Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mazhar Imam's Photo'

مظہر امام

1928 - 2012 | دلی, انڈیا

ممتاز ترین جدید شاعروں میں معروٖف۔ دوردرشن سے وابستہ

ممتاز ترین جدید شاعروں میں معروٖف۔ دوردرشن سے وابستہ

مظہر امام کے اشعار

5.4K
Favorite

باعتبار

ہم نے تو دریچوں پہ سجا رکھے ہیں پردے

باہر ہے قیامت کا جو منظر تو ہمیں کیا

ہمیں وہ ہمیں سے جدا کر گیا

بڑا ظلم اس مہربانی میں تھا

عصر نو مجھ کو نگاہوں میں چھپا کر رکھ لے

ایک مٹتی ہوئی تہذیب کا سرمایہ ہوں

سمیٹ لیں مہ و خورشید روشنی اپنی

صلاحیت ہے زمیں میں بھی جگمگانے کی

تو ہے گر مجھ سے خفا خود سے خفا ہوں میں بھی

مجھ کو پہچان کہ تیری ہی ادا ہوں میں بھی

نگاہ و دل کے پاس ہو وہ میرا آشنا رہے

ہوس ہے یا کہ عشق ہے یہ کون سوچتا رہے

سفر میں اچانک سبھی رک گئے

عجب موڑ اپنی کہانی میں تھا

اب اس کو سوچتے ہیں اور ہنستے جاتے ہیں

کہ تیرے غم سے تعلق رہا ہے کتنی دیر

تو نہ ہوگا تو کہاں جا کے جلوں گا شب بھر

تجھ سے ہی گرمئ محفل ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ

اب کسی راہ پہ جلتے نہیں چاہت کے چراغ

تو مری آخری منزل ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ

اس گھر کی بدولت مرے شعروں کو ہے شہرت

وہ گھر کہ جو اس شہر میں بد نام بہت ہے

محبت آپ ہی منزل ہے اپنی

نہ جانے حسن کیوں اترا رہا ہے

ایک درد جدائی کا غم کیا کریں

کس مرض کی دوا ہے ترے شہر میں

اکثر ایسا بھی محبت میں ہوا کرتا ہے

کہ سمجھ بوجھ کے کھا جاتا ہے دھوکا کوئی

آپ کو میرے تعارف کی ضرورت کیا ہے

میں وہی ہوں کہ جسے آپ نے چاہا تھا کبھی

ایک میں نے ہی اگائے نہیں خوابوں کے گلاب

تو بھی اس جرم میں شامل ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ

جب ہم تیرا نام نہ لیں گے

وہ بھی ایک زمانا ہوگا

کہا یہ سب نے کہ جو وار تھے اسی پر تھے

مگر یہ کیا کہ بدن چور چور میرا تھا

دل سے دور ہوئے جاتے ہیں غالب کے کلکتے والے

گوہاٹی میں دیکھے ہم نے ایسے ایسے چہرے والے

نہ اتنی دور جائیے کہ لوگ پوچھنے لگیں

کسی کو دل کی کیا خبر یہ ہاتھ تو ملا رہے

بستیوں کا اجڑنا بسنا کیا

بے جھجک قتل عام کرتا جا

رات آنکھوں میں حیا لے کے گزر جاتی تھی

لمحۂ شوق بہت چیں بہ جبیں رہتا تھا

ہیں چناروں کے چہرے بھی جھلسے ہوئے

زخم سب کا ہرا ہے ترے شہر میں

چلو ہم بھی وفا سے باز آئے

محبت کوئی مجبوری نہیں ہے

وہ میرا جب نہ ہو سکا تو پھر یہی سزا رہے

کسی کو پیار جب کروں وہ چھپ کے دیکھتا رہے

اب تو کچھ بھی یاد نہیں ہے

ہم نے تم کو چاہا ہوگا

دوستوں سے ملاقات کی شام ہے

یہ سزا کاٹ کر اپنے گھر جاؤں گا

کس سمت جا رہا ہے زمانہ کہا نہ جائے

اکتا گئے ہیں لوگ فسانہ کہا نہ جائے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے