انور شعور کا تعارف
اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں
نام انور حسین خاں اور تخلص شعور ہے۔ ۱۱؍اپریل ۱۹۴۳ء کو سیونی(بھارت) میں اشفاق حسین خان کے گھر پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد آپ کے اہل خاندان کراچی آگئے۔ پہلے انجمن ترقی اردو پاکستان اور ’’اخبار جہاں‘‘ سے وابستہ رہے۔ بعدازاں ’’سب رنگ‘‘ ڈائجسٹ ، کراچی سے متعلق رہے۔ آج کل روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ایک قطعہ روز لکھتے ہیں ۔ ا ن کا کلام ’’فنون‘‘ اور دوسرے رسائل میں شائع ہوتا رہتا ہے۔
انور شعور دور جدید کے معتبر شاعر ہیں۔ عام فہم اور سادہ شاعری کرنے کی وجہ سے ان کو سہلِ ممتنع کا شاعر سمجھا جانے لگا ہے۔ چھوٹی بحروں میں ان کے کئی ایک اشعار زبان زدِ عام ہیں۔ انور شعور جدید غزل کے نمائندہ شعرا میں شمار ہوتے ہیں، جبکہ قطعہ نگاری بھی ان کی شہرت کا ایک بنیادی حوالہ ہے۔ ان کی شاعری میں شریک موضوعات انتہائی حساس نوعیت کے ہیں، جو انسان کے داخلی اور خارجی معاملات سے مکالمہ کرتے ہیں۔ رومانویت اور جمالیات کے نقوش ان کی شاعری میں واضح طور پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ آدمی، طلسم، انتظار، دھوکا، جستجو، شراب، شام، رات، غم، تلاش، زہر، صحبت، ہمدم، زنداں، صیاد، بدن، حیرت، سفر، مشقت جیسے موضوعات کی گہرائی سے ان کی شاعری لبریز ہے۔
انور شعور دھیمے لہجے کے مالک ہیں، ان کی شاعری میں مدہوشی کی کیفیت اپنی سرمستی سے مہک رہی ہوتی ہے۔ غزل کے رومان پرور شاعر ہونے کے باوجود ان کی ایک جداگانہ شناخت قطعہ نگاری بھی ہے۔ زندگی کے روزمرہ کے موضوعات کو ایک قطعہ میں سمو دینے کا ہنر انہیں خوب خوب آتا ہے۔ یہ سماج اور شعر کے درمیان ایک مستند مقام پر فائز ہیں، یہ مرتبہ ہر ایک شاعر کے حصے میں نہیں آتا، لیکن انور شعور نے اپنی لگن اور سچائی سے اس کٹھن منزل کو حاصل کیا ہے۔ ان کے چھوٹی بحروں کے اشعار بہت مقبول ہیں، یہ اپنی ذات کی طرح شاعری میں بھی کھلی کتاب کی مانند ہیں۔
کراچی سے 2015ء میں انور شعور کی کلیاتِ انور شعور شائع ہوئی، جس کو رنگ ادب پبلی کیشنز نے شائع کیا۔ ا س کلیات میں ان کے چار مجموعہ ہائے کلام اندوختہ، مشق سُخن، می رقصم اور دل کا کیا رنگ کروں شامل ہیں۔