aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Intizar Hussain's Photo'

انتظار حسین

1925 - 2016 | لاہور, پاکستان

ممتاز ترین فکشن رائیٹر ، اپنے منفرد حکایتی اسلوب اور تقسیم کے تجربے کے تخلیقی بیان کے لیے معروف۔ مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیے جانے والے پہلے اردو ادیب ۔

ممتاز ترین فکشن رائیٹر ، اپنے منفرد حکایتی اسلوب اور تقسیم کے تجربے کے تخلیقی بیان کے لیے معروف۔ مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیے جانے والے پہلے اردو ادیب ۔

انتظار حسین کے اقوال

3.1K
Favorite

باعتبار

جب سب سچ بول رہے ہوں تو سچ بولنا ایک سیدھا سادہ اور معاشرتی فعل ہے لیکن جہاں سب جھوٹ بول رہے ہوں وہاں سچ بولنا سب سے بڑی اخلاقی قدر بن جاتا ہے۔ اسے مسلمانوں کی زبان میں شہادت کہتے ہیں۔

ہر دور ادب پیدا کرنے کے اپنے نسخے ساتھ لے کر آتا ہے۔

قوموں کو جنگیں تباہی نہیں کرتیں۔ قومیں اس وقت تباہ ہوتی ہیں جب جنگ کے مقاصد بدل جاتے ہیں۔

آج کا لکھنے والا غالب اور میر نہیں بن سکتا ۔ وہ شاعرانہ عظمت اور مقبولیت اس کا مقدر نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ ایک بہرے ،گونگے، اندھے معاشرے میں پیدا ہوا ہے۔

جس زمانے میں تاروں کو دیکھ کر زمین کی سمت اور رات کا سمے معلوم کیا جاتا تھا، اس زمانے میں سفر شاید تعلیم کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔

جو معاشرہ اپنے آپ کو جاننا نہیں چاہتا وہ ادیب کو کیسے جانے گا۔ جنہیں اپنے ضمیر کی آواز سنائی نہیں دیتی انہیں ادیب کی آواز بھی سنائی نہیں دے سکتی۔

چار آدمیوں کی صحبت ادیب کے تخلیقی کام میں کھنڈت ڈالتی ہے۔ لڑاکا بیوی، باتونی انٹلکچول، لائق معلم، ادب کی سرپرستی کرنے والا افسر۔

رشتوں کی تلاش ایک درد بھرا عمل ہے۔ مگر ہمارے زمانے میں شاید وہ زیادہ ہی پیچیدہ اور درد بھرا ہوگیا ہے۔

اگر ہمیں کوئی نیا نظام بنانا ہے تو پرانے نظام کو یاد رکھنا چاہیے۔ اگر ہم نے پرانے نظام کو بھلا دیا تو پھر ہمیں یہ بھی پتہ نہیں چلے گا کہ کس قسم کی باتوں کے لئے جد و جہد کرنی چاہیے، اور ایک دن نوبت یہ آئے گی کہ ہم جد و جہد سے بھی تھک جائیں گے اور مشین کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے۔

عورت یعنی چہ؟ محض جنسی جانور؟ پھر مرد کو بھی اسی خانے میں رکھئے۔ یہ کوئی الگ جانور تو نہیں ہے، اسی مادہ کا نر ہے۔

تاج محل اسی باورچی کے زمانے میں تیار ہوسکتا تھا، جو ایک چنے سے ساٹھ کھانے تیار کر سکتا تھا۔

اصل میں ہمارے یہاں مولویوں اور ادیبوں کا ذہنی ارتقا ایک ہی خطوط پر ہوا ہے۔

افسانے کا میں تصور ہی یوں کرتا ہوں جیسے وہ پھلواری ہے جو زمین سے اگتی ہے۔

قدیمی سماج میں افسانہ ہوتا تھا، افسانہ نگار نہیں ہوتے تھے۔

ہر متروک لفظ ایک گمشدہ شہر ہے اور ہر متروک اسلوبِ بیان ایک چھوڑا ہوا علاقہ۔

شاعری، کم از کم بڑی شاعری محض شعور کا معاملہ نہیں ہوتی۔ وہ چھوٹے شاعر ہوتے ہیں جنھیں پوری خبر ہوتی ہے کہ وہ شعر میں کیا کر رہے ہیں۔ بڑا شاعر خبر اور بے خبری کے دوراہے پر ہوتا ہے۔

الف لیلہ کو بس یوں سمجھ لیجئے کہ سارے عربوں نے یا ایک پوری تہذیب نے اسے تصنیف کیا ہے۔

دنیا آدمی کے ساتھ لگی ہوئی ہے، لیکن جب آدمی دنیا کے ساتھ لگ جائے اور دنیوی ضروریات معاشرہ کے اعصاب پر سوار ہو جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی قدر مر گئی ہے۔ اس واقعہ کی خبر یا تو کسی ولی کو ہوتی ہے یا ادیب کو ہوتی ہے۔

لفظ جب ڈوبتا ہے تو اپنے ساتھ کسی احساس یا کسی تصور کو لے کر ڈوبتا ہے اور جب کوئی اسلوب بیان تقریر اور تحریر کے محاذ پر پٹ جاتا ہے، تو وہ تصویروں، اشاروں، کنایوں تلازموں اور کیفیتوں کے ایک لشکر کے ساتھ پسپا ہوتا ہے۔

میں سوچتا ہوں کہ ہم غالب سے کتنے مختلف زمانے میں جی رہے ہیں۔ اس شخص کا پیشہ آبا سپہ گری تھا۔ شاعری کو اس نے ذریعہ عزت نہیں سمجھا۔ غالب کی عزت غالب کی شاعری تھی۔ شاعری اس کے لئے کسی دوسری عزت کا ذریعہ نہ بن سکی۔ اب شاعری ہمارے لئے ذریعہ عزت ہے۔

اردو ادب کے حق میں دو چیزیں سب سے زیادہ مہلک ثابت ہوئیں۔ انسان دوستی اور کھدر کا کرتا۔

رومانی شاعری اور رومانی افسانہ اردو ادب کے سیم زدہ علاقے ہیں۔

اس صدی (بیسوی) کی تیسری اور چوتھی دہائی کا اردو افسانہ حقیقت نگاری اور جذباتیت کے گھپلے کی پیداوار ہے۔ اس عمارت کی اینٹ ٹیڑھی رکھی گئی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پریم چند اردو افسانے کی ٹیڑھی اینٹ ہیں۔

نئی غزل وضع کرنے کا ٹوٹکا یہ ہے کہ نئی اشیا کے نام شعر میں استعمال کیجئے۔ جیسے کرسی، سائیکل، ٹیلیفون، ریل گاڑی، سگنل۔

ہمارے اجتماعی علامتی نظام کی بڑی امین غزل چلی آتی ہے۔

جب کسی زبان سے علامتیں گم ہونے لگتی ہیں تو وہ اس خطرے کا اعلان ہے کہ وہ معاشرہ اپنی روحانی واردات کو بھول رہا ہے، اپنی ذات کو فراموش کرنا چاہتا ہے۔ اردو میں حقیقت نگاری کی تحریک اصل میں اپنی ذات کو فراموش کرنے کی تحریک تھی۔

ادب اور موٹر کار دو الگ الگ قدریں ہیں۔ ادب ایک ذہنی رویہ ہے، جینے کا ایک طور ہے، موٹر کار جینے کا ایک دوسرا اسلوب ہے۔

ایک بے ایمان قوم اچھی نثر نہیں پیدا کر سکتی تو اچھی شاعری کیا پیدا کرے گی۔ ویسے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسے معاشرہ میں اچھے نثرنگار یا شاعر سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتے۔ ہوتے تو ہیں مگر وہ ایک مؤثر ادبی رجحان نہیں بن سکتے اور ادب ایک معاشرتی طاقت نہیں بن پاتا۔

آدمی اور آدمی کے درمیان رشتہ نہ رہے یعنی اجتماعی فکریں ختم ہو جائیں اور ہر فرد کو اپنی فکر ہو تو ادب اپنی اپیل کھو بیٹھتا ہے۔

چیزوں کو پرکھنے، اچھے اور برے میں تمیز کرنے اور خوبصورتی اور بدصورتی میں فرق کرنے کے ہمارے اپنے معیار نہیں رہے ہیں، یا یہ کہ اپنے معیاروں پر اعتبار نہیں رہا ہے۔

زمانے کی قسم آج کا لکھنے والا خسارے میں ہے اور بے شک ادب کی نجات اسی خسارے میں ہے۔ یہ خسارہ ہماری ادبی روایت کی مقدس امانت ہے۔

ہر گنہگار معاشرہ اپنے گناہوں کا بوجھ اپنے عضو ضعیف پر ڈالتا ہے۔ گنہگار معاشرہ میں ادیب کی حیثیت عضو ضعیف کی ہوتی ہے۔

اشتہاروں کی طاقت یہ ہے کہ آج کوئی فرم یہ ٹھان لے کہ اسے غلیلوں کا کاروبار کرنا ہے تو وہ اسے کرکٹ کے برابر بھی مقبول بنا سکتی ہے۔

افسانے میں میرا مسئلہ ظاہر ہونا نہیں ہے، روپوش ہونا ہے۔

رومانی شاعری اور رومانی افسانہ جذبات کے اغوا اور قتل کی واردات ہیں۔

رسم الخط کی تبدیلی محض رسم الخط کی تبدیلی نہیں ہوتی، بلکہ وہ اپنے باطن کو بھی بدلنے کا اقدام ہوتی ہے۔

کہتے ہیں کہ موجودہ بر اعظموں کے منجملہ پہلے ایک اور بر اعظم تھا جو سمندر میں غرق ہوگیا۔ اردو کی پرانی داستانوں اور پرانی شاعری میں جو رنگا رنگ اسالیب بیان اور ان گنت الفاظ نظر آتے ہیں، وہ پتا دیتے ہیں کہ اردو زبان بھی ایک پورا بر اعظم غرق کئے بیٹھی ہے۔

ہم لکھنے والے ایک بے ایمان معاشرہ میں سانس لے رہے ہیں۔ ذاتی منفعت اس معاشرہ کا اصل الاصول بن گئی ہے اور موٹر کار ایک قدر کا مرتبہ حاصل کر چکی ہے۔

پرانی دنیا میں عشق جز وقتی مشغلہ نہیں تھا ۔اس کی حیثیت ضمنی اور غیر ضروری کام کی نہیں تھی۔ عشق کے آغاز کے ساتھ سارے ضروری کام معطل ہو جاتے تھے اور آدمی کی پوری ذات اس کی لپیٹ میں آجاتی تھی۔ یہ صنعتی عہد کا کارنامہ ہے کہ عشق کو ذات کی واردات اور زندگی کا نمائندہ جذبہ ماننے سے انکار کیا گیا۔

افسانے لکھنا میرے لئے اپنی ذات سے ہجرت کا عمل ہے۔

جب روزہ مرہ کے کاموں میں تخلیقی عمل رک جائے یا مندا پڑ جائے تو اسے کلچر کے زوال کی علامت سمجھنا چاہیے۔

انگریزی پھول اور رومن حروف اجنبی زمینوں سے آئے ہیں ہمیں ان سے مہک نہیں آتی۔ شاید ہماری باطنی زندگی میں وہ رسوخ انہیں کبھی حاصل نہ ہو سکے جس کے بعد پھول اور حروف روحانی معنویت کے حامل بن جایا کرتے ہیں۔

آج اتحاد اور آزادی کے جذبات نے دنیا میں ہنگامہ پیدا کر رکھا ہے۔ کل تک یہ ہوتا تھا کہ محبت کے پیچھے آدمی خودکشی کر لیتا تھا۔ آج اجتماعی جذبات عالمگیر تباہی کا سامان پیدا کرتے ہیں۔

آج کے لکھنے والوں کے لئے ماضی کوئی واضح اور معین رشتہ نہیں رہا ہے۔ بلکہ رشتوں کا ایک گچھا ہے جس کے مختلف سرے ان کے ہاتھ میں آ آکر پھسل جاتے ہیں۔

ہم نے اگر رومن رسم الخط کو اختیار کیا تو وہ سرکاری دفتروں میں رہے گا، یونیورسٹیوں کی زینت بنے گا اور کوٹھیوں میں گملوں اور گلدانوں میں لگا کر رکھا جائے گا۔ مگر مسجدوں، درگاہوں اور امام باڑوں میں طغرے بھی اور دودھ فروشوں اور پانوں کی دکانوں پر غالب و اقبال کے شعر اسی پرانے دھرانے رسم الخط میں آویزاں رہیں گے۔

گہرائی اور گیرائی علامتوں سے پیدا ہوتی ہے۔ ادب میں بھی، زندگی میں بھی، اور علامتیں دونوں علاقوں سے جا رہی ہیں۔

ناموں کا جانا اور ناموں کا آنا معمولی واقعہ نہیں ہوتا۔ نام میں بہت کچھ رکھا ہے۔ اپنے مستند ناموں کو رد کرکے کسی دوسری تہذیب کے ناموں کو سند سمجھنا، افکار و خیالات کے ایک نظام سے رشتہ توڑ کر کسی دوسرے نظام کی غلامی قبول کرنا ہے۔

ادیب بھی آدمی ہوتے ہیں۔ اردگرد کے حالات اس کے طرزِ عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جب ہر شخص کو اپنی فکر ہو تو ادیب کو بھی اپنی فکر پڑتی ہے۔

اشتہارات دل و دماغ پر یلغار کرتے ہیں اور عقل کے گرد گھیرا ڈالتے ہیں۔ وہ جدید نفسیاتی اسلحہ سے مسلح ہوتے ہیں جن کے آگے کوئی مدافعت نہیں چلتی اور دل و دماغ کو بالآخر پسپا ہونا پڑتا ہے۔

جذباتیت حقیقت نگاری کی مابعد الطبیعات ہے۔ حقیقت نگار جب حقیقت سے گریز کرتے ہیں تو جذباتیت میں پناہ لیتے ہیں۔

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے