Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Shahryar's Photo'

شہریار

1936 - 2012 | علی گڑہ, انڈیا

ممتاز جدید شاعروں میں شامل، نغمہ نگار، فلم ’امراؤ جان‘ کے گیتوں کے لیے مشہور۔ بھارتیہ گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ۔

ممتاز جدید شاعروں میں شامل، نغمہ نگار، فلم ’امراؤ جان‘ کے گیتوں کے لیے مشہور۔ بھارتیہ گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ۔

شہریار کے اشعار

68.4K
Favorite

باعتبار

کیوں آج اس کا ذکر مجھے خوش نہ کر سکا

کیوں آج اس کا نام مرا دل دکھا گیا

ہے آج یہ گلہ کہ اکیلا ہے شہریارؔ

ترسو گے کل ہجوم میں تنہائی کے لئے

لوگ سر پھوڑ کر بھی دیکھ چکے

غم کی دیوار ٹوٹتی ہی نہیں

تو کہاں ہے تجھ سے اک نسبت تھی میری ذات کو

کب سے پلکوں پر اٹھائے پھر رہا ہوں رات کو

بے نام سے اک خوف سے دل کیوں ہے پریشاں

جب طے ہے کہ کچھ وقت سے پہلے نہیں ہوگا

زخموں کو رفو کر لیں دل شاد کریں پھر سے

خوابوں کی کوئی دنیا آباد کریں پھر سے

ہے کوئی جو بتائے شب کے مسافروں کو

کتنا سفر ہوا ہے کتنا سفر رہا ہے

نذرانہ تیرے حسن کو کیا دیں کہ اپنے پاس

لے دے کے ایک دل ہے سو ٹوٹا ہوا سا ہے

شہر امید حقیقت میں نہیں بن سکتا

تو چلو اس کو تصور ہی میں تعمیر کریں

خجل چراغوں سے اہل وفا کو ہونا ہے

کہ سرفراز یہاں پھر ہوا کو ہونا ہے

امید سے کم چشم خریدار میں آئے

ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے

دل میں رکھتا ہے نہ پلکوں پہ بٹھاتا ہے مجھے

پھر بھی اک شخص میں کیا کیا نظر آتا ہے مجھے

پہلے نہائی اوس میں پھر آنسوؤں میں رات

یوں بوند بوند اتری ہمارے گھروں میں رات

جاگتا ہوں میں ایک اکیلا دنیا سوتی ہے

کتنی وحشت ہجر کی لمبی رات میں ہوتی ہے

عمر کا باقی سفر کرنا ہے اس شرط کے ساتھ

دھوپ دیکھیں تو اسے سائے سے تعبیر کریں

گلاب ٹہنی سے ٹوٹا زمین پر نہ گرا

کرشمے تیز ہوا کے سمجھ سے باہر ہیں

ہم پڑھ رہے تھے خواب کے پرزوں کو جوڑ کے

آندھی نے یہ طلسم بھی رکھ ڈالا توڑ کے

ہم جدا ہو گئے آغاز سفر سے پہلے

جانے کس سمت ہمیں راہ وفا لے جاتی

ہر طرف اپنے کو بکھرا پاؤ گے

آئنوں کو توڑ کے پچھتاؤ گے

اب تو لے دے کے یہی کام ہے ان آنکھوں کا

جن کو دیکھا نہیں ان خوابوں کی تعبیر کریں

جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے

اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے

ایک ہی مٹی سے ہم دونوں بنے ہیں لیکن

تجھ میں اور مجھ میں مگر فاصلہ یوں کتنا ہے

جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا

ترے لبوں پہ مرے لب ہوں ایسا کب ہوگا

کون سی بات ہے جو اس میں نہیں

اس کو دیکھے مری نظر سے کوئی

حسین ابن علی کربلا کو جاتے ہیں

مگر یہ لوگ ابھی تک گھروں کے اندر ہیں

شدید پیاس تھی پھر بھی چھوا نہ پانی کو

میں دیکھتا رہا دریا تری روانی کو

آنکھ کی یہ ایک حسرت تھی کہ بس پوری ہوئی

آنسوؤں میں بھیگ جانے کی ہوس پوری ہوئی

یا تیرے علاوہ بھی کسی شے کی طلب ہے

یا اپنی محبت پہ بھروسا نہیں ہم کو

آندھیاں آتی تھیں لیکن کبھی ایسا نہ ہوا

خوف کے مارے جدا شاخ سے پتا نہ ہوا

یہ اک شجر کہ جس پہ نہ کانٹا نہ پھول ہے

سائے میں اس کے بیٹھ کے رونا فضول ہے

پل بھر میں کیسے لوگ بدل جاتے ہیں یہاں

دیکھو کہ یہ مفید ہے بینائی کے لئے

میں اکیلا سہی مگر کب تک

ننگی پرچھائیوں کے بیچ رہوں

غم کی دولت بڑی مشکل سے ملا کرتی ہے

سونپ دو ہم کو اگر تم سے نگہ بانی نہ ہو

رات کو دن سے ملانے کی ہوس تھی ہم کو

کام اچھا نہ تھا انجام بھی اچھا نہ ہوا

جمع کرتے رہے جو اپنے کو ذرہ ذرہ

وہ یہ کیا جانیں بکھرنے میں سکوں کتنا ہے

یا میں سوچوں کچھ بھی نہ اس کے بارے میں

یا ایسا ہو دنیا اور بدل جائے

اک صرف ہمیں مے کو آنکھوں سے پلاتے ہیں

کہنے کو تو دنیا میں مے خانے ہزاروں ہیں

مرے سورج آ! مرے جسم پہ اپنا سایہ کر

بڑی تیز ہوا ہے سردی آج غضب کی ہے

اب رات کی دیوار کو ڈھانا ہے ضروری

یہ کام مگر مجھ سے اکیلے نہیں ہوگا

ہر ملاقات کا انجام جدائی کیوں ہے

اب تو ہر وقت یہی بات ستاتی ہے ہمیں

ان دنوں میں بھی ہوں کچھ کار جہاں میں مصروف

بات تجھ میں بھی نہیں رہ گئی پہلے والی

سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے

اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے

عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو

میں اپنے سائے سے کل رات ڈر گیا یارو

بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہوگی

دل میں امید تو کافی ہے یقیں کچھ کم ہے

نہ خوش گمان ہو اس پر تو اے دل سادہ

سبھی کو دیکھ کے وہ شخص مسکراتا ہے

یہ کیا ہے محبت میں تو ایسا نہیں ہوتا

میں تجھ سے جدا ہو کے بھی تنہا نہیں ہوتا

آنکھوں کو سب کی نیند بھی دی خواب بھی دیے

ہم کو شمار کرتی رہی دشمنوں میں رات

کہاں تک وقت کے دریا کو ہم ٹھہرا ہوا دیکھیں

یہ حسرت ہے کہ ان آنکھوں سے کچھ ہوتا ہوا دیکھیں

جو ہونے والا ہے اب اس کی فکر کیا کیجے

جو ہو چکا ہے اسی پر یقیں نہیں آتا

عمر کا لمبا حصہ کر کے دانائی کے نام

ہم بھی اب یہ سوچ رہے ہیں پاگل ہو جائیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے