تمام
تعارف
غزل39
نظم58
شعر39
ای-کتاب46
ٹاپ ٢٠ شاعری 20
تصویری شاعری 8
آڈیو 32
ویڈیو 41
قطعہ10
قصہ29
گیلری 2
بلاگ3
دیگر
اسرار الحق مجاز کے قصے
گریبان اور چاک گریبان
’’عصمت چغتائی! تم لکھنؤ سے میرے لیے چیزیں لانا مت بھولنا۔ ایک تو کرتے دوسرے مجاز۔‘‘ عصمت لکھنؤ میں مجاز سے ملیں تو شاہد لطیف کی فرمائش دہرا دی۔ مجاز نے جواب دیا، ’’اچھا گریباں اور چاک گریباں دونوں کو منگوایا ہے۔‘‘
خالص ’زبان‘ کے شعر
ایک بار دہلی میں ایک مشاعرہ ہورہا تھا مجاز لکھنوی بھی موجود تھے۔ دہلی کے ایک معمر شاعر جب کلام سنانے لگے تو کہا، ’’حضرات میں دہلی کے قلعۂ معلیٰ کی زبان میں شعر عرض کرتا ہوں۔‘‘ ان کے دانت مصنوعی تھے۔ چنانچہ ایک دو شعر سنانے کے بعد جب ذرا جوش میں آکر پڑھنا
کار میں عرش اور معلی
لکھنؤکے کسی مشاعرے میں شریک ہونے کے لئے جب جوش ملیح آبادی بذریعۂ کار وہاں پہنچے تو مشاعرہ گاہ کے گیٹ ہی پر مجاز خیر مقدم کے لئے موجود تھے۔ جوش صاحب کار سے نکلے تو مجاز نے نہایت نیازمندی سے مصافحہ کیا۔ اس کے بعد عرش ملسیانی بھی اسی کار سے باہر آئے
ادیبوں کی پذیرائی
1949ء کا ذکر ہے۔ جب حکومت ترقی پسند ادیبوں کو یکے بعد دیگرے سرکاری مہمان بنا رہی تھی۔ علی جواد زیدی نے مجاز سے فرمایا، ’’ہماری حکومت ادیبوں سے بڑا تعاون کر رہی ہے۔ ان کے لئے ایک اچھی سی کالونی بنانے کی سوچ رہی ہے۔‘‘ ’’سنٹرل جیل میں یاڈسٹرکٹ
ساغر کا انگوٹھا
ایک مشاعرے کے اختتام پر جب ساغر نظامی کو اصل طے شدہ معاوضہ سے کم رقم دی گئی اور اس کی رسید ان کے سامنے رکھی گئی تو وہ اسے دیکھتے ہی ایک دم پھٹ پڑے، ’’میں اس پر دستخط نہیں کرسکتا۔‘‘ اتنے میں مجاز وہاں آئے۔ انہوں نے یہ جملہ سنا تو نہایت معصومیت سے منتظم
حیدر آبادی کا ’ق‘
حیدرآباد دکن میں ’’ق‘‘ کی جگہ عام طور پر لوگ ’’خ‘‘ بولتے ہیں۔ کسی حیدرآبادی نے مجاز کو ایک دعوت پر مدعو کرتے ہوئے کہا، ’’مجاز صاحب! کل میری فلاں عزیزہ کی تخریب (تقریب) ہے۔ غریب خانہ پر تشریف لائیے۔‘‘ مجاز نے خوفزدہ ہو کر جواب دیا۔ ’’نہیں صاحب،
مجاز کا وضو
ایک ادب نواز مجسٹریٹ نے مجازکو بستی آنے کی دعوت دی۔ مجاز نے کہا، ’’کچھ کام کی بات بھی ہوگی۔‘‘ اس نے جواب دیا، ’’تم آؤ تو نہلادوں گا۔‘‘ مجاز مسکرا کر بولے، ’’خیر وہاں تو نہلا دوگے۔ یہاں کم از کم وضو تو کرو ا ہی دو۔‘‘
مجاز، شراب، عورت اور قدردان
مجاز سے کسی نے پوچھا، ’’مجاز صاحب، آپ کو عورتوں نے کھایا یا آپ کے قدر دانوں نے، یا شراب نے؟‘‘ شراب کا گلاس منہ سے لگاتے ہوئے مجاز بولے، ’’ہم نے سب کو برابر کا حصہ دیا ہے۔‘‘
بس ایک ہی بری عادت ہے۔ صاحب!
فلمی اخبار کے ایڈیٹر مجاز سے انٹرویو لینے کے لئے مجاز کے ہوٹل پہنچ گئے۔۔۔ انہوں نے مجاز سے ان کی پیدائش، عمر، تعلیم اور شاعری وغیرہ کے متعلق کئی سوالات کرنے کے بعد دبی زبان میں پوچھا، ’’میں نے سنا ہے قبلہ، آپ شراب بہت زیادہ پیتے ہیں۔ آخر اس کی کیا
شعر سے پہلے شراب شعر کے بعد بھی شراب
ایک مشاعرے میں مجازجب اپنی نیم بیہوشی کے عالم میں بھی اپنی نظم، بول ری او دھرتی بول راج سنگھاسن ڈانواں ڈول بڑی کامیابی کے ساتھ پڑھ چکے تو ہنس راج رہبر نے چھیڑتے ہوئے کہا، ’’مجاز بھائی! کیا یہ نظم تم نے شراب پی کر کہی تھی۔۔۔؟‘‘ ’’بلکہ کہنے
شاعر اعظم کا استقبال
جوش ملیح آبادی سفر پر جارہے تھے۔ اسٹیشن پہنچے تو ان کی گاڑی چھوٹنے ہی والی تھی۔ مجاز اور دوسرے شعراء انہیں خدا حافظ کہنے کے لئے پہلے سے پلیٹ فارم پر ریلوے بک اسٹال کے سامنے کھڑے ہوئے تھے کہ اچانک جوش صاحب تیزی سے مسکراتے ہوئے گزرگئے۔ اس پر ایک شاعر نے
ممبئی ڈرائی ہے
ایک بارحیدرآباد میں مجاز اور فراق دونوں ایک ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے فراق نے مجاز سے مشورہ کے انداز میں کہا، ’’بمبئی چلے جاؤ، تمہارے گیت فلم والے بڑی قیمت دے کر خریدیں گے۔‘‘ مجاز کہنے لگے، ’’بمبئی میں روپے کس کام آئیں گے؟‘‘ فراق نے حیرت زدہ ہوکر پوچھا،
احمقوں کی آمد
مجاز تنہا کافی ہاؤس میں بیٹھے تھے کہ ایک صاحب جو ان کے روشناس نہیں تھے، ان کے ساتھ والی کرسی پر آ بیٹھے۔ کافی کا آرڈر دے کر انہوں نے اپنی کن سری آواز میں گنگنانا شروع کیا۔ احمقوں کی کمی نہیں غالبؔ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں مجاز نے ان کی طرف دیکھتے
ہندوستان کا ایڈیٹر
زہرہ انصاری سے ایک بار مجاز نے حیات اللہ انصاری کا تعارف کرایا۔ اس زمانے میں حیات اللہ انصاری صاحب ’’ہندوستان‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ مجازنے کہا، ’’آپ ’ہندوستان‘ کے ایڈیٹر ہیں۔‘‘ زہرہ نے زوردے کر کہا، ’’اچھا، آپ ہندوستان کے ایڈیٹر ہیں؟‘‘ مجاز کو موقع
نقادوں پر لعنت!
’’میں متواتر کئی سالوں سے شعر کہہ رہا ہوں اور اردو شاعری میں کامیاب تجربے کرچکا ہوں۔ میرے متعدد منظوم شاہکار اردو ادب میں ایک تاریخی اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جب یہ نقاد حضرات اردو شاعروں کا جائزہ لیتے ہیں تو مجھے نظر انداز کردیتے ہیں۔‘‘ سلام
جوش کی گھڑی مجاز کا گھڑا
جوش ملیح آبادی بالعموم شراب پیتے وقت ٹائم پیس سامنے رکھ لیتے اور ہر پندرہ منٹ کے بعد نیا پیگ بناتے تھے لیکن یہ پابندی اکثر تیسرے چوتھے پیگ کے بعد ’’نذر جام‘‘ ہوجاتی تھی۔ ایک صحبت میں انہوں نے پہلا پیگ حلق میں انڈیلنے کے بعداپنے ٹائم پیس کی طرف اشارہ
گھڑی ساز محبوبہ
مجاز ایک مشاعرہ میں نظم سنانے کے لئے کھڑے ہوئے۔ بمبئی کے ایک سیٹھ جو ان کے پرستار تھے، ان کے ذہن میں مجازکی نظم ’’نرس‘‘ کا یہ مصرعہ تھا مگر نظم کا عنوان یاد نہ تھا۔ ’کبھی سوز تھی وہ کبھی ساز تھی وہ‘ چنانچہ سیٹھ صاحب نے فرمائش کرتے ہوئے کہا، ’’مجاز
مارواڑی سیٹھ اور مجاز کا تخلص
مجاز بمبئی میں تھے۔ کسی مارواڑی سیٹھ نے جو مجاز سے غائبانہ عقیدت رکھتا تھا مجاز سے ملاقات کی اور چلتے وقت بڑے تکلف کے ساتھ پوچھا، ’’مجاز صاحب معاف کیجئے گا، کیا میں آپ کا تخلص پوچھ سکتا ہوں؟‘‘ مجاز نے گردن جھکا کر چپکے سے کہا، ’’اسرار الحق‘‘
راجہ محمود آباد کی نصیحت اور مجاز کا جواب
ایک بار راجہ محمود آباد نے مجاز کو نصیحت کرتے ہوئے بڑ ے پیارسے سمجھایا۔ ’’دیکھو میاں! اگر تم شراب پینا چھوڑدو، تو میں تمہارے گزارے کے لیے چار سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کردوں گا۔‘‘ مجاز نے بڑے ادب سے جواب دیا، ’’مگر راجہ صاحب! یہ تو سوچیے کہ
یہ نقش فریادی ہے کس کی شوخئ تحریر کا
کسی مشاعرے میں مجاز اپنی غزل پڑھ رہے تھے۔ محفل پورے رنگ پر تھی اور سامعین خاموشی کے ساتھ کلام سن رہے تھے کہ اتنے میں کسی خاتون کی گود میں ان کا شیر خوار بچہ زور زور سے رونے لگا۔ مجاز نے اپنی غزل کا شعر ادھورا چھوڑتے ہوئے حیران ہوکر پوچھا، ’’بھئی! یہ
مجاز کے کباب، فراق کا گوشت
مجاز اور فراق کے درمیان کافی سنجیدگی سے گفتگو ہورہی تھی۔ ایک دم فراق کا لہجہ بدلا اور انہوں نے ہنستے ہوئے پوچھا، ’’مجاز تم نے کباب بیچنے کیوں بند کردیئے؟‘‘ ’’آپ کے یہاں سے گوشت آنا جو بند ہوگیا۔‘‘ مجازنے اپنی سنجیدگی کو برقرار رکھتے ہوئے فوراً
شراب سے توبہ
جگر مرادآبادی نے نہایت ہمدردانہ انداز میں شراب کی خرابیاں بیان کرتے ہوئے مجاز سے کہا، ’’مجازشراب واقعی خانہ خراب ہے۔ خم کے خم لنڈھانے کے بعد انجام کار مجھے توبہ ہی کرنی پڑی۔ میں تو دعا کرتا ہوں کہ خدا تمہیں توفیق دے کہ تم بھی میری طرح توبہ کرسکو۔‘‘ مجاز
مجلس وعظ میں مجاز
مجاز اپنی نیم دیوانگی کی حالت میں ایک بار کسی مجلس وعظ میں پہنچ گئے۔ ان کے کسی جاننے والے نے حیرت زدہ ہوکر پوچھا، ’’حضرت مجاز! آپ اور یہاں؟‘‘ ’’جی ہاں۔۔۔‘‘ مجاز نے بہت سنجیدگی سے جواب دیا، ’’آدمی کو بگڑتے کیا دیر لگتی ہے بھائی۔‘‘
مے کا غرق دفتر ہونا
لکھنؤ کاایک اچھا ہوٹل جہاں مجازکبھی کبھی شراب نوشی کے لئے جایا کرتے تھے، بند ہوگیا۔ کچھ دنوں بعد معلوم ہوا کہ اس کی عمارت میں کوئی سرکاری دفتر کھولا جارہا ہے۔ یہ سن کر مجاز سے نہ رہا گیا۔ کہنے لگے، ’’سنتے ہیں پہلے زمانے میں دفتر بے معنی کو غرق مے
مجاز، شاعر نہیں لطیفہ باز!
ایک بار کسی ادیب نے مجاز سے کہا، ’’مجاز صاحب! ادھر آپ نے شعروں سے زیادہ لطیفے کہنے شروع کردیئے ہیں۔‘‘ ’’تو اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے؟‘‘ اور وہ ادیب مجاز کی اس بات پر واقعی گھبراتے ہوئے کہنے لگا۔ ’’اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جب کسی مشاعرے میں
اماں صدر جاؤ گے؟
رات کا وقت تھا۔ مجاز کسی میخانے سے نکل کر یونیورسٹی روڈ پر ترنگ میں جھومتے ہوئے چلے جارہے تھے۔ اسی اثناء میں ادھر سے ایک تانگہ گزرا۔ مجاز نے اسے آواز دی۔ تانگہ رک گیا۔ آپ اس کے قریب آئے اور لہرا کر بولے، ’’اماں صدر جاؤ گے؟‘‘ ’’ہاں جاؤں گا۔‘‘ ’’اچھا
ہندوستان کے آم، روس کے عوام
آموں کی ایک دعوت میں آم چوستے چوستے سردار جعفری نے مجاز سے کہا، ’’کیسے میٹھے آم ہیں مجاز! روس میں اور ہر چیز مل جاتی ہے لیکن ایسے میٹھے آم وہاں کہاں۔‘‘ ’’روس میں آموں کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ مجاز نے بلا تامل جواب دیا، ’’وہاں عوام جو ہیں۔‘‘