شمیم حنفی کے مضامین
خالدہ حسین
(ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں) مجھے خالدہ حسین کی کہانیاں بہت پسند ہیں۔ یہ کہانیاں کئی سطحوں پر اردو کے افسانوی ادب میں اپنی ایک خاص پہچان رکھتی ہیں۔ نئے افسانے کی تعمیر میں قرۃ العین حیدر کے ساتھ، دو اور خواتین کے نام سب سے پہلے ذہن میں آتے
غالب اور جدید فکر
اصطلاح میں سوچنے کا عمل بعض اوقات خطرناک ہوتا ہے اور ہمیں ایسے نتائج کی طرف لے جاتا ہے جو سرے سے غلط ہوتے ہیں۔ ہماری اجتماعی فکر کے واسطے سے ’’جدید‘‘ کی اصطلاح نے بھی خاصی غلط فہمیاں پیدا کی ہیں۔ جدید کاری (Modernization) تجدد پرستی (Modernism) اور جدیدیت
بلراج مین را: خواب اور حقیقت کے درمیان
’’ادیب کے کمٹ منٹ کا بیان کرتے ہوئے راب گریے نے ایک مثال دی۔ ’’الجیرین لڑائی کے دوران میں نے بھی دوسرے فرانسیسی ادیبوں کے ساتھ مخالفانہ نوٹ پر اپنے دستخط کئے تھے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی میں نے ریسنے کے ساتھ مل کر ’’لاسٹ ایئراِن میرئین وار‘‘ فلم بنائی۔
شہریار: حاصل سیر جہاں
اشعار کے پانچ چھوٹے چھوٹے مجموعوں کی اس ایک کتاب کا نام شہریار نے ’’حاصل سیرجہاں‘‘ رکھاہے۔ اپنے آپ میں یہ نام ایک بلیغ استعارہ، ایک شعر ی بیان بھی ہے۔ مطلب یہ کہ چاروں سمتوں میں چاہے جہاں تک ہو آؤ، لوٹ کر اخیر میں اپنی ہی ہستی کے مرکز پر آنا ہوگا۔
میراجی اور نئی شاعری کی بنیادیں
’’جی چاہتا ہے کہ بازاری گویا بن کر گلی گلی بستی بستی گھومتا پھروں۔ یوں ہی زندگی گزار دوں۔ ایک عورت اور ایک ہارمونیم کی پیٹی پہلو میں لئے اور دنیا یہ سمجھے کہ وہ ہمارا تماشہ دیکھ کر رحم کھاتی ہے اور میں یہ سمجھوں کہ تماشائی ہوں۔ یہ ہارمونیم کی پیٹی، یہ
اکبر کی معنویت
فراق صاحب نے اکبر کو ایشیا کے بڑے شاعروں میں شمار کیا ہے۔ بہتوں کو یہ رائے مبالغہ آمیز محسوس ہوگی کہ ایشیا کیا، اردو کے بڑے شاعروں میں بھی اکبر کا نام عام طور پر نہیں لیا جاتا۔ اکبر کو شاعر کی حیثیت سے، بہر حال جو بھی جگہ دی جائے کم سے کم اس معاملے
منٹو اور نیا افسانہ
اردو افسانے کی تاریخ میں منٹو کی جگہ اتنی محفوظ اور ہمارے فکشن کی روایت میں ان کا مرتبہ اتنا مستحکم ہے کہ اب منٹو کے بارے میں محض تحسین اور عقیدت کے اظہار کا کچھ بھی مطلب نہیں نکلتا۔ اپنی حیثیت کا تعین خود منٹو نے جس طرح کیا تھا، اپنی مختلف تحریروں،
انتظار حسین: ایک ادھوری تصویر
ایک نئے افسانہ نگار نے برسوں پہلے مجھے لکھا تھا، ’’ہماری کہانیاں آپ کو اس وقت تک پسندنہیں آئیں گی جب تک کہ آپ قرۃ العینوں اور انتظار حسینوں کے سحر سے نکل نہ آئیں۔‘‘ پتہ نہیں یہ بات کتنی سچ ہے، لیکن ہو نہ ہو ہر پڑھنے والے کے احساسات اپنے گرد کچھ دائرے
اہمال کی منطق
شاعری میں تخلیقی عمل کے حسی اور اظہار ی وسائل کی معنویت اور بے معنویت کا سوال کسی مخصوص دور یا رجحان سے وابستہ کرنا غلط ہے۔ اس مسئلے کا تعلق تخلیقی عمل کے بنیادی سوالات سے ہے۔ چنانچہ تخلیقی عمل کے مظاہر میں ابہام، اشکال اور اہمال کی تاریخ اتنی ہی قدیم
تقسیم کا ادب اور تشدد کی شعریات
خواتین و حضرات! آج کی گفتگو کا موضوع ہے تقسیم کا ادب اور اس سے مرتب ہونے والی شعریات، جس کا شناس نامہ فرقہ وارانہ تشدد کے تجربے سے منسلک ہے۔ تشدد ہمارے زمانے کا غالب اسلوب ہے۔ بیسویں صدی کو انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ تشدد آمیز صدی کا نام دیا گیا ہے۔
طویل نظم سن ساٹھ کے بعد
ہمارے زمانے میں ایک ہیئت کے طور پر طویل نظم کا مسئلہ اتنا ہی مبہم اور پیچیدہ ہے جتنا کہ طویل مختصر کہانی کا۔ کوئی ایسامتعین ضابطہ نہیں جس کے مطابق یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ نظم کون سی حد یاشکل اختیار کرنے پر طویل ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں جدید نظم نگاروں کے
پریم چند کی فکری اور تخلیقی روایت
اردو افسانے نے اپنی عمرکے سو برس پورے کر لیے ہیں۔ پریم چند کے جنم (۱۸۸۰ء) پر ایک سو پچیس برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو پریم چند اور افسانے کی روایت کا سفر تقریبا ًساتھ ساتھ جاری ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے سائے میں سانس لیتے ہیں اور ایک
نثری نظم کا مسئلہ
ایک سوال، جس پر غور کرنے کی ضرورت ہمیشہ باقی رہے گی، یہ ہے کہ ادب کی اصناف کے ڈھانچے یا ہیئت کے تعین میں بنیادی رول کون ادا کرتاہے؟ یا یہ کہ کسی مخصوص صنف کی ترکیب کے عناصر میں سب سے زیادہ عمل دخل کس کا ہوتا ہے؟ شعری اور ادبی قدروں کا؟ افراد کا؟ کسی
غالب، شعر، شہر اور شعور
(غالب اور آگرہ) کبھی شہر دلوں کی طرح دھڑکتے ہیں۔ ان کی آبادی میں ہمیں اپنی آبادی کا اور ان کی ویرانی میں اپنی ویرانی کا سراغ ملتا ہے۔ ایودھیا، کپل وستو، پاٹلی پتر، غرناطہ، یہ اجڑی ہوئی بستیوں کے نام نہیں بلکہ استعارے ہیں جنہیں وقت پامال نہیں کر
تہذیب اور تنقید کا رشتہ
ہمارا دور انسانی تہذیب کی تاریخ کا شاید پہلا دور ہے جب ایک ساتھ بہت سے لوگ ادب کی موت کا اعلان کرنے لگے ہیں۔ اب لوگوں کے پاس ادب پڑھنے کا وقت نہیں۔ اور وہ لوگ جو اجتماعی زندگی پر اثر انداز ہونے کی سب سے زیادہ طاقت رکھتے ہیں یعنی کہ سیاست داں اور سرمایہ
میر اور غالب
میر اور غالب کا نام ایک ساتھ ذہن میں جو آتا ہے تو صرف اس لیے نہیں کہ دونوں نے اپنے اظہار کے لئے شعر کی ایک ہی صنف کو اولیت دی یایہ کہ دونوں کا تعلق ادب اور تہذیب کی اس روایت سے تھا جو زمانے کے فرق کے ساتھ ہماری اجتماعی زندگی کے ایک ہی مرکز یعنی دلی
فاروقی کی تنقید نگاری سے متعلق چند باتیں
ہم تنقید کے اس عہد کو فاروقی کا عہد بھی کہہ سکتے ہیں۔ پچھلے تیس برس کی ادبی تاریخ میں کوئی بھی قابل ذکر بحث ایسی نہیں رہی جس میں شمس الرحمن فاروقی کی حیثیت مرکزی نہ رہی ہو۔ عسکری نے ایک بات جو یہ کہی تھی کہ حالی کے بعد اردو تنقید فاروقی کے واسطے سے ایک
غالب اور عہد غالب کا تخلیقی ماحول
ادب اور آرٹ کی طرح کلچر بھی سوچ سوچ پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ غالب اور ان کے عہد کی فکر، خاص طور سے ادبی فکر کے رابطوں کو سمجھنے کے لیے کلچر، آرٹ اور ادب کی خود مختاری کے تصور اور ایک غیر معمولی شخصیت کے انفرادی رویوں کا تجزیہ بھی ضروری ہے۔ غالب اپنے
میراجی اور نئی شعری روایت
اکا دکا شعری تخلیقات کی روشنی میں جدیدیت کے اولین نشانات تلاش کئے جائیں تو تصدق حسین خالد، تاثیر، فراق، شاد عارفی، مجاز، جذبی، جاں نثار اختر، ساحر، کیفی، سلام مچھلی شہری، حتی کہ بیسوی صدی کے اوائل کے بعض شعرا کے یہاں بھی نئی شاعری کی خاموش دستک سنی جا
میرزا یگانہ
یگانہ کی شاعری سے اٹھنے والے ہر سوال کا جواب ان کی شخصیت فراہم کرتی ہے۔ چنانچہ ان کی شاعری کا کوئی بھی مطالعہ، شخصیت کے مطالعے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ جب شاعر کا پورا وجود ہی اس کا تجربہ بن جائے اور یہ تجربہ بھی اپنی کلیت کے ساتھ قاری کو متوجہ کرنے کی
میاں نظیر
میاں نظیرشاید اردو کے تنہا شاعر ہیں جنہوں نے کسی مسئلے سے سروکار نہیں رکھا، سو پڑھنے والے کے لئے بھی مسئلہ نہ بن سکے۔ ایک مدت تک ان کے تئیں جو بےنیازی عام رہی، اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ انہوں نے اپنے پڑھنے یا سننے والوں سے کبھی کوئی ایسا مطالبہ نہیں
ادب میں غیر کا تصور
ادب اور تہذیب کی ہر روایت کا ایک خاص تاریخی پس منظر، ایک عقبی پردہ بھی ہوتا ہے۔ یہی پس منظر اجتماعی اور انفرادی تجزیوں کا اظہار کرنے والے لفظوں کا مفہوم متعین کرتا ہے۔ تاریخ کے گھیرے سے نکلنایا اسے توڑنا ایک دشوار مہم ہے۔ اردو کی ادبی روایت نے جس
اقبال اور صنعتی تمدن
صنعتی تمدن ایک نیا ذہنی استعارہ بھی ہے، جس سے انسان کی جذباتی زندگی میں الجھے ہوئے سوالوں کا طویل سلسلہ جڑا ہوا ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں صنعتی ترقی کی مجنونانہ دوڑ کے خلاف دانشوروں کے ایک حلقے سے احتجاج کی صدا بلند ہوئی تو ایک دوسرے حلقے نے اسے دل
غالب کی اردو نثر
اردو نثر و نظم کی تاریخ میں غالب کئی اعتبار سے استثنائی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس امتیاز کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دوسرے کسی مصنف نے اتنا کم لکھ کر ایسی مستحکم اور مستقل جگہ اپنے لیے نہیں بنائی جیسی کہ غالب نے۔ میر غلام حسنین قدر بلگرامی کے نام ایک خط میں غالب
اپنی تلاش میں۔۔۔
یہ کتاب میرے ذہنی سفر کا ایک باب ہے۔ فن اور ادب میرے لیے صرف اس وقت بامعنی بنتے ہیں جب میرا انفرادی تجربہ بن جائیں اور میں ان کا مطالعہ، مشاہدہ اور تجزیہ ایک ذاتی حوالے کے ساتھ کرسکوں۔ بات بس یہ ہے کہ فنون کے مختلف شعبے ہوں یا انسانی اور سماجی علوم
زاہد ڈار
(کہت کبیر سنو بھئی مادھو) ان دنوں شام ڈھلنے سے پہلے ہر روز میں جو راستہ پکڑتا تھا وہ دریا کی طرف جاتا تھا۔ دریا کے کنارے سیتا کنڈ تھا، ایک دھرم شالہ، مندر اور کچھ مٹھ۔ سنا ہے کہ رام چرت مانس میں تلسی داس نے جو رام کیوٹ سمواد نظم کیا ہے اس کا محل وقوع
کچھ عسکری صاحب کے بار ے میں
عسکری نے تنقید نہیں، آپ بیتی لکھی ہے۔ یوں شعر و ادب اور فنون لطیفہ کے باب میں باضابطہ قسم کی تنقید سے قطع نظر، عام گفتگو بھی کسی نہ کسی سطح پر آپ بیتی ہی ہوتی ہے۔ یہاں ان ماہرین یامبتدین شماریات کاذکر نہیں جو ادب کو بھی جنس بازار جیسی کوئی چیز سمجھ
حسرت کی سیاسی شاعری
حسرت کی زندگی میں عظمت کے اور شاعری میں صداقت کے عناصر اس حد تک نمایاں ہیں کہ ان میں کسی طرح کے ابہام اور پیچیدگی کا ہمیں مطلق احساس نہیں ہوتا۔ ان کے یہاں شخصیت کی بڑائی اور شاعری کی سچائی اپنے اظہار کی کسی شعوری کوشش کے بغیر بھی صاف دکھائی دیتی ہے۔
باقر مہدی: رگوں میں اچھلتا لہو کالی مٹی سے ملنے کو بے تاب ہے
بہت دن ہوئے اپنی ایک نظم ’کاش ایسا ہو!‘ (۱۹۸۱ء) میں باقر مہدی نے کہا تھا، بورژوازی۔۔۔ کتنے خوش ہیں دورتک انقلابی کرن کا۔۔۔ پتہ تک نہیں بوڑھے ترقی پسند شاعر۔۔۔ ادھیڑ عمر جدید یے۔۔۔ دونوں بڑے مطمئن ہیں۔ جمہوری دربار میں سر جھکائے کھڑے ہیں حضور!
احمد مشتاق: رنگ سب آسمان کے دیکھے
ہمارے ادبی معاشرے میں مطبوعہ لفظ کی باڑھ سی آئی ہوئی ہے۔ بے تحاشا کتابیں چھپتی ہیں۔ اردو میں نثر سے زیادہ شعری مجموعوں کا بازار گرم ہے، خریداروں کے قحط کے باوجود۔ شاعری کی بیشتر کتابیں صرف چھپتی ہیں، تقسیم ہوتی ہیں اور گم ہوجاتی ہیں۔ کچھ عرصہ بعد ان
خلیل الرحمن اعظمی: موت کی بانسری
خلیل صاحب کے ہونٹوں پر اس بانسری کی دھن کا ارتعاش پہلی بار میں نے ان کی موت سے کوئی سال بھر پہلے محسوس کیا۔ وہ ایک گرم اور بجھی بجھی سی رات تھی، جیسی دلی میں گرمیوں کی عام راتیں ہوتی ہیں۔ کشمیر کے سفر پر روانگی سے پہلے خلیل صاحب چند روز کے لیے میرے ساتھ
اقبال اور فکر جدید
اقبال اس صدی کے پہلے شاعر ہیں جن کے یہاں نئے انسان کے ذہنی، سماجی، اخلاقی اور روحانی مسئلوں کا احساس ملتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اقبال کا رشتہ اپنی شعری روایت سے بھی مضبوط اور مستحکم ہے۔ ایسا اس حقیقت کے باوجود ہے کہ اقبال نے اپنے بیش تر معاصرین کے برعکس،
اقبال کو سمجھنے کے لیے
اقبال کو سمجھنے کے لیے تنقید، تحقیق اور تشریح کے نام پر جو تحریریں سامنے آئی ہیں، ان میں معقولیت کا تناسب افسوسناک حد تک کم ہے۔ تعبیر کی کثرت سے اصل حقیقت کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ بیش تر تحریروں میں اقبال مرکزی موضوع سے زیادہ لکھنے والے کے ذہنی اور جذباتی
غالب کا طرز احساس اور سماجی شعور کا مسئلہ
غالب کی شاعری کا عقبی پردہ ایک تیزی سے بنتی، بگڑتی اور بدلتی ہوئی دنیا ہے، ایک ایسی اجتماعی صورت حال جس کا رقبہ مسلسل پھیلتا جاتا ہے، اور ایک ایسا معاشرہ جس کی تشکیل کا عمل مغلیہ حکومت کے خاتمے اور انگریزی اقتدار کے تسلط کے باوجود غالب کی زندگی میں مکمل
اقبال اور جدید غزل
اقبال کی غزل اپنے داخلی نظام اور خارجی ہیئت کے اعتبار سے ایک نئی واردات کا علامیہ ہونے کے باوجود اپنے بعد کی غزلیہ شاعری پربراہ راست اثرانداز نہیں ہوئی۔ چنانچہ اس سوال کا جواب کہ کیا جدید غزل کے منظرنامے پر اقبال کے اثرات کی باضابطہ نشان دہی کی جا سکتی
قرۃ العین حیدر
’’کنڈیرا کو اپنے بارے میں گفتگو کرنا سخت ناپسند ہے۔ وہ صحافی جواس کی زندگی کا حال بیان کرنے کے شائق ہیں، لامحالہ چند جانے پہچانے حقائق دہرانے پر اکتفا کرتے ہیں۔ اپنے بارے میں گفتگو سے احتراز کی خواہش بیشتر نقادوں کے اس رجحان کے خلاف ایک جبلی ردعمل معلوم
محمد علوی: سنو تو سارے منظر بولتے ہیں
ہمارے عہد کو علما اور مفکرین کئی ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ کوئی اسے اضطراب کا عہد کہتا ہے، کوئی تمنا کا، کوئی بحران کا، کسی کے نزدیک یہ تغیرنو کا عہد ہے، کسی کے لئے جذبات کے فقدان کا، کسی کے لئے تجزیے کا اور کسی کے لئے عدم تعقل کا۔ الگ الگ سمتوں میں جاتے
فراق کی حسیت سے ہمارا رابطہ
اب سے کوئی پچیس برس پہلے (۱۹۷۱ءمیں) ناصر کاظمی نے اپنے ایک مضمون (نئی غزل) میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ فانی اور یگانہ رنگ غالب کے اچھے غزل گو شاعر ہونے کے علاوہ بھی کچھ تھے یا نہیں؟ اوریہ کہ ہمارے عہد کی غزل میر و غالب کے سائے سے ہٹ کر اپنی دھوپ میں بھی
منٹو اور فحاشی
(1) منٹو ایک واقعے کا عنوان ہے۔ ہمارے افسانوی ادب کی تاریخ کے شاید سب سے اہم اور بامعنی اور مکمل واقعے کا۔ اس واقعے کا آغاز اس کی پہلی کہانی کے ساتھ ہوا تھا۔ اب اگر آپ کسی ادبی مؤرخ سے رجوع کریں تو وہ بتائے گا کہ اس واقعے کا نقطہ اختتام ۱۹۵۵کے
ادیب کی ہماری شاعری
یہ چلن عام ہے کہ اپنی ادبی روایت کے پس منظر میں ادب کی تفہیم اور تنقید کا جائزہ لیتے وقت حالی، آزاد اورشبلی کے دور سے نکل کرہم سیدھے ترقی پسندتحریک کے دور میں داخل ہوجاتے ہیں۔ تنقید میں امدادامام اثر، وحیدالدین سلیم، چکبست، دتاتریہ کیفی، سلیمان ندوی،
عوامی ادب کے مسائل اور اردو کی ادبی روایت
ادب کی عوامی صنفیں اور روایتیں اردومعاشرے میں اپنے لئے کوئی مستقل جگہ کیوں نہیں بناسکیں؟ اس سوال کا جواب بہت واضح ہے اور اتنا ہی افسوسناک بھی۔ اردو کی اشرافیت (Sophistication) اور مدنیت (Urbanity) نے برصغیر کے مجموعی کلچر میں جن عناصر اور جہتوں کا اضافہ
نئی غزل کی روایت
ہمارے عہد کے ادبی مباحث کا المیہ یہ رہاہے کہ بعض الفاظ اور اصطلاحات کو اچھی طرح سمجھے بغیر ہم ان پر ایسے حکم لگا دیتے ہیں کہ ان کا کردار صرف مسخ شدہ صورت میں ابھرتا ہے۔ روایت کا لفظ بھی انہیں بدنصیب الفاظ کی صف میں شامل ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ یہ لفظ بالذاتہ
انیسویں صدی: سر سید اور منشی نول کشور
مغلیہ اقتدار کے خاتمے کے ساتھ، انیسویں صدی میں ذہنی بیداری کی جو لہر اٹھی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ہندوستان میں پھیل گئی، اس کے بارے میں طرح طرح کی رائیں ظاہر کی گئی ہیں۔ کبھی کبھی تو ان رایوں میں یکسر اختلاف اور تضاد نظر آتا ہے۔ ان تمام رایوں کو ایک
خواجہ حسن نظامی کی نثر اور اردو کلچر
مولانا صلاح الدین احمدکے بارے میں مشہورہے کہ محمد حسین آزاد کی دربار اکبری رات کو عموما ًاپنے آس پاس رکھتے تھے۔ کہتے تھے کہ ’’دن بھر خراب اردو سنتے سنتے طبیعت مکدر ہو جاتی ہے تو سونے سے پہلے ایک دو صفحے اس کتاب سے پڑھ لیتا ہوں۔‘‘ گویا کہ اچھی زبان
نیر مسعود: جاگتا ہوں کہ خواب کرتا ہوں
’’ماحول میں ایک عجیب چیز ہے۔ بعض لوگوں نے کہاکہ اس افسانے کے ماحول سے ہمیں لگا کہ ہم اس زمانے میں پہنچ گئے ہیں۔ میں نے کہاکہ ہم نے تو ایسی کوئی چیز نہیں لکھی کہ مثلاً کون کیا پہنتا تھا۔ ماحول جن چیزوں سے بنتا ہے وہ تویہی ہیں نا کہ لوگوں کا لباس کیا ہے۔
اقبال کے شعری تصورات
فن، سماجی سطح پر افراد کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ ایک وہ جو اسے سمجھتے ہیں، دوسرے وہ جو اسے نہیں سمجھتے۔ یہ صورت حال ہر بڑے شاعر کے ساتھ پیش آتی ہے۔ اقبال کا المیہ بھی یہی ہے۔ وہ ایک کثیرالابعاد شخصیت رکھتے تھے۔ چنانچہ ان کی حیثیت کا تعین بھی
اردو طنز و مزاح اور زبان و بیان کے مسئلے پر چند باتیں
کسی مشترکہ سرگرمی کی بنیاد پر دو ایسے افراد کو جن کے عمل کی غایت بھی ایک ہو، اگر ہم دو کی بجائے ایک سمجھ بیٹھیں تو بات اور ہے۔ مثال کے طور پر شنکر جے کشن، شنکر شمبھو یا لکشمن کانت پیارے لال وغیرہ۔ مگر دو الگ الگ لفظوں کو محض اپنی کمزور لسانی عادت کی
مقدمہ شعر و شاعری پر چند باتیں
یادگار غالب کے دیباچے کی شروعات حالی نے اس بیان سے کی ہے کہ، ’’تیرہویں صدی ہجری میں جبکہ مسلمانوں کا تنزل درجہ غایت کو پہنچ چکا تھا اور ان کی دولت، عزت اور حکومت کے ساتھ علم وفضل اور کمالات بھی رخصت ہو چکے تھے، حسن اتفاق سے دارالخلافہ دہلی میں چند اہل
فراق اور نئی غزل
نئے عہد کی طرح نئی غزل کو بھی کچھ لوگ پرانے عہد یا پرانی غزل کا جواب سمجھ بیٹھے تھے۔ مگراب اسے کیا کہا جائے کہ نئی غزل ابھی اچھی طرح نئی ہو بھی نہیں پائی تھی کہ پرانی دکھائی دینے لگی۔ ایک ایسی صنف جو ایک پوری تہذیب کے نقطہ کمال کی نشاندہی کرتی ہو، اس
ادب میں انسان دوستی کا تصور ایک سیاہ حاشیہ کے ساتھ
بیسویں صدی تاریخ کی سب سے زیادہ پُر تشدد صدی تھی۔ اکیسویں صدی کے شانوں پر اسی روایت کا بوجھ ہے۔ جسمانی تشدد سے قطع نظر، بیسویں صدی نے انسان کو تشدد کے نت نئے راستوں پر لگا دیا۔ تہذیبی، لسانی، سیاسی، جذباتی تشدد کے کیسے کیسے مظہر اس صدی کی تہہ سے نمودار