Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Rasa Chughtai's Photo'

رسا چغتائی

1928 - 2018 | کراچی, پاکستان

رسا چغتائی کے اشعار

20.7K
Favorite

باعتبار

ترے نزدیک آ کر سوچتا ہوں

میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں

ہم کسی کو گواہ کیا کرتے

اس کھلے آسمان کے آگے

اس گھر کی ساری دیواریں شیشے کی ہیں

لیکن اس گھر کا مالک خود اک پتھر ہے

صرف مانع تھی حیا بند قبا کھلنے تلک

پھر تو وہ جان حیا ایسا کھلا ایسا کھلا

بہت دنوں سے کوئی حادثہ نہیں گزرا

کہیں زمانے کو ہم یاد پھر نہ آ جائیں

شعر و سخن کا شہر نہیں یہ شہر عزت داراں ہے

تم تو رساؔ بد نام ہوئے کیوں اوروں کو بد نام کروں

تیرے آنے کا انتظار رہا

عمر بھر موسم بہار رہا

وہاں اب خواب گاہیں بن گئی ہیں

اٹھے تھے آب دیدہ ہم جہاں سے

عکس زلف رواں نہیں جاتا

دل سے غم کا دھواں نہیں جاتا

اس سے کہنا کہ کبھی آ کے ملے

ہم سے رنجش کا سبب جو بھی ہو

گھر میں جی لگتا نہیں اور شہر کے

راستے لگتے نہیں اپنے عزیز

ہوئیں آنکھیں عجب بے حال اب کے

یہ بارش کر گئی کنگال اب کے

دل دھڑکتا ہے سر راہ خیال

اب یہ آواز جہاں تک پہنچے

اٹھ رہا ہے دھواں مرے گھر میں

آگ دیوار سے ادھر کی ہے

الفاظ میں بند ہیں معانی

عنوان کتاب دل کھلا ہے

اٹھا لایا ہوں سارے خواب اپنے

تری یادوں کے بوسیدہ مکاں سے

آج موضوع گفتگو ہے حیات

اب کوئی اور بات کل کہنا

حال دل پوچھتے ہو کیا تم نے

ہوتے دیکھا ہے دل اداس کہیں

عشق میں بھی سیاستیں نکلیں

قربتوں میں بھی فاصلہ نکلا

کون دل کی زباں سمجھتا ہے

دل مگر یہ کہاں سمجھتا ہے

ہے کوئی یہاں شہر میں ایسا کہ جسے میں

اپنا نہ کہوں اور وہ اپنا مجھے سمجھے

اور کچھ یوں ہوا کہ بچوں نے

چھینا جھپٹی میں توڑ ڈالا مجھے

تجھ سے ملنے کو بے قرار تھا دل

تجھ سے مل کر بھی بے قرار رہا

عارضوں کو ترے کنول کہنا

اتنا آساں نہیں غزل کہنا

ان جھیل سی گہری آنکھوں میں

اک لہر سی ہر دم رہتی ہے

صحرائے بے خیال میں جل تھل کہاں کے ہیں

آخر ہوائے شوق یہ بادل کہاں کے ہیں

بہت دنوں میں یہ عقدہ کھلا کہ میں بھی ہوں

فنا کی راہ میں اک نقش جاوداں کی طرح

چاند ہوتا نہیں ہر اک چہرہ

پھول ہوتے نہیں سخن سارے

آہٹیں سن رہا ہوں یادوں کی

آج بھی اپنے انتظار میں گم

جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو

میں ان آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں

بارہا ہم پہ قیامت گزری

بارہا ہم ترے در سے گزرے

شہر میں جیسے کوئی آسیب ہے

شہر میں مدت سے ہنگامہ نہیں

مٹی جب تک نم رہتی ہے

خوشبو تازہ دم رہتی ہے

شام ہی سے برس رہی ہے رات

رنگ اپنے سنبھال کر رکھنا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے