Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Shakeel Badayuni's Photo'

شکیل بدایونی

1916 - 1970 | ممبئی, انڈیا

معروف فلم گیت کار اور شاعر

معروف فلم گیت کار اور شاعر

شکیل بدایونی کے اشعار

96.7K
Favorite

باعتبار

دلیل تابش ایماں ہے کفر کا احساس

چراغ شام سے پہلے جلا نہیں کرتے

مجھے تو قید محبت عزیز تھی لیکن

کسی نے مجھ کو گرفتار کر کے چھوڑ دیا

میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں

مجھے خوف آتش گل سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے

بات جب ہے غم کے ماروں کو جلا دے اے شکیلؔ

تو یہ زندہ میتیں مٹی میں داب آیا تو کیا

رحمتوں سے نباہ میں گزری

عمر ساری گناہ میں گزری

یہ ادائے بے نیازی تجھے بے وفا مبارک

مگر ایسی بے رخی کیا کہ سلام تک نہ پہنچے

بے پیے شیخ فرشتہ تھا مگر

پی کے انسان ہوا جاتا ہے

کھل گیا ان کی آرزو میں یہ راز

زیست اپنی نہیں پرائی ہے

نئی صبح پر نظر ہے مگر آہ یہ بھی ڈر ہے

یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے

وہ ہم سے دور ہوتے جا رہے ہیں

بہت مغرور ہوتے جا رہے ہیں

ہم سے مے کش جو توبہ کر بیٹھیں

پھر یہ کار ثواب کون کرے

دل کی طرف شکیلؔ توجہ ضرور ہو

یہ گھر اجڑ گیا تو بسایا نہ جائے گا

غم کی دنیا رہے آباد شکیلؔ

مفلسی میں کوئی جاگیر تو ہے

بھیج دی تصویر اپنی ان کو یہ لکھ کر شکیلؔ

آپ کی مرضی ہے چاہے جس نظر سے دیکھیے

بدلتی جا رہی ہے دل کی دنیا

نئے دستور ہوتے جا رہے ہیں

غم عمر مختصر سے ابھی بے خبر ہیں کلیاں

نہ چمن میں پھینک دینا کسی پھول کو مسل کر

بے تعلق ترے آگے سے گزر جاتا ہے

یہ بھی اک حسن طلب ہے ترے دیوانے کا

اٹھا جو مینا بدست ساقی رہی نہ کچھ تاب ضبط باقی

تمام مے کش پکار اٹھے یہاں سے پہلے یہاں سے پہلے

جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی

دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی

خوش ہوں کہ مرا حسن طلب کام تو آیا

خالی ہی سہی میری طرف جام تو آیا

ہر چیز نہیں ہے مرکز پر اک ذرہ ادھر اک ذرہ ادھر

نفرت سے نہ دیکھو دشمن کو شاید وہ محبت کر بیٹھے

لمحہ لمحہ بار ہے تیرے بغیر

زندگی دشوار ہے تیرے بغیر

نہ پیمانے کھنکتے ہیں نہ دور جام چلتا ہے

نئی دنیا کے رندوں میں خدا کا نام چلتا ہے

سنا ہے زندگی ویرانیوں نے لوٹ لی مل کر

نہ جانے زندگی کے ناز برداروں پہ کیا گزری

نظر نواز نظاروں میں جی نہیں لگتا

وہ کیا گئے کہ بہاروں میں جی نہیں لگتا

پھر وہی جہد مسلسل پھر وہی فکر معاش

منزل جاناں سے کوئی کامیاب آیا تو کیا

یہ کس خطا پہ روٹھ گئی چشم التفات

یہ کب کا انتقام لیا مجھ غریب سے

تم پھر اسی ادا سے انگڑائی لے کے ہنس دو

آ جائے گا پلٹ کر گزرا ہوا زمانہ

کیا اثر تھا جذبۂ خاموش میں

خود وہ کھچ کر آ گئے آغوش میں

کافی ہے مرے دل کی تسلی کو یہی بات

آپ آ نہ سکے آپ کا پیغام تو آیا

شگفتگئ دل کارواں کو کیا سمجھے

وہ اک نگاہ جو الجھی ہوئی بہار میں ہے

ان کا ذکر ان کی تمنا ان کی یاد

وقت کتنا قیمتی ہے آج کل

مجھے دوست کہنے والے ذرا دوستی نبھا دے

یہ مطالبہ ہے حق کا کوئی التجا نہیں ہے

غم حیات بھی آغوش حسن یار میں ہے

یہ وہ خزاں ہے جو ڈوبی ہوئی بہار میں ہے

چاہئے خود پہ یقین کامل

حوصلہ کس کا بڑھاتا ہے کوئی

بزدلی ہوگی چراغوں کو دکھانا آنکھیں

ابر چھٹ جائے تو سورج سے ملانا آنکھیں

کیسے کہہ دوں کہ ملاقات نہیں ہوتی ہے

روز ملتے ہیں مگر بات نہیں ہوتی ہے

کیا حسیں خواب محبت نے دکھایا تھا ہمیں

کھل گئی آنکھ تو تعبیر پہ رونا آیا

وہی کارواں، وہی راستے وہی زندگی وہی مرحلے

مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں کبھی ہم نہیں

سب کرشمات تصور ہیں شکیلؔ

ورنہ آتا ہے نہ جاتا ہے کوئی

مجھے چھوڑ دے میرے حال پر ترا کیا بھروسہ ہے چارہ گر

یہ تری نوازش مختصر میرا درد اور بڑھا نہ دے

شاید مری نگاہ میں ہے عظمت وجود

قطرے سے کہہ رہا ہوں کہ دریا سے بچ کے چل

جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ

مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا

چھپے ہیں لاکھ حق کے مرحلے گم نام ہونٹوں پر

اسی کی بات چل جاتی ہے جس کا نام چلتا ہے

لمحات یاد یار کو صرف دعا نہ کر

آتے ہیں زندگی میں یہ عالم کبھی کبھی

رند خراب نوش کی بے ادبی تو دیکھیے

نیت مے کشی نہ کی ہاتھ میں جام لے لیا

شکیلؔ اس درجہ مایوسی شروع عشق میں کیسی

ابھی تو اور ہونا ہے خراب آہستہ آہستہ

صدق و صفائے قلب سے محروم ہے حیات

کرتے ہیں بندگی بھی جہنم کے ڈر سے ہم

مری زندگی پہ نہ مسکرا مجھے زندگی کا الم نہیں

جسے تیرے غم سے ہو واسطہ وہ خزاں بہار سے کم نہیں

زہے نصیب کہ دنیا نے تیرے غم نے مجھے

مسرتوں کا طلب گار کر کے چھوڑ دیا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے