Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Waseem Barelvi's Photo'

وسیم بریلوی

1940 | بریلی, انڈیا

مقبول عام شاعر

مقبول عام شاعر

وسیم بریلوی کی ٹاپ ٢٠ شاعری

میں نے چاہا ہے تجھے عام سے انساں کی طرح

تو مرا خواب نہیں ہے جو بکھر جائے گا

شام تک صبح کی نظروں سے اتر جاتے ہیں

اتنے سمجھوتوں پہ جیتے ہیں کہ مر جاتے ہیں

ایسے رشتے کا بھرم رکھنا کوئی کھیل نہیں

تیرا ہونا بھی نہیں اور ترا کہلانا بھی

بھرے مکاں کا بھی اپنا نشہ ہے کیا جانے

شراب خانے میں راتیں گزارنے والا

تھکے ہارے پرندے جب بسیرے کے لیے لوٹیں

سلیقہ مند شاخوں کا لچک جانا ضروری ہے

بہت سے خواب دیکھو گے تو آنکھیں

تمہارا ساتھ دینا چھوڑ دیں گی

رات تو وقت کی پابند ہے ڈھل جائے گی

دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے

جو مجھ میں تجھ میں چلا آ رہا ہے برسوں سے

کہیں حیات اسی فاصلے کا نام نہ ہو

ہمارے گھر کا پتا پوچھنے سے کیا حاصل

اداسیوں کی کوئی شہریت نہیں ہوتی

ترے خیال کے ہاتھوں کچھ ایسا بکھرا ہوں

کہ جیسے بچہ کتابیں ادھر ادھر کر دے

تجھے پانے کی کوشش میں کچھ اتنا کھو چکا ہوں میں

کہ تو مل بھی اگر جائے تو اب ملنے کا غم ہوگا

میں اس کو آنسوؤں سے لکھ رہا ہوں

کہ میرے بعد کوئی پڑھ نہ پائے

مسلسل حادثوں سے بس مجھے اتنی شکایت ہے

کہ یہ آنسو بہانے کی بھی تو مہلت نہیں دیتے

وہ جھوٹ بول رہا تھا بڑے سلیقے سے

میں اعتبار نہ کرتا تو اور کیا کرتا

میں جن دنوں ترے بارے میں سوچتا ہوں بہت

انہیں دنوں تو یہ دنیا سمجھ میں آتی ہے

محبت میں بچھڑنے کا ہنر سب کو نہیں آتا

کسی کو چھوڑنا ہو تو ملاقاتیں بڑی کرنا

ویسے تو اک آنسو ہی بہا کر مجھے لے جائے

ایسے کوئی طوفان ہلا بھی نہیں سکتا

جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا

کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا

تشریح

اس شعر میں کئی تلازمات ایسے ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وسیم بریلوی شعر میں معنی کے ساتھ کیفیت پیدا کرنے کے فن سے واقف ہیں۔ ’جہاں‘ کی مناسبت سے ’وہیں‘، اور ان دونوں کی رعایت سے ’مکاں‘، ’چراغ‘ کی مناسبت سے ’روشنی‘ اور اس سے بڑھ کر کسی، یہ سب ایسے تلازمات ہیں جن سے شعر میں معنی آفرینی کا عنصر پیدا ہوا ہے۔

شعر کے معنیٔ قریب تو یہ ہوسکتے ہیں کہ چراغ اپنی روشنی سے کسی ایک مکاں کو روشن نہیں کرتا ہے، بلکہ جہاں جلتا ہے وہاں کی فضا کو منور کرتا ہے۔ اس شعر میں ایک لفظ ’مکاں‘مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ مکاں سے یہاں مراد محض کوئی خاص گھر نہیں بلکہ اسپیس ہے۔

اب آئیے شعر کے معنیٔ بعید پر روشنی ڈالتے ہیں۔ دراصل شعر میں ’چراغ‘، ’روشنی‘ اور ’مکاں‘ کو استعاراتی حیثیت حاصل ہے۔ چراغ استعارہ ہے نیک اور بھلے آدمی کا، اس کی مناسبت سے روشنی استعارہ ہےنیکی اور بھلائی کا۔ اس طرح شعر کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ نیک آدمی کسی خاص جگہ نیکی اور بھلائی پھیلانے کے لئے پیدا نہیں ہوتے بلکہ ان کا کوئی خاص مکان نہیں ہوتا اور یہ اسپیس کے تصور سے بہت آگے کے لوگ ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ آدمی بھلا ہو۔ اگر ایسا ہے تو بھلائی ہر جگہ پھیل جاتی ہے۔

شفق سوپوری

تشریح

اس شعر میں کئی تلازمات ایسے ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وسیم بریلوی شعر میں معنی کے ساتھ کیفیت پیدا کرنے کے فن سے واقف ہیں۔ ’جہاں‘ کی مناسبت سے ’وہیں‘، اور ان دونوں کی رعایت سے ’مکاں‘، ’چراغ‘ کی مناسبت سے ’روشنی‘ اور اس سے بڑھ کر کسی، یہ سب ایسے تلازمات ہیں جن سے شعر میں معنی آفرینی کا عنصر پیدا ہوا ہے۔

شعر کے معنیٔ قریب تو یہ ہوسکتے ہیں کہ چراغ اپنی روشنی سے کسی ایک مکاں کو روشن نہیں کرتا ہے، بلکہ جہاں جلتا ہے وہاں کی فضا کو منور کرتا ہے۔ اس شعر میں ایک لفظ ’مکاں‘مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ مکاں سے یہاں مراد محض کوئی خاص گھر نہیں بلکہ اسپیس ہے۔

اب آئیے شعر کے معنیٔ بعید پر روشنی ڈالتے ہیں۔ دراصل شعر میں ’چراغ‘، ’روشنی‘ اور ’مکاں‘ کو استعاراتی حیثیت حاصل ہے۔ چراغ استعارہ ہے نیک اور بھلے آدمی کا، اس کی مناسبت سے روشنی استعارہ ہےنیکی اور بھلائی کا۔ اس طرح شعر کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ نیک آدمی کسی خاص جگہ نیکی اور بھلائی پھیلانے کے لئے پیدا نہیں ہوتے بلکہ ان کا کوئی خاص مکان نہیں ہوتا اور یہ اسپیس کے تصور سے بہت آگے کے لوگ ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ آدمی بھلا ہو۔ اگر ایسا ہے تو بھلائی ہر جگہ پھیل جاتی ہے۔

شفق سوپوری

یہ کس مقام پہ لائی ہے میری تنہائی

کہ مجھ سے آج کوئی بد گماں نہیں ہوتا

کیا دکھ ہے سمندر کو بتا بھی نہیں سکتا

آنسو کی طرح آنکھ تک آ بھی نہیں سکتا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے