Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Nasir Kazmi's Photo'

ناصر کاظمی

1925 - 1972 | لاہور, پاکستان

جدید اردو غزل کے بنیاد سازوں میں شامل ، ہندوستان کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے اور پاکستان ہجرت کر گئے جہاں انہوں نے تقسیم اور ہجرت کی تکلیف اور اثرات کو موضوع سخن بنایا

جدید اردو غزل کے بنیاد سازوں میں شامل ، ہندوستان کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے اور پاکستان ہجرت کر گئے جہاں انہوں نے تقسیم اور ہجرت کی تکلیف اور اثرات کو موضوع سخن بنایا

ناصر کاظمی

غزل 111

اشعار 86

بھری دنیا میں جی نہیں لگتا

جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی

نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا

یوں ہی ذرا سی کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ

نیند آتی نہیں تو صبح تلک

گرد مہتاب کا سفر دیکھو

  • شیئر کیجیے

وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا

اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے

یہ کہہ کے چھیڑتی ہے ہمیں دل گرفتگی

گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں

تشریح

دوستو! آج ناصر کاظمی کے اس حسین شعر کی تشریح کرتے ہیں۔ اپنے کلام میں غم کو بیان کرنے کی جو مہارت ناصر کاظمی کو حاصل ہے اس کی مثال مشکل ہی سے ملتی ہے۔

اندوہناک جذبۂ دل گرفتگی کا شاعر سے کلام کرنا ایک خوبصورت اصطلاح ہے۔ شاعر تمام تر غم و آلام سے چور ہے، اس کا دل غم کے بوجھ سے بھرا ہوا ہے، اس کی زندگی کرب اور تکلیف سے یکسر بھری پڑی ہے۔ اور یہ کرب اس کی پوری زندگی پر محیط ہے۔

شعر پڑھ کر ایسا تاثر پیدا ہوتا ہے کہ زندگی کا کوئی لمحہ کرب و الم سے خالی نہیں ہے، اس قدر کہ شاعر کی پوری زندگی اس غم کی نذر ہو چکی ہے، اور اسے اس سے مفر کا کوئی موقع ہی نہیں، کوئی راستہ ہی نہیں۔ اس کا پیمانۂ زندگی غم سے اس درجہ لبریز ہو چکا ہے کہ بس چھلکا ہی چاہتا ہے اور ایسے میں ایک باطنی آواز اس کی اس اندوہناک کیفیت کا گویا مذاق اڑاتی ہوئی اس سے کہتی ہے کہ یہ غم و الم جس میں آپ پوری طرح گرفتار ہو چکے ہیں اور جس سے آپ کا نکلنا محال ہے اگر آپ اس سے گھبرا چکے ہیں تو آئیے آپ کو اس کیفیت سے باہر لے جلتے ہیں۔ مگر اس خوبصورت انداز بیان میں یہ شے پنہاں ہے کہ باہر بھی اس کیفیت سے کوئی بچاؤ کی راہ نہیں ہے۔

علامہ اقبال نے ایک جگہ اس کیفیت کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔

مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں

میں اپنی تسبیح ِ روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ

ناصر کاظمی نے غم کے تصور کو اپنی ذات کی سطح سے اٹھا کر آفاقی رنگ عطا کر دیا اور ایسے خوبصورت پیکر تراشے کہ گویا یہ آواز ہمیں اپنے دل ہی کی آواز سنائی دیتی ہے۔

آپ اندازہ کیجئے کہ ایک شخص جو ہمہ وقت طرح طرح کے آلام سے دوچار ہے، اس کی ذہنی کیفیت کس قدر پر سوز ہو چکی ہوتی ہے۔ اس کو زندگی کے سارے رنگ پھیکے، سارے گل بے رنگ و بو، اور سارے شغل بے معنی نظر آتے ہیں۔ اس کی حرکات و سکنات اس کے جذبات کی غماز ہوتی ہیں۔ ذہنی انتشار اور بے چینی حد کو پہنچ چکی ہوتی ہے اور وہ اس کیفیت اور اس اضطراب سے باہر نکلنے کی کوئی صورت ہی نہیں پاتا ہے۔ ایسے میں شاعر کی بے کلی، بے چینی، dejection خود اس کی اس کیفیت پر ترس کھا کر اس سے کہتی ہے کہ آپ اس دائمی کیفیت سے پریشان ہو چکے ہیں تو آئیے آپ کو باہر کی سیر کرا دیتے ہیں۔ مگر اس میں یہ نکتہ بھی پوشیدہ ہے کہ باہر کی کیفیت بھی کوئی اس اندرونی کیفیت سے جداگانہ نہیں ہے۔ شاعر درد و غم کی اس سطح کا مشاہدہ کر رہا ہے جہاں اندرون اور بیرون سب یکساں ہے۔ اس کے لیے ہمیشہ ہی غموں کا اندھیرا ہے، ہر جگہ اداسی ہے، ہر گام بے بسی ہے، ہر لمحہ مایوسی ہے، ہر آن درد و اضطراب ہے۔

اس شعر کی کرافٹ میں جو تکلم کا انداز اپنایا گیا ہے وہ بجائے خود حسن ہے، جس نے غم کی کیفیت کو بیان کرنے کے نئے زاویے قائم کیے ہیں، نئے انداز وضع کیے ہیں ۔

اس حسین شعر میں شاعر نے اپنی زندگی کی دائمی غم ناک حالت کو بیان کرنے کا خوبصورت طریقہ اختیار کیا ہے اور یوں بھی ناصر کاظمی نے درد و غم کو جس طرح شعری جامہ پہنایا ہے اس کی مثال مشکل سے ہی ملتی ہے ۔

سہیل آزاد

کتاب 55

تصویری شاعری 32

ویڈیو 58

This video is playing from YouTube

ویڈیو کا زمرہ
کلام شاعر بہ زبان شاعر

ناصر کاظمی

تو اسیر_بزم ہے ہم_سخن تجھے ذوق_نالۂ_نے نہیں

ناصر کاظمی

دیار_دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا

ناصر کاظمی

گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل

ناصر کاظمی

وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے

ناصر کاظمی

آڈیو 58

آرائش_خیال بھی ہو دل_کشا بھی ہو

اپنی دھن میں رہتا ہوں

اپنی دھن میں رہتا ہوں

Recitation

متعلقہ بلاگ

 

متعلقہ فن کاروں

"لاہور" کے مزید فن کاروں

 

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے