Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ummeed Fazli's Photo'

امید فاضلی

1923 - 2005 | کراچی, پاکستان

کراچی کے ممتاز اردو شاعراور معروف شاعر ندا فاضلی کے بھائی

کراچی کے ممتاز اردو شاعراور معروف شاعر ندا فاضلی کے بھائی

امید فاضلی کے اشعار

11.5K
Favorite

باعتبار

اے دوپہر کی دھوپ بتا کیا جواب دوں

دیوار پوچھتی ہے کہ سایہ کدھر گیا

چمن میں رکھتے ہیں کانٹے بھی اک مقام اے دوست

فقط گلوں سے ہی گلشن کی آبرو تو نہیں

کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی

گمان تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے

گھر تو ایسا کہاں کا تھا لیکن

در بدر ہیں تو یاد آتا ہے

آسمانوں سے فرشتے جو اتارے جائیں

وہ بھی اس دور میں سچ بولیں تو مارے جائیں

یہ خود فریبئ احساس آرزو تو نہیں

تری تلاش کہیں اپنی جستجو تو نہیں

یہ سرد رات یہ آوارگی یہ نیند کا بوجھ

ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے

تشریح

یہ شعر اردو کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ اس میں جو کیفیت پائی جاتی ہے اسے شدید تنہائی کے عالم پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ اس کے تلازمات میں شدت بھی ہے اور احساس بھی۔ ’’سرد رات‘‘، ’’آوارگی‘‘اور ’’نیند کا بوجھ‘‘ یہ ایسے تین عالم ہیں جن سے تنہائی کی تصویر بنتی ہے اور جب یہ کہا کہ ’’ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے‘‘ تو گویا تنہائی کے ساتھ ساتھ بےخانمائی کے المیہ کی تصویر بھی کھینچی ہے۔ شعر کا بنیادی مضمون تنہائی اور بےخانمائی اور اجنبیت ہے۔ شاعر کسی اور شہر میں ہیں اور سرد رات میں آنکھوں پر نیند کا بوجھ لے کے آوارہ گھوم رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ شہر میں اجنبی ہیں اس لئے کسی کے گھر نہیں جا سکتے ورنہ سرد رات، آوارگی اور نیند کا بوجھ وہ مجبوریاں ہیں جو کسی ٹھکانے کا تقاضا کرتی ہیں۔ مگر شاعر کا المیہ یہ ہے کہ وہ تنہائی کے شہر میں کسی کو جانتے نہیں اسی لئے کہتے ہیں اگر میں اپنے شہر میں ہوتا تو اپنے گھر گیا ہوتا۔

شفق سوپوری

مقتل جاں سے کہ زنداں سے کہ گھر سے نکلے

ہم تو خوشبو کی طرح نکلے جدھر سے نکلے

جانے کب طوفان بنے اور رستا رستا بچھ جائے

بند بنا کر سو مت جانا دریا آخر دریا ہے

جانے کس موڑ پہ لے آئی ہمیں تیری طلب

سر پہ سورج بھی نہیں راہ میں سایا بھی نہیں

وہ خواب ہی سہی پیش نظر تو اب بھی ہے

بچھڑنے والا شریک سفر تو اب بھی ہے

جب سے امیدؔ گیا ہے کوئی!!

لمحے صدیوں کی علامت ٹھہرے

گر قیامت یہ نہیں ہے تو قیامت کیا ہے

شہر جلتا رہا اور لوگ نہ گھر سے نکلے

تری تلاش میں جانے کہاں بھٹک جاؤں

سفر میں دشت بھی آتا ہے گھر بھی آتا ہے

سکوت وہ بھی مسلسل سکوت کیا معنی

کہیں یہی ترا انداز گفتگو تو نہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے