Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Zubair Rizvi's Photo'

زبیر رضوی

1935 - 2016 | دلی, انڈیا

ممتاز ترین جدید شاعروں میں نمایاں۔ اپنے ادبی رسالے ’ذہن جدید‘ کے لئے مشہور

ممتاز ترین جدید شاعروں میں نمایاں۔ اپنے ادبی رسالے ’ذہن جدید‘ کے لئے مشہور

زبیر رضوی کے اشعار

4.9K
Favorite

باعتبار

سخن کے کچھ تو گہر میں بھی نذر کرتا چلوں

عجب نہیں کہ کریں یاد ماہ و سال مجھے

بھٹک جاتی ہیں تم سے دور چہروں کے تعاقب میں

جو تم چاہو مری آنکھوں پہ اپنی انگلیاں رکھ دو

جلا ہے دل یا کوئی گھر یہ دیکھنا لوگو

ہوائیں پھرتی ہیں چاروں طرف دھواں لے کر

ادھر ادھر سے مقابل کو یوں نہ گھائل کر

وہ سنگ پھینک کہ بے ساختہ نشانہ لگے

کچی دیواروں کو پانی کی لہر کاٹ گئی

پہلی بارش ہی نے برسات کی ڈھایا ہے مجھے

اپنی ذات کے سارے خفیہ رستے اس پر کھول دیے

جانے کس عالم میں اس نے حال ہمارا پوچھا تھا

وہ جس کو دیکھنے اک بھیڑ امڈی تھی سر مقتل

اسی کی دید کو ہم بھی ستون دار تک آئے

جو نہ اک بار بھی چلتے ہوئے مڑ کے دیکھیں

ایسی مغرور تمناؤں کا پیچھا نہ کرو

نئے گھروں میں نہ روزن تھے اور نہ محرابیں

پرندے لوٹ گئے اپنے آشیاں لے کر

دور تک کوئی نہ آیا ان رتوں کو چھوڑنے

بادلوں کو جو دھنک کی چوڑیاں پہنا گئیں

کوئی ٹوٹا ہوا رشتہ نہ دامن سے الجھ جائے

تمہارے ساتھ پہلی بار بازاروں میں نکلا ہوں

زندگی جن کی رفاقت پہ بہت نازاں تھی

ان سے بچھڑی تو کوئی آنکھ میں آنسو بھی نہیں

غضب کی دھار تھی اک سائباں ثابت نہ رہ پایا

ہمیں یہ زعم تھا بارش میں اپنا سر نہ بھیگے گا

یہ لمحہ لمحہ تکلف کے ٹوٹتے رشتے

نہ اتنے پاس مرے آ کہ تو پرانا لگے

وہ جس کو دور سے دیکھا تھا اجنبی کی طرح

کچھ اس ادا سے ملا ہے کہ دوستانہ لگے

ہائے یہ اپنی سادہ مزاجی ایٹم کے اس دور میں بھی

اگلے وقتوں کی سی شرافت ڈھونڈ رہی ہے شہروں میں

پرانے لوگ دریاؤں میں نیکی ڈال آتے تھے

ہمارے دور کا انسان نیکی کر کے چیخے گا

عجیب لوگ تھے خاموش رہ کے جیتے تھے

دلوں میں حرمت سنگ صدا کے ہوتے ہوئے

میں اپنی داستاں کو آخر شب تک تو لے آیا

تم اس کا خوب صورت سا کوئی انجام لکھ دینا

سرخیاں اخبار کی گلیوں میں غل کرتی رہیں

لوگ اپنے بند کمروں میں پڑے سوتے رہے

جاتے موسم نے جنہیں چھوڑ دیا ہے تنہا

مجھ میں ان ٹوٹتے پتوں کی جھلک ہے کتنی

نظر نہ آئے تو سو وہم دل میں آتے ہیں

وہ ایک شخص جو اکثر دکھائی دیتا ہے

تم اپنے چاند تارے کہکشاں چاہے جسے دینا

مری آنکھوں پہ اپنی دید کی اک شام لکھ دینا

تم جہاں اپنی مسافت کے نشاں چھوڑ گئے

وہ گزر گاہ مری ذات کا ویرانہ تھا

دھواں سگرٹ کا بوتل کا نشہ سب دشمن جاں ہیں

کوئی کہتا ہے اپنے ہاتھ سے یہ تلخیاں رکھ دو

شام کی دہلیز پر ٹھہری ہوئی یادیں زبیرؔ

غم کی محرابوں کے دھندلے آئینے چمکا گئیں

کہاں پہ ٹوٹا تھا ربط کلام یاد نہیں

حیات دور تلک ہم سے ہم کلام آئی

عورتوں کی آنکھوں پر کالے کالے چشمے تھے سب کی سب برہنہ تھیں

زاہدوں نے جب دیکھا ساحلوں کا یہ منظر لکھ دیا گناہوں میں

ہم نے پائی ہے ان اشعار پہ بھی داد زبیرؔ

جن میں اس شوخ کی تعریف کے پہلو بھی نہیں

کیوں متاع دل کے لٹ جانے کا کوئی غم کرے

شہر دلی میں تو ایسے واقعے ہوتے رہے

گلابوں کے ہونٹوں پہ لب رکھ رہا ہوں

اسے دیر تک سوچنا چاہتا ہوں

اپنی پہچان کے سب رنگ مٹا دو نہ کہیں

خود کو اتنا غم جاناں سے شناسا نہ کرو

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے