Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Jaun Eliya's Photo'

جون ایلیا

1931 - 2002 | کراچی, پاکستان

پاکستان کے اہم ترین جدید شاعروں میں شامل، اپنے غیر روایتی طور طریقوں کے لیے مشہور

پاکستان کے اہم ترین جدید شاعروں میں شامل، اپنے غیر روایتی طور طریقوں کے لیے مشہور

جون ایلیا کے اشعار

509.8K
Favorite

باعتبار

داد و تحسین کا یہ شور ہے کیوں

ہم تو خود سے کلام کر رہے ہیں

شب جو ہم سے ہوا معاف کرو

نہیں پی تھی بہک گئے ہوں گے

ہم کہاں اور تم کہاں جاناں

ہیں کئی ہجر درمیاں جاناں

کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی

تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا

ہم نفسان وضع دار مستمعان برد بار

ہم تو تمہارے واسطے ایک وبال ہو گئے

وہ جو نہ آنے والا ہے نا اس سے مجھ کو مطلب تھا

آنے والوں سے کیا مطلب آتے ہیں آتے ہوں گے

میں رہا عمر بھر جدا خود سے

یاد میں خود کو عمر بھر آیا

تجھ کو خبر نہیں کہ ترا کرب دیکھ کر

اکثر ترا مذاق اڑاتا رہا ہوں میں

ہم کو ہرگز نہیں خدا منظور

یعنی ہم بے طرح خدا کے ہیں

خیرہ سران شوق کا کوئی نہیں ہے جنبہ دار

شہر میں اس گروہ نے کس کو خفا نہیں کیا

خرچ چلے گا اب مرا کس کے حساب میں بھلا

سب کے لئے بہت ہوں میں اپنے لئے ذرا نہیں

یہ بہت غم کی بات ہو شاید

اب تو غم بھی گنوا چکا ہوں میں

اپنا رشتہ زمیں سے ہی رکھو

کچھ نہیں آسمان میں رکھا

یاد اسے انتہائی کرتے ہیں

سو ہم اس کی برائی کرتے ہیں

کتنی دل کش ہو تم کتنا دلجو ہوں میں

کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

ثابت ہوا سکون دل و جاں کہیں نہیں

رشتوں میں ڈھونڈھتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی

ہو کبھی تو شراب وصل نصیب

پئے جاؤں میں خون ہی کب تک

پڑی رہنے دو انسانوں کی لاشیں

زمیں کا بوجھ ہلکا کیوں کریں ہم

میری ہر بات بے اثر ہی رہی

نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا

اس سے ہر دم معاملہ ہے مگر

درمیاں کوئی سلسلہ ہی نہیں

حسن سے عرض شوق نہ کرنا حسن کو زک پہنچانا ہے

ہم نے عرض شوق نہ کر کے حسن کو زک پہنچائی ہے

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا

ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

کون سے شوق کس ہوس کا نہیں

دل مری جان تیرے بس کا نہیں

مجھے اب ہوش آتا جا رہا ہے

خدا تیری خدائی جا رہی ہے

مجھ سے اب لوگ کم ہی ملتے ہیں

یوں بھی میں ہٹ گیا ہوں منظر سے

تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو

میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو

دل اب دنیا پہ لعنت کر کہ اس کی

بہت خدمت گزاری ہو گئی ہے

سوچتا ہوں کہ اس کی یاد آخر

اب کسے رات بھر جگاتی ہے

زندگی کس طرح بسر ہوگی

دل نہیں لگ رہا محبت میں

بہت کترا رہے ہو مغبچوں سے

گناہ ترک بادہ کر لیا کیا

وہ منکر ہے تو پھر شاید ہر اک مکتوب شوق اس نے

سر انگشت حنائی سے خلاؤں میں لکھا ہوگا

مجھے غرض ہے مری جان غل مچانے سے

نہ تیرے آنے سے مطلب نہ تیرے جانے سے

جمع ہم نے کیا ہے غم دل میں

اس کا اب سود کھائے جائیں گے

ان لبوں کا لہو نہ پی جاؤں

اپنی تشنہ لبی سے خطرہ ہے

مہذب آدمی پتلون کے بٹن تو لگا

کہ ارتقا ہے عبارت بٹن لگانے سے

کس لیے دیکھتی ہو آئینہ

تم تو خود سے بھی خوب صورت ہو

مجھ کو عادت ہے روٹھ جانے کی

آپ مجھ کو منا لیا کیجے

ہے یہ وجود کی نمود اپنی نفس نفس گریز

وقت کی ساری بستیاں، اپنی ہزیمتوں میں ہیں

میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس

خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

ساری گلی سنسان پڑی تھی باد فنا کے پہرے میں

ہجر کے دالان اور آنگن میں بس اک سایہ زندہ تھا

ایک ہی تو ہوس رہی ہے ہمیں

اپنی حالت تباہ کی جائے

خدا سے لے لیا جنت کا وعدہ

یہ زاہد تو بڑے ہی گھاگ نکلے

جاتے جاتے آپ اتنا کام تو کیجے مرا

یاد کا سارا سر و ساماں جلاتے جائیے

میں بستر خیال پہ لیٹا ہوں اس کے پاس

صبح ازل سے کوئی تقاضا کیے بغیر

جانیے اس سے نبھے گی کس طرح

وہ خدا ہے میں تو بندہ بھی نہیں

اپنے اندر ہنستا ہوں میں اور بہت شرماتا ہوں

خون بھی تھوکا سچ مچ تھوکا اور یہ سب چالاکی تھی

اب جو رشتوں میں بندھا ہوں تو کھلا ہے مجھ پر

کب پرند اڑ نہیں پاتے ہیں پروں کے ہوتے

اب نہیں کوئی بات خطرے کی

اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

کیا کہا عشق جاودانی ہے!

آخری بار مل رہی ہو کیا

اک عجب حال ہے کہ اب اس کو

یاد کرنا بھی بے وفائی ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے