Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Gulzar's Photo'

ممتاز فلم ساز و ہدایت کار، فلم نغمہ نگار اور افسانہ نگار۔ مرزا غالب پر ٹیلی ویژن سیریل کے لئے مشہور۔ ساہتیہ اکادمی اوارڈ یافتہ

ممتاز فلم ساز و ہدایت کار، فلم نغمہ نگار اور افسانہ نگار۔ مرزا غالب پر ٹیلی ویژن سیریل کے لئے مشہور۔ ساہتیہ اکادمی اوارڈ یافتہ

گلزار کے اشعار

104.4K
Favorite

باعتبار

دیر سے گونجتے ہیں سناٹے

جیسے ہم کو پکارتا ہے کوئی

دل پر دستک دینے کون آ نکلا ہے

کس کی آہٹ سنتا ہوں ویرانے میں

زندگی یوں ہوئی بسر تنہا

قافلہ ساتھ اور سفر تنہا

ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے

وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے

شام سے آنکھ میں نمی سی ہے

آج پھر آپ کی کمی سی ہے

کبھی تو چونک کے دیکھے کوئی ہماری طرف

کسی کی آنکھ میں ہم کو بھی انتظار دکھے

یادوں کی بوچھاروں سے جب پلکیں بھیگنے لگتی ہیں

سوندھی سوندھی لگتی ہے تب ماضی کی رسوائی بھی

کتنی لمبی خاموشی سے گزرا ہوں

ان سے کتنا کچھ کہنے کی کوشش کی

کانچ کے پار ترے ہاتھ نظر آتے ہیں

کاش خوشبو کی طرح رنگ حنا کا ہوتا

یہ دل بھی دوست زمیں کی طرح

ہو جاتا ہے ڈانوا ڈول کبھی

آئنہ دیکھ کر تسلی ہوئی

ہم کو اس گھر میں جانتا ہے کوئی

خاموشی کا حاصل بھی اک لمبی سی خاموشی تھی

ان کی بات سنی بھی ہم نے اپنی بات سنائی بھی

جب دوستی ہوتی ہے تو دوستی ہوتی ہے

اور دوستی میں کوئی احسان نہیں ہوتا

گو برستی نہیں سدا آنکھیں

ابر تو بارہ ماس ہوتا ہے

پھر وہیں لوٹ کے جانا ہوگا

یار نے کیسی رہائی دی ہے

وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر

عادت اس کی بھی آدمی سی ہے

سہما سہما ڈرا سا رہتا ہے

جانے کیوں جی بھرا سا رہتا ہے

زخم کہتے ہیں دل کا گہنہ ہے

درد دل کا لباس ہوتا ہے

ناخدا دیکھ رہا ہے کہ میں گرداب میں ہوں

اور جو پل پہ کھڑے لوگ ہیں اخبار سے ہیں

اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں

عمر گزری ہے اس قدر تنہا

خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں

ایک پرانا خط کھولا انجانے میں

آنکھوں کے پوچھنے سے لگا آگ کا پتہ

یوں چہرہ پھیر لینے سے چھپتا نہیں دھواں

کوئی خاموش زخم لگتی ہے

زندگی ایک نظم لگتی ہے

عادتاً تم نے کر دیے وعدے

عادتاً ہم نے اعتبار کیا

آپ نے اوروں سے کہا سب کچھ

ہم سے بھی کچھ کبھی کہیں کہتے

ایک سناٹا دبے پاؤں گیا ہو جیسے

دل سے اک خوف سا گزرا ہے بچھڑ جانے کا

میں چپ کراتا ہوں ہر شب امڈتی بارش کو

مگر یہ روز گئی بات چھیڑ دیتی ہے

بھرے ہیں رات کے ریزے کچھ ایسے آنکھوں میں

اجالا ہو تو ہم آنکھیں جھپکتے رہتے ہیں

دن کچھ ایسے گزارتا ہے کوئی

جیسے احساں اتارتا ہے کوئی

چند امیدیں نچوڑی تھیں تو آہیں ٹپکیں

دل کو پگھلائیں تو ہو سکتا ہے سانسیں نکلیں

اسی کا ایماں بدل گیا ہے

کبھی جو میرا خدا رہا تھا

شام کے سائے بالشتوں سے ناپے ہیں

چاند نے کتنی دیر لگا دی آنے میں

اپنے ماضی کی جستجو میں بہار

پیلے پتے تلاش کرتی ہے

زندگی پر بھی کوئی زور نہیں

دل نے ہر چیز پرائی دی ہے

یہ شکر ہے کہ مرے پاس تیرا غم تو رہا

وگرنہ زندگی بھر کو رلا دیا ہوتا

ایک ہی خواب نے ساری رات جگایا ہے

میں نے ہر کروٹ سونے کی کوشش کی

یہ روٹیاں ہیں یہ سکے ہیں اور دائرے ہیں

یہ ایک دوجے کو دن بھر پکڑتے رہتے ہیں

جب بھی یہ دل اداس ہوتا ہے

جانے کون آس پاس ہوتا ہے

کل کا ہر واقعہ تمہارا تھا

آج کی داستاں ہماری ہے

رکے رکے سے قدم رک کے بار بار چلے

قرار دے کے ترے در سے بے قرار چلے

آگ میں کیا کیا جلا ہے شب بھر

کتنی خوش رنگ دکھائی دی ہے

آپ کے بعد ہر گھڑی ہم نے

آپ کے ساتھ ہی گزاری ہے

آنکھوں سے آنسوؤں کے مراسم پرانے ہیں

مہماں یہ گھر میں آئیں تو چبھتا نہیں دھواں

یوں بھی اک بار تو ہوتا کہ سمندر بہتا

کوئی احساس تو دریا کی انا کا ہوتا

وہ عمر کم کر رہا تھا میری

میں سال اپنے بڑھا رہا تھا

تمہارے خواب سے ہر شب لپٹ کے سوتے ہیں

سزائیں بھیج دو ہم نے خطائیں بھیجی ہیں

راکھ کو بھی کرید کر دیکھو

ابھی جلتا ہو کوئی پل شاید

چولھے نہیں جلائے کہ بستی ہی جل گئی

کچھ روز ہو گئے ہیں اب اٹھتا نہیں دھواں

وہ ایک دن ایک اجنبی کو

مری کہانی سنا رہا تھا

رات گزرتے شاید تھوڑا وقت لگے

دھوپ انڈیلو تھوڑی سی پیمانے میں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے