Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Qaisarul Jafri's Photo'

قیصر الجعفری

1926 - 2005 | ممبئی, انڈیا

اپنی غزل " دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے " کے لئے مشہور

اپنی غزل " دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے " کے لئے مشہور

قیصر الجعفری کے اشعار

21K
Favorite

باعتبار

وہ پھول جو مرے دامن سے ہو گئے منسوب

خدا کرے انہیں بازار کی ہوا نہ لگے

کتنے دنوں کے پیاسے ہوں گے یارو سوچو تو

شبنم کا قطرہ بھی جن کو دریا لگتا ہے

تو اس طرح سے مرے ساتھ بے وفائی کر

کہ تیرے بعد مجھے کوئی بے وفا نہ لگے

بستی میں ہے وہ سناٹا جنگل مات لگے

شام ڈھلے بھی گھر پہنچوں تو آدھی رات لگے

فن وہ جگنو ہے جو اڑتا ہے ہوا میں قیصرؔ

بند کر لو گے جو مٹھی میں تو مر جائے گا

تمہارے بس میں اگر ہو تو بھول جاؤ مجھے

تمہیں بھلانے میں شاید مجھے زمانہ لگے

میں زہر پیتا رہا زندگی کے ہاتھوں سے

یہ اور بات ہے میرا بدن ہرا نہ ہوا

دستک میں کوئی درد کی خوشبو ضرور تھی

دروازہ کھولنے کے لیے گھر کا گھر اٹھا

راستا دیکھ کے چل ورنہ یہ دن ایسے ہیں

گونگے پتھر بھی سوالات کریں گے تجھ سے

ہوا خفا تھی مگر اتنی سنگ دل بھی نہ تھی

ہمیں کو شمع جلانے کا حوصلہ نہ ہوا

رکھی نہ زندگی نے مری مفلسی کی شرم

چادر بنا کے راہ میں پھیلا گئی مجھے

زندگی بھر کے لیے روٹھ کے جانے والے

میں ابھی تک تری تصویر لیے بیٹھا ہوں

کم سے کم ریت سے آنکھیں تو بچیں گی قیصرؔ

میں ہواؤں کی طرف پیٹھ کیے بیٹھا ہوں

تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے

میں ایک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے

گھر لوٹ کے روئیں گے ماں باپ اکیلے میں

مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں

تم آ گئے ہو خدا کا ثبوت ہے یہ بھی

قسم خدا کی ابھی میں نے تم کو سوچا تھا

یہ وقت بند دریچوں پہ لکھ گیا قیصرؔ

میں جا رہا ہوں مرا انتظار مت کرنا

دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے

ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے

زندگی نے مرا پیچھا نہیں چھوڑا اب تک

عمر بھر سر سے نہ اتری یہ بلا کیسی تھی

گھر بسا کر بھی مسافر کے مسافر ٹھہرے

لوگ دروازوں سے نکلے کہ مہاجر ٹھہرے

تم سے بچھڑے دل کو اجڑے برسوں بیت گئے

آنکھوں کا یہ حال ہے اب تک کل کی بات لگے

آج برسوں میں تو قسمت سے ملاقات ہوئی

آپ منہ پھیر کے بیٹھے ہیں یہ کیا بات ہوئی

جو ڈوبنا ہے تو اتنے سکون سے ڈوبو

کہ آس پاس کی لہروں کو بھی پتا نہ لگے

ہر شخص ہے اشتہار اپنا

ہر چہرہ کتاب ہو گیا ہے

شاعری پہلے رسولوں کی دعا تھی قیصرؔ

آج اس عہد میں اک شعبدۂ ذات ہوئی

ساون ایک مہینے قیصرؔ آنسو جیون بھر

ان آنکھوں کے آگے بادل بے اوقات لگے

مسافر چلتے چلتے تھک گئے منزل نہیں ملتی

قدم کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہو فاصلہ جیسے

جس دن سے بنے ہو تم مسیحا

حال اور خراب ہو گیا ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے