انتظار حسین کے مضامین
ادب اور عشق
ایک بادشاہ نے ایک ملکہ کے حسن وجمال کا شہرہ سنا اور اس پر عاشق ہو گیا۔ پھر وہ تخت وتاج چھوڑ کر اس اجنبی ملک کی طرف اس ملکہ کا دیدار کرنے چلا۔ مگر اس بادشاہ سے زیادہ کمال شہزادہ جان عالم نے دکھایا جو ایک توتے کی باتوں میں آکر انجمن آرا کا نادیدہ عاشق
لکھنا آج کے زمانے میں
میں سوچتا ہوں کہ ہم غالب سے کتنے مختلف زمانے میں جی رہے ہیں۔ اس شخص کا پیشہ آبا سپہ گری تھا۔ شاعری کو اس نے ذریعۂ عزت نہیں سمجھا۔ غالب کی عزت غالب کی شاعری تھی۔ شاعری اس کے لیے کسی دوسری عزت کا ذریعہ نہ بن سکی۔ اب شاعری ہمارے لیے ذریعۂ عزت ہے مگر
ناول، حقیقت نگاری اور غالب
یہ درست ہے کہ اردو میں ناول کی داغ بیل ڈپٹی نذیر احمد نے ڈالی اور مختصر افسانے کے باوا آدم منشی پریم چند ہیں۔ پھر بھی میرا یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ نئے اردو فکشن کی تاریخ غالب سے شروع ہونی چاہئے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ادب میں غالب کی ذات
ادب کی الف، ب، ت
میری نانی اماں نے تو خیر مغلوں کا سکہ بھی دیکھا تھا مگر میں نے بچپن میں بس دو سکے دیکھے۔ ملکہ کی اکنی جو بہت گھس گئی تھی اور جارج پنجم کا روشن اور ابھری مورت والا پیسا۔ اب یہ دونوں سکے ٹکسال باہر ہیں۔ حالانکہ عظیم انسان کی اصطلاح اب بھی چالو ہے۔ اصطلاحیں
علامتوں کا زوال
مشہور انگریز مؤرخ مسٹر گبن نے کہا ہے کہ دنیا میں دو بڑے پہلوان گزرے ہیں۔ رستم اور حضرت علی۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ گبن نے واقعی یہ بات کہی ہے یا نہیں، اس کے راوی ہماری بستی کے ذاکر صاحب ہیں جو مجلس میں گرمی پیدا کرنے کے لئے گبن کا یہ قول سنایا کرتا تھے۔
گمشدہ امیر خسرو
امیر خسرو اپنے زمانے میں ایک امیر خسرو تھے۔ ہمارے زمانے تک آتے آتے ایک سے کئی بن گئے۔ جامع اور سالم شخصیتوں کے ساتھ مشکل یہی تو ہوتی ہے کہ تصور میں ان کا اکٹھا سمانا مشکل ہوتا ہے۔ اُدھر آدمی بہت پھیلا ہوا تھا۔ ادھر روز بروز نظر کمزور اور تصور محدود
سجاد ظہیر کا نظریۂ ادب
ہمارے بزرگ خط لکھتے ہوئے بالعموم اس فقرے پر اسے تمام کرتے تھے۔ برخوردار اِس تھوڑے لکھے کو بہت سمجھ اور اپنی خیریت و حالات تفصیل سے لکھ۔ خطوں میں لکھا جانے والا یہ رسمی فقرہ اس وقت جب میں سجاد ظہیر کی تحریریں پڑھ رہا ہوں بہت بامعنی نظر آ رہا ہے۔
نیا ادب اور پرانی کہانیاں
علی گڑھ میں کیلے کا ایک باغ تھا۔ طوائفوں کی رسم تھی کہ ہر شبِ عاشور کو اس باغ میں کیلے کا پتا توڑنے جاتی تھیں۔ ایک برس شہر میں فساد ہو گیا۔ باغ کے ہندو مالک نے لٹھ بند جاٹ بٹھا دیے کہ شب عاشور کو وہاں کوئی قدم نہ رکھے۔ اس پر وہ رسم جو طوائفوں کے لئے
رسم الخط اور پھول
بات ہے رسم الخط کی لیکن معاف کیجئے مجھے ایک اشتہاری اعلان یاد آ رہا ہے جو سن لائٹ صابون والوں کی طرف سے ہوا ہے۔ سن لائٹ کی کسی ٹکیا میں انہوں نے ایک چابی چھپاکر رکھ دی ہے، جس کسی خریدار کی ٹکیا سے یہ چابی نکلےگی اسے وہ ایک مؤثر انعام دیں گے۔ اس اعلان
اجتماعی تہذیب اور افسانہ
ایک روز کا ذکر ہے کہ لاہور کے آسمان پر ایک دودھیا دھاری کھنچتی دکھائی دی۔ غورسے دیکھا تو بہت بلندی پر ایک گول سی چیز حرکت کرتی نظر آئی۔ یہ لمبی دودھیا دھاری اسی کی دم تھی۔ شہر میں یہ خبر اڑ گئی کہ اسٹپنک گزر رہا ہے، مگر دوسرے دن اخباروں میں ایک تردیدی
لکھنا آج کے زمانے میں
حلقہ ارباب ذوق کے نئے عہدیداروں کی خبر نکلنے کے بعد شاکر علی ٹی ہاؤس آئے اور مجھے پرسا دیا کہ ’’آخر کو تم بھی سکتر بن گئے۔‘‘ ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ نئے آرٹسٹ کافی ہاؤس میں ڈیرا رکھتے تھے اور ہم اردو لکھنے والوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے مگر
واپس کلاسیکیت کی طرف
غالب کو عام طور پر اردو کا سب سے مشکل شاعر سمجھا جاتا ہے۔ ان کے زیادہ تر اشعار ناقابل فہم اور مبہم تصور کیے جاتے ہیں جو ادیبوں اور نقادوں کو گہرے تجزیاتی مطالعے پر مجبور کرتے ہیں۔ غالب کی زیادہ تر شرحیں ایسی ہیں گویا معما حل کیا جا رہا ہو۔ یہی سبب
ادب، گھوڑے سے گفتگو
پاکستان کے بارے میں چیخوف نے ایک افسانہ لکھا ہے۔ اگر کسی دوست کو یہ یاد ہے کہ اس افسانے کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں تو وہ مجھے یہ سوچ کر معاف کر دے کہ اپنے بارے میں جو بات ہوتی ہے، وہ بار بار یاد آتی ہے۔ اس افسانے میں ایک کوچوان کا بیٹا مر گیا ہے۔