھاپے میں کیا خاک دھراتھا کہ کوئی انہیں پوچھتا۔ کبھی بھی کوئی ان کی طرف نہیں کھنچتا بلکہ ہمیشہ ان سے کھینچے ہی رہے۔ وجہ بھی ظاہر تھی۔ محبت خواہ کتنی ہی لطیف شے ہومگر بنااس کی
لاٹھی پوجا
یہ ایک ایسی بیوہ کی کہانی ہے جو زندگی کے مصائب سے تنہا جوجھ رہی ہوتی ہے۔ اس کا شوہر مشہور لٹھیت تھا، جس کا ایک روز دھوکے سے کسی نے قتل کر دیا۔ اس قتل کا الزام اس کے ہی ایک قریبی چھیدا پر لگایا گیا تھا۔ چھیدا ایک دن اس بیوہ سے ملنے آیا اور اس نے نہ صرف اس کے شوہر کے قاتلوں کو پکڑا، ساتھ ہی اس بیوہ کی ساری خانگی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔
نور و نار
خیر و شر کی کشاکش اور باطنی تبدیلی اس کی کہانی کا موضوع ہے۔ مولانا اجتبی اپنے داروغہ داماد کا جنازہ پڑھانے سے صرف اس لئے منع کر دیتے ہیں کہ وہ شرابی، زانی، تھا اور ان کی بیٹی ذکیہ کے زیور تک بیچ کھائے تھے۔ اسی غصہ کے عالم میں اتفاق سے ان کے ہاتھ ذکیہ کی ڈائری لگ جاتی ہے، جس میں اس نے انتہائی سادہ لوحی سے اپنے شوہر سے تعلقات کی نوعیت کو بیان کیا تھا اور ہر موقع پر شوہر کی طرف داری اور حمایت کی تھی۔ اس میں اس زیور چرانے کے واقعہ کا بھی ذکر تھا جس کے بعد سے اظہر ایک دم سے بدل گیا تھا، معافی تلافی کے بعد وہ ہر وقت ذکیہ کا خیال رکھتا، تپ دق کی وجہ سے ذکیہ چاہتی تھی کہ وہ اس کے قریب نہ آئے لیکن اظہر نہیں مانتا تھا۔ مولانا یہ پڑھ کر ڈائری بند کر دیتے ہیں اور جا کر نماز جنازہ پڑھا دیتے ہیں۔
میخانہ
یہ ایک تاجر اور اس کے بیٹے کے درمیان ہونے والی گفتگو ہے جسے مصنف نے خوبصورت افسانے کا جامہ پہنایا ہے۔ باپ بیٹے کو کامیاب تجارت کے ڈھنگ بتا رہا ہے۔ وہ بیٹے کے کمائے ہوئے تین گنا منافع پر چراغ پا ہوتے ہوئے کہتا ہے اس سے بہتر تو اس نے سڑے ہوئے اناج کو غریبوں میں تقسیم کر چھ گنا منافع کمایا ہے۔
باسی پھول (۱)
وہ اپنے چھتے پر کھڑی محو نظارہ تھی اور میں اپنی کھڑکی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ہمارے درمیان صرف ایک دوگز چوڑی گلی تھی اور دونوں کوٹھوں کے نیچے دوکانداروں اور آنے جانے والوں کا مجمع، گو اس کے کوٹھے کے سامنے چلمن پڑی تھی۔ لیکن وہ اس کے بوٹے قد، چھریرے بدن
خوش قسمت لڑکا
غربت انسان کو کس قدر مجبور و بے بس کر دیتی ہے اور زندگی کا نقطہ نظر کس درجہ محدود ہو جاتا ہے، یہ اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ رحیمن ایک ضعیفہ ہے جس کا نو سال کا پوتا حمید ہے جو یتیم ہے۔رحیمن حمید کو لے کر گاؤں سے شہر کی طرف چلتی ہے اور راستہ میں ملنے والے ہر شخص سے بتاتی ہے کہ اس کو نوکری مل گئی ہے۔ رحیمن راستے بھر حمید کو آقا و ملازم کے حقوق بتانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتی ہے کہ تو بڑا خوش قسمت ہے کہ نو سال کی عمر میں تجھے نوکری مل رہی ہے۔ شہر پہنچ کر وہ حمید کو ایک اندھے فقیر کے حوالے کر دیتی ہے جسے بھیک مانگنے کے لئے ایک بچے کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر آسمان کی طرف دیکھ کر کہتی ہے: تیرا شکر ہے مرے مالک! تو نے مرے بچے کو اتنا خوش قسمت بنایا کہ وہ نویں ہی برس کام پر لگ گیا۔
بدلہ
یہ ایک منشی کی کہانی ہے جو سرکاری کام کے سلسلے میں جونپور کا سفر کر رہے تھے۔ راستے میں ایک انگریز عورت ملی جس کا شوہر اسے سزا دینے کے لیے سارا سامان ساتھ لیکر تنہا سفر پر نکل گیا تھا۔ اس بات سے ناراض ہو کر وہ عورت بھی منشی کے ساتھ جونپور چلی گئی اور وہاں ان کے ساتھ کئی رات رہی۔ واپس جاتے ہوئے اس نے کہا کہ یہ اپنے شوہر سے اس کا انتقام تھا۔
حسن رہ گزر
بھائی افتخار! اب کے تمہارے ہاں کے قیام میں جو لطف ملا۔ وہ ساری عمر نہ بھولوں گا۔ عمدہ سے عمدہ غذائیں جسم کے لیے اور افضل سےافضل مباحث دماغ کے لیے۔ روحانی لذتیں تمہارے سرد پا خلوص میں تھیں۔ بھابی کی میٹھی باتوں میں تھیں اور بچوں کے پیارے چہچہوں میں۔ کن
آم کا پھل
نچلے طبقے کی نفسیات کو اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ بدلیا ذات کی چمارن ہے جو شادی کے تین ماہ بعد ہی بیوہ ہو گئی ہے۔ اس کی ساس اور نندیں بجائے اس کے کہ اس کی دلجوئی کرتیں اس کو ڈائن وغیرہ کہہ کر گھر سے نکال کر بیلوں کے باڑے میں رہنے کے لئے مجبور کر دیتی ہیں۔ چھوٹے سے گاؤں میں اس واقعہ کی خبر ہر شخص کو ہو جاتی ہے اسی لئے ہر نوجوان بدلیا کے لئے ہمدردی کے جذبات سے لبریز نظر آتا ہے اور رات کے اندھیرے میں اس کے کھانے کے لئے چھوٹی موٹی چیزیں دے جاتا ہے۔ اسی ضمن میں گاؤں کا بدمعاش چندی، جو ایک دن پہلے ہی ایک سال کی جیل کاٹ کر آیا ہے، وہ ٹھاکر کے باغ سے آم چرا کر بدلیا کے لئے لے جاتا ہے، بدلیا اسے دیکھ کر دہشت کی وجہ سے چیخ پڑتی ہے، اس کی نندیں اور ساس اس پر بدکرداری کا الزام لگاتی ہیں، اور مارنا پیٹنا شروع کرتی ہیں۔ وہ گھبرا کر بھاگتی ہے تو اسے راستے میں چندی مل جاتا ہے اور وہ سمجھا بجھا کر اسے اپنی بیوی بننے پر راضی کر لیتا ہے۔ جب وہ چمر ٹولی سے گزرتا ہے تو جیسے سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے اور کوئی بھی چندی کا راستہ روکنے کی ہمت نہیں کرتا۔
ہار جیت
چھیدی پور کی اہیر ٹولی سے جو ملا ہوا آموں کا باغ ہے اس میں بڑی چہل پہل تھی۔ نوبتیا اہیر کے یہاں رام گڑھ سے جو برات آئی تھی وہ اسی میں اتاری گئی تھی۔ متعدد چولہے روشن تھے۔ بڑی بڑی کڑھائیاں چڑھی تھیں۔ پوریاں ’’چھن رہی تھیں‘‘۔ ترکاریاں بنائی جارہی تھیں۔
پہرےدار
ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جسکی بیوی اسکول میں پڑھاتی ہے اور وہ خانگی ذمہ داریاں سنبھالتا ہے۔ ہر وقت گھر میں رہنے کی وجہ سے اس کا نام پہریدار پڑگیا ہے۔ ایک دن اخبار میں کوئی کہانی پڑھ کر اس نے بھی ایک کہانی لکھی اور اخبار میں اشاعت کے لیے بھیج دی۔ اس کی کہانیاں چھپنے لگیں اور اس کے ساتھ ہی اس کی زندگی بھی بدلتی چلی گئی۔
ایک ماں کے دو بچے
اس کہانی میں سماجی ہم آہنگی کو بیان کیا گیا ہے۔ شیخ سعید کلکتہ میں پردیسی ہیں، فرقہ وارانہ فساد کی آگ بھڑک رہی ہے، وہ نوزائدہ نواسہ کے لئے دودھ لے کر لوٹ رہے ہوتے ہیں کہ انہیں ایک ہندو جسونت رائے قتل کرنے کی نیت سے اغوا کر لیتا ہے، جسونت کے جوان بیٹے کو مسلمانوں نے قتل کر دیا تھا، لیکن جب شیخ سعید اسے بتاتے ہیں کہ ان کا جوان بیٹا اور بیٹی اسی جنون کی نذر ہو گئے ہیں اور ان کا تین دن کا نواسہ بھوک سے ہوٹل میں تڑپ رہا ہے تو جسونت کے اندر ایک دم تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور وہ میرا بھائی میرا بھائی کہہ کر شیخ سعید سے لپٹ جاتا ہے اور وہ پھر ان کو اپنے گھر لاتا ہے اور شیخ سعید کے نواسے کو اپنی بیوہ بہو کی گود میں دے دیتا ہے کہ یہ تیرا دوسرا بچہ ہے، جس کے دو بچے ہوں اس کو شوہر کا غم کیوں ہو۔
کفن
حمید اور نصیر اپنے مرحوم باپ سے بہت محبت کرتے تھے۔ کفن دفن کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ انھیں کس کپڑے کا کفن دیا جائے۔ گاڑھے کا کفن ان کی شان کے خلاف ہوگا اور لٹھا تو شہر میں ہی دستیاب ہوگا۔ برسات کا موسم ہے، شام کا وقت ہے اور کپڑے پر کنٹرول بھی چل رہا ہے۔ اس کے باوجود نصیر شہر جاتا ہے اور حکام کے دربار کی خاک چھانتا ہوا بلیک میں لٹھے کا کپڑا لے آتا ہے، جب تک وہ کپڑا لے کر آتا ہے تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
بٹی
اس کہانی میں عورت کی فطری شرم و حیا اور مشرقی اقدار روایات کو بیان کیا گیا ہے۔ بٹی ایک انگریز نوجوان لڑکی ہے جو اپنی دوست کی سال گرہ میں لاری سے الہ آباد جا رہی ہے۔ باوجود انگریز ہونے کے وہ انتہا درجہ کے جھینپو لڑکی ہے کہ کہیں کوئی لڑکا اسے چھیڑ نہ دے۔ وہ جس ڈبے میں بیٹھی ہوتی ہے اسی میں ایک ہندوستانی جوڑا سوار ہوتا ہے جو وضع قطع سے پڑھا لکھا معلوم ہوتا ہے لیکن بٹی کے اندر حاکمیت کا خون جوش مارتا ہے اور وہ انہیں حقارت سے دیکھتی ہے۔ اسی دوران ایک انیگلو انڈین فوجی اس کے پاس آ کر بیٹھتا ہے اور بے تکلف ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر وہ سگریٹ نکالتا ہے تو ہندوستانی نوجوان اسے منع کرتا ہے اور تب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ڈبہ ریزرو ہے لیکن اگر وہ سگریٹ نہ پیے تو دونوں میاں بیوی بیٹھ سکتے ہیں۔ میاں بیوی کا لفظ سن کر بٹی کے حواس گم ہو جاتے ہیں لیکن وہ اس جھوٹ کی اس لئے تردید نہیں کرتی کہ پھر اسے ڈبہ چھؤڑ کر کالے ہندوستانیوں کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا۔ نوجان کو شہ مل جاتی ہے اور پھر وہ اور زیادہ بے تکلف ہو جاتا ہے۔ بٹی کو اس کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نوجوان یتیم ہے اور اس کے دوست، استاد کے علاوہ اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ الہ آباد پہنچ کر بٹی شدت جذبات سے مغلوب ہو جاتی ہے اور وہ اینگلو انڈین لڑکے کے ساتھ اس کے ہوٹل چلی جاتی ہے۔۔۔