Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Asrarul Haq Majaz's Photo'

اسرار الحق مجاز

1911 - 1955 | لکھنؤ, انڈیا

معروف ترقی پسند شاعر،رومانی اور انقلابی نظموں کے لیے مشہور،آل انڈیا ریڈیوکے رسالہ آواز کے پہلے مدیر،معروف شاعر اور نغمہ نگار جاوید اختر کے ماموں

معروف ترقی پسند شاعر،رومانی اور انقلابی نظموں کے لیے مشہور،آل انڈیا ریڈیوکے رسالہ آواز کے پہلے مدیر،معروف شاعر اور نغمہ نگار جاوید اختر کے ماموں

اسرار الحق مجاز کی ٹاپ ٢٠ شاعری

ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

تشریح

یہ شعر اسرارالحق مجاز کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ ماتھے پہ آنچل ہونے کے کئی معنی ہیں۔ مثلاً شرم وحیا ہونا، اقدار کا پاس ہوناوغیرہ اور ہندوستانی معاشرے میں ان چیزوں کو عورت کا زیور سمجھا جاتا ہے۔مگر جب عورت کے اس زیور کو مرد اساس معاشرے میں عورت کی کمزوری سمجھا جاتا ہے تو عورت کی شخصیت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ شاعر نے اسی حقیقت کو اپنے شعر کا مضمون بنایا ہے۔ شاعر عورت سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ اگرچہ تمہارے ماتھے پر شرم و حیا کا آنچل خوب لگتا ہے مگر اسے اپنی کمزوری مت بنا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تم اپنے آنچل سے انقلاب کا پرچم بنا اور اپنے حقوق کے لئے اس پرچم کو بلند کرو۔

شفق سوپوری

تشریح

یہ شعر اسرارالحق مجاز کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ ماتھے پہ آنچل ہونے کے کئی معنی ہیں۔ مثلاً شرم وحیا ہونا، اقدار کا پاس ہوناوغیرہ اور ہندوستانی معاشرے میں ان چیزوں کو عورت کا زیور سمجھا جاتا ہے۔مگر جب عورت کے اس زیور کو مرد اساس معاشرے میں عورت کی کمزوری سمجھا جاتا ہے تو عورت کی شخصیت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ شاعر نے اسی حقیقت کو اپنے شعر کا مضمون بنایا ہے۔ شاعر عورت سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ اگرچہ تمہارے ماتھے پر شرم و حیا کا آنچل خوب لگتا ہے مگر اسے اپنی کمزوری مت بنا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تم اپنے آنچل سے انقلاب کا پرچم بنا اور اپنے حقوق کے لئے اس پرچم کو بلند کرو۔

شفق سوپوری

تم نے تو حکم ترک تمنا سنا دیا

کس دل سے آہ ترک تمنا کرے کوئی

یہ میرے عشق کی مجبوریاں معاذ اللہ

تمہارا راز تمہیں سے چھپا رہا ہوں میں

پھر کسی کے سامنے چشم تمنا جھک گئی

شوق کی شوخی میں رنگ احترام آ ہی گیا

عشق کا ذوق نظارہ مفت میں بدنام ہے

حسن خود بے تاب ہے جلوہ دکھانے کے لیے

اس محفل کیف و مستی میں اس انجمن عرفانی میں

سب جام بکف بیٹھے ہی رہے ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے

تمہیں تو ہو جسے کہتی ہے ناخدا دنیا

بچا سکو تو بچا لو کہ ڈوبتا ہوں میں

مجھ کو یہ آرزو وہ اٹھائیں نقاب خود

ان کو یہ انتظار تقاضا کرے کوئی

بتاؤں کیا تجھے اے ہم نشیں کس سے محبت ہے

میں جس دنیا میں رہتا ہوں وہ اس دنیا کی عورت ہے

ہائے وہ وقت کہ جب بے پیے مدہوشی تھی

ہائے یہ وقت کہ اب پی کے بھی مخمور نہیں

روئیں نہ ابھی اہل نظر حال پہ میرے

ہونا ہے ابھی مجھ کو خراب اور زیادہ

کیوں جوانی کی مجھے یاد آئی

میں نے اک خواب سا دیکھا کیا تھا

روداد غم الفت ان سے ہم کیا کہتے کیوں کر کہتے

اک حرف نہ نکلا ہونٹوں سے اور آنکھ میں آنسو آ بھی گئے

یہ آنا کوئی آنا ہے کہ بس رسماً چلے آئے

یہ ملنا خاک ملنا ہے کہ دل سے دل نہیں ملتا

آنکھ سے آنکھ جب نہیں ملتی

دل سے دل ہم کلام ہوتا ہے

دفن کر سکتا ہوں سینے میں تمہارے راز کو

اور تم چاہو تو افسانہ بنا سکتا ہوں میں

کچھ تمہاری نگاہ کافر تھی

کچھ مجھے بھی خراب ہونا تھا

سب کا تو مداوا کر ڈالا اپنا ہی مداوا کر نہ سکے

سب کے تو گریباں سی ڈالے اپنا ہی گریباں بھول گئے

بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا

تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے

کیا کیا ہوا ہے ہم سے جنوں میں نہ پوچھئے

الجھے کبھی زمیں سے کبھی آسماں سے ہم

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے