Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Wamiq Jaunpuri's Photo'

وامق جونپوری

1909 - 1998 | جون پور, انڈیا

ممتاز ترقی پسند شاعر، اپنی نظم ’بھوکا بنگال کے لیے مشہور

ممتاز ترقی پسند شاعر، اپنی نظم ’بھوکا بنگال کے لیے مشہور

وامق جونپوری کے اشعار

5.9K
Favorite

باعتبار

یہ مانا شیشۂ دل رونق بازار الفت ہے

مگر جب ٹوٹ جاتا ہے تو قیمت اور ہوتی ہے

پہچان لو اس کو وہی قاتل ہے ہمارا

جس ہاتھ میں ٹوٹی ہوئی تلوار لگے ہے

رہنا تم چاہے جہاں خبروں میں آتے رہنا

ہم کو احساس جدائی سے بچاتے رہنا

وہ تو کہئے آج بھی زنجیر میں جھنکار ہے

ورنہ کس کو یاد رہ جاتی ہے دیوانوں کی بات

اس دور کی تخلیق بھی کیا شیشہ گری ہے

ہر آئینے میں آدمی الٹا نظر آئے

جب پرانا لہجہ کھو دیتا ہے اپنی تازگی

اک نئی طرز نوا ایجاد کر لیتے ہیں ہم

کون سنتا ہے بھکاری کی صدائیں اس لیے

کچھ ظریفانہ لطیفے یاد کر لیتے ہیں ہم

یہ ہم کو چھوڑ کے تنہا کہاں چلے وامقؔ

ابھی تو منزل معراج دار باقی ہے

تم ہوش میں جب آئے تو آفت ہی بن کے آئے

اب میرے پاس جب بھی تم آؤ نشے میں آؤ

ہم نہ کہتے تھے شاعری ہے وبال

آج لو گھر گئے حسینوں میں

اگر غبار ہو دل میں اگر ہو تنگ نظر

تو مہر و ماہ سے بھی تیرگی نہیں جاتی

اے کاش مرے گوش و نظر بھی رہیں ثابت

جب حسن سنا جائے یا نغمہ نظر آئے

دیکھیے کب راہ پر ٹھیک سے اٹھیں قدم

رات کی مے کا خمار دیکھیے کب تک رہے

ارے او ادیب فسردہ خو ارے او مغنی رنگ و بو

ابھی حاشیے پہ کھڑا ہے تو بہت آگے اہل ہنر گئے

ہم کو حاجت نہیں نقیبوں کی

شعر اپنا نقیب ہے خود ہی

نہ پوچھو بے بسی اس تشنہ لب کی

کہ جس کی دسترس میں جام بھی ہے

بدلتی رہتی ہیں قدریں رحیل وقت کے ساتھ

زمانہ بدلے گا ہر شے کا نام بدلے گا

ہے جس کی ٹھوکروں میں آب زندگی وامقؔ

وہ تشنگی کا سمندر دکھائی دیتا ہے

مرے فکر و فن کو نئی فضا نئے بال و پر کی تلاش ہے

جو قفس کو یاس کے پھونک دے مجھے اس شرر کی تلاش ہے

لے کے تیشہ اٹھا ہے پھر مزدور

ڈھل رہے ہیں جبل مشینوں میں

یقیناً آ گیا ہے مے کدے میں تشنہ لب کوئی

کہ پیتا جا رہا ہوں کیفیت کم ہوتی جاتی ہے

کس نے بسایا تھا اور ان کو کس نے یوں برباد کیا

اپنے لہو کی بو آتی ہے ان اجڑے بازاروں سے

میں تنگ ہوں سکون سے اب اضطراب دے

بے انتہا سکون بھی آزار ہی تو ہے

اک حلقۂ احباب ہے تنہائی بھی اس کی

اک ہم ہیں کہ ہر بزم میں تنہا نظر آئے

وہ جو تسبیح لیے ہے اس کو

میرے آگے سے اٹھا دے ساقی

وہ لمحہ بھر کی ملی خلد میں جو آزادی

تو قید ہو گئے مٹی میں ہم سدا کے لیے

زباں تک جو نہ آئے وہ محبت اور ہوتی ہے

فسانہ اور ہوتا ہے حقیقت اور ہوتی ہے

مجھے اس جنوں کی ہے جستجو جو چمن کو بخش دے رنگ و بو

جو نوید فصل بہار ہو مجھے اس نظر کی تلاش ہے

نہیں ملتے تو اک ادنیٰ شکایت ہے نہ ملنے کی

مگر مل کر نہ ملنے کی شکایت اور ہوتی ہے

رات بھی مرجھا چلی چاند بھی کمھلا گیا

پھر بھی ترا انتظار دیکھیے کب تک رہے

وہ وعدے یاد نہیں تشنہ ہے مگر اب تک

وہ وعدے بھی کوئی وعدے جو مے پلا کے لیے

محبت کی سزا ترک محبت

محبت کا یہی انعام بھی ہے

تیری قسمت ہی میں زاہد مئے نہیں

شکر تو مجبوریوں کا نام ہے

یہ زندگی کی رات ہے تاریک کس قدر

دونوں سروں پہ شمع جلاؤ نشے میں آؤ

پی لیا کرتے ہیں جینے کی تمنا میں کبھی

لڑکھڑانا بھی ضروری ہے سنبھلنے کے لیے

لاکھ آباد تمنا ہو کے دل

پھر بھی ویراں ہے نہ جانے کس لیے

اسے ضد کہ وامقؔ شکوہ گر کسی راز سے نہ ہو با خبر

مجھے ناز ہے کہ یہ دیدہ ور مری عمر بھر کی تلاش ہے

ہارنے جیتنے سے کچھ نہیں ہوتا وامقؔ

کھیل ہر سانس پہ ہے داؤں لگاتے رہنا

سرکشی خودکشی پہ ختم ہوئی

ایک رسی تھی جل گئی شاید

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے