aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Saadat Hasan Manto's Photo'

سعادت حسن منٹو

1912 - 1955 | لاہور, پاکستان

ناموراردو فکشن رائیٹر- شاہکار افسانوں کے خالق، جن میں 'ٹھنڈا گوشت' ، 'کھول دو' ، ٹوبہ ٹیک سنگھ'، 'بو' وغیرہ قابل ذکر ہیں

ناموراردو فکشن رائیٹر- شاہکار افسانوں کے خالق، جن میں 'ٹھنڈا گوشت' ، 'کھول دو' ، ٹوبہ ٹیک سنگھ'، 'بو' وغیرہ قابل ذکر ہیں

سعادت حسن منٹو کے اقوال

33.6K
Favorite

باعتبار

لیڈر جب آنسو بہا کر لوگوں سے کہتے ہیں کہ مذہب خطرے میں ہے تو اس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ مذہب ایسی چیز ہی نہیں کہ خطرے میں پڑ سکے، اگر کسی بات کا خطرہ ہے تو وہ لیڈروں کا ہے جو اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے لئے مذہب کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔

میں بغاوت چاہتا ہوں۔ ہر اس فرد کے خلاف بغاوت چاہتا ہوں جو ہم سے محنت کراتا ہے مگر اس کے دام ادا نہیں کرتا۔

آپ شہر میں خوبصورت اور نفیس گاڑیاں دیکھتے ہیں۔۔۔ یہ خوبصورت اور نفیس گاڑیاں کوڑا کرکٹ اٹھانے کے کام نہیں آ سکتیں۔ گندگی اور غلاظت اٹھا کر باہر پھینکنے کے لئے اور گاڑیاں موجود ہیں جنہیں آپ کم دیکھتے ہیں اور اگر دیکھتے ہیں تو فوراً اپنی ناک پر رومال رکھ لیتے ہیں۔۔۔ ان گاڑیوں کا وجود ضروری ہے اور ان عورتوں کا وجود بھی ضروری ہے جو آپ کی غلاظت اٹھاتی ہیں۔ اگر یہ عورتیں نہ ہوتیں تو ہمارے سب گلی کوچے مردوں کی غلیظ حرکات سے بھرے ہوتے۔

پہلے مذہب سینوں میں ہوتا تھا آج کل ٹوپیوں میں ہوتا ہے۔ سیاست بھی اب ٹوپیوں میں چلی آئی ہے۔ زندہ باد ٹوپیاں!

دنیا میں جتنی لعنتیں ہیں، بھوک ان کی ماں ہے۔

دل ایسی شیئ نہیں جو بانٹی جا سکے۔

زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں اگر آپ اس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھیئے۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔۔۔ مجھ میں جو برائیاں ہیں، وہ اس عہد کی برائیاں ہیں۔۔۔ میری تحریر میں کوئی نقص نہیں۔ جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، در اصل موجودہ نظام کا نقص ہے۔

بھوک کسی قسم کی بھی ہو، بہت خطرناک ہے۔

ویشیا اور باعصمت عورت کا مقابلہ ہرگز ہرگز نہیں کرنا چاہیئے۔ ان دونوں کا مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ویشیا خود کماتی ہے اور با عصمت عورت کے پاس کما کر لانے والے کئی موجود ہوتے ہیں۔

اگر ایک ہی بار جھوٹ نہ بولنے اور چوری نہ کرنے کی تلقین کرنے پر ساری دنیا جھوٹ اور چوری سے پرہیز کرتی تو شاید ایک ہی پیغمبر کافی ہوتا۔

ہندوستان کو ان لیڈروں سے بچاؤ جو ملک کی فضا بگاڑ رہے ہیں اور عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔

عورت ہاں اور نہ کا ایک نہایت ہی دلچسپ مرکب ہے۔ انکار اور اقرار کچھ اس طرح عورت کے وجود میں خلط ملط ہو گیا ہے کہ بعض اوقات اقرار انکار معلوم ہوتا ہے اور انکار اقرار۔

جسم داغا جا سکتا ہے مگر روح نہیں داغی جا سکتی۔

ہر عورت ویشیا نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیا عورت ہوتی ہے۔ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے۔

زبان بنائی نہیں جاتی، خود بنتی ہے اور نہ انسانی کوششیں کسی زبان کو فنا کر سکتی ہیں۔

اگر میں کسی عورت کے سینے کا ذکر کرنا چاہوں گا تو اسے عورت کا سینہ ہی کہوں گا۔ عورت کی چھاتیوں کو آپ مونگ پھلی، میز یا استرا نہیں کہہ سکتے۔۔۔ یوں تو بعض حضرات کے نزدیک عورت کا وجود ہی فحش ہے، مگر اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے۔

حسین چیز ایک دائمی مسرت ہے۔ آرٹ جہاں بھی ملے ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیئے۔

سوسائٹی کے اصولوں کے مطابق مرد مرد رہتا ہے خواہ اس کی کتاب زندگی کے ہر ورق پر گناہوں کی سیاہی لپی ہو۔ مگر وہ عورت جو صرف ایک مرتبہ جوانی کے بے پناہ جذبے کے زیر اثر یا کسی لالچ میں آ کر یا کسی مرد کی زبردستی کا شکار ہو کر ایک لمحے کے لئے اپنے راستے سے ہٹ جائے، عورت نہیں رہتی۔ اسے حقارت و نفرت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ سوسائٹی اس پر وہ تمام دروازے بند کر دیتی ہے جو ایک سیاہ پیشہ مرد کے لئے کھلے رہتے ہیں۔

میں ادب اور فلم کو ایک ایسا میخانہ سمجھتا ہوں، جس کی بوتلوں پر کوئی لیبل نہیں ہوتا۔

اگر ہم صابن اور لیونڈر کا ذکر کر سکتے ہیں تو ان موریو ں اور بدروؤں کا ذکر کیو ں نہیں کر سکتے جو ہمارے بدن کا میل پیتی ہیں۔ اگر ہم مندروں اور مسجدوں کا ذکر کر سکتے ہیں تو ان قحبہ خانوں کا ذکر کیوں نہیں کر سکتے جہاں سے لوٹ کر کئی انسان مندروں اور مسجدوں کا رخ کرتے ہیں۔۔۔ اگر ہم افیون، چرس، بھنگ اور شراب کے ٹھیکو ں کا ذکر کر سکتے ہیں تو ان کوٹھوں کا ذکر کیوں نہیں کر سکتے جہاں ہر قسم کا نشہ استعمال کیا جاتا ہے؟

یہ لوگ جنہیں عرف عام میں لیڈر کہا جاتا ہے، سیاست اور مذہب کو لنگڑا، لولا اور زخمی آدمی تصور کرتے ہیں۔

ہر حسین چیز انسان کے دل میں اپنی وقعت پیدا کر دیتی ہے۔ خواہ انسان غیر تربیت یافتہ ہی کیوں نہ ہو۔

ویشیا پیدا نہیں ہوتی، بنائی جاتی ہے۔ یا خود بنتی ہے۔ جس چیز کی مانگ ہوگی منڈی میں ضرور آئے گی۔ مرد کی نفسانی خواہشات کی مانگ عورت ہے۔ خواہ وہ کسی شکل میں ہو۔ چنانچہ اس مانگ کا اثر یہ ہے کہ ہر شہر میں کوئی نہ کوئی چکلہ موجود ہے۔ اگر آج یہ مانگ دور ہو جائے تو یہ چکلے خود بخود غائب ہو جائیں گے۔

یاد رکھیے وطن کی خدمت شکم سیر لوگ کبھی نہیں کر سکیں گے۔ وزنی معدے کے ساتھ جو شخص وطن کی خدمت کے لئے آگے بڑھے، اسے لات مار کر باہر نکال دیجئے۔

جس عورت کے دروازے شہر کے ہر اس شخص کے لئے کھلے ہیں جو اپنی جیبوں میں چاندی کے چند سکے رکھتا ہو۔ خواہ وہ موچی ہو یا بھنگی، لنگڑا ہو یا لولا، خوبصورت ہو یا کریہة المنظر، اس کی زندگی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

بھوک کسی قسم کی بھی ہو، بہت خطرناک ہے۔۔۔ آزادی کے بھوکوں کو اگر غلامی کی زنجیریں ہی پیش کی جاتی رہیں تو انقلاب ضرور برپا ہوگا۔۔۔ روٹی کے بھوکے اگر فاقے ہی کھینچتے رہے تو وہ تنگ آ کر دوسرے کا نوالہ ضرور چھینیں گے۔۔۔ مرد کی نظروں کو اگر عورت کے دیدار کا بھوکا رکھا گیا تو شاید وہ اپنے ہم جنسوں اور حیوانوں ہی میں اس کا عکس دیکھنے کی کوشش کریں۔

مجھے نام نہاد کمیونسٹوں سے بڑی چڑ ہے۔ وہ لوگ مجھے بہت کھلتے ہیں جو نرم نرم صوفوں پر بیٹھ کر درانتی اور ہتھوڑے کی ضربوں کی باتیں کرتے ہیں۔

مذہب خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، اگر اس میں لپیٹ کر کسی اور مسئلے کو دیکھا جائے تو ہمیں بہت ہی مغز دردی کرنی پڑے گی۔

ویشیا پیدا نہیں ہوتی، بنائی جاتی ہے۔ یا خود بنتی ہے۔

سیاست اور مذہب کی لاش ہمارے نامور لیڈر اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں اور سیدھے سادے لوگوں کو جو ہر بات مان لینے کے عادی ہوتے ہیں یہ کہتے پھر تے ہیں کہ وہ اس لاش کو از سر نو زندگی بخش رہے ہیں۔

یاد رکھیے غربت لعنت نہیں ہے جو اسے لعنت ظاہر کرتے ہیں وہ خود ملعون ہیں۔ وہ غریب اس امیر سے لاکھ درجے بہتر ہے جو اپنی کشتی خود اپنے ہاتھوں سے کھیتا ہے۔۔۔

مرد کا تصور ہمیشہ عورتوں کو عصمت کے تنے ہوئے رسے پر کھڑا کر دیتا ہے۔

یہ لوگ جو اپنے گھروں کا نظام درست نہیں کر سکتے، یہ لوگ جن کا کیریکٹر بے حد پست ہوتا ہے، سیاست کے میدان میں اپنے وطن کا نظام ٹھیک کرنے اور لوگوں کو اخلاقیات کا سبق دینے کے لئے نکلتے ہیں۔۔۔ کس قدر مضحکہ خیز چیز ہے!

میں افسانہ اس لئے لکھتا ہوں کہ مجھے افسانہ نگاری کی شراب کی طرح لت پڑ گئی ہے۔ میں افسانہ نہ لکھوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں نے کپڑے نہیں پہنے، یا میں نے غسل نہیں کیا، یا میں نے شراب نہیں پی۔

آدمی یا تو آدمی ہے ورنہ آدمی نہیں ہے، گدھا ہے۔ مکان ہے، میز ہے، یا اور کوئی چیز ہے۔

میں تہذیب و تمدن اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔

روٹی کھانے کے متعلق ایک موٹا سا اصول ہے کہ ہر لقمہ اچھی طرح چبا کر کھاؤ۔ لعاب دہن میں اسے خوب حل ہونے دو تاکہ معدے پر زیادہ بوجھ نہ پڑے اور اس کی غذائیت برقرار رہے۔ پڑھنے کے لئے بھی یہی موٹا اصول ہے کہ ہر لفظ کو، ہر سطر کو، ہر خیال کو اچھی طرح ذہن میں چباؤ۔ اس لعاب کو جو پڑھنے سے تمہارے دماغ میں پیدا ہوگا، اچھی طرح حل کرو تاکہ جو کچھ تم نے پڑھا ہے، اچھی طرح ہضم ہو سکے۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کے نتائج برے ہوں گے جس کے لئے تم لکھنے والے کو ذمہ دار نہ ٹھہرا سکو گے۔ وہ روٹی جو اچھی طرح چبا کر نہیں کھائی گئی تمہاری بدہضمی کی ذمہ دار کیسے ہو سکتی ہے!

ویشیاؤں کے عشق میں ایک خاص بات قابل ذکر ہے۔ ان کا عشق ان کے روز مرہ کے معمول پر بہت کم اثر ڈالتا ہے۔

ہندوستان میں سیکڑوں کی تعداد میں اخبارات و رسائل چھپتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ صحافت اس سرزمین میں ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوئی ہے۔

جس طرح جسمانی صحت برقرار رکھنے کے لئے کسرت کی ضرورت ہے، ٹھیک اسی طرح ذہن کی صحت برقرار رکھنے کے لئے ذہنی ورزش کی ضرورت ہے۔

میں تہذیب و تمدن اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔۔۔ میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا، اس لئے کہ یہ میرا کام نہیں درزیوں کا ہے۔ لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں، میں تختہ سیاہ پر کالی چاک سے نہیں لکھتا، سفید چاک استعمال کرتا ہوں کہ تختہ سیاہ کی سیاہی اور بھی زیادہ نمایاں ہو جائے۔ یہ میرا خاص انداز، میرا خاص طرز ہے جسے فحش نگاری، ترقی پسندی اور خدا معلوم کیا کچھ کہا جاتا ہے۔ لعنت ہو سعادت حسن منٹو پر، کم بخت کو گالی بھی سلیقے سے نہیں دی جاتی۔

ویشیا کا وجود خود ایک جنازہ ہے جو سماج خود اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔ وہ اسے جب تک کہیں دفن نہیں کرے گا، اس کے متعلق باتیں ہوتی رہیں گی۔

میں تو بعض اوقات ایسا محسوس کرتا ہوں کہ حکومت اور رعایا کا رشتہ روٹھے ہوئے خاوند اور بیوی کا رشتہ ہے۔

ویشیا اپنی تاریک تجارت کے باوجود روشن روح کی مالک ہو سکتی ہے۔

گداگری قانوناً بند کر دی جاتی ہے مگر وہ اسباب و علل دور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی جو انسان کو اس فعل پر مجبور کرتے ہیں۔ عورتوں کو سر بازار جسم فروشی کے کاروبار سے روکا جاتا ہے مگر اس کے محرکات کے استیصال کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔

ہندی کے حق میں ہندو کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ مسلمان اردو کے تحفظ کے لئے کیوں بے قرار ہیں؟ زبان بنائی نہیں جاتی، خود بنتی ہے اور نہ انسانی کوششیں کسی زبان کو فنا کر سکتی ہیں۔

موجودہ نظام کے تحت جس کی باگ ڈور صرف مردوں کے ہاتھ میں ہے، عورت خواہ وہ عصمت فروش ہو یا باعصمت، ہمیشہ دبی رہی ہے۔ مرد کو اختیار ہوگا کہ وہ اس کے متعلق جو چاہے رائے قائم کرے۔

چکی پیسنے والی عورت جو دن بھر کام کرتی ہے اور رات کو اطمینان سے سو جاتی ہے، میرے افسانوں کی ہیروئن نہیں ہو سکتی۔ میری ہیروئن چکلے کی ایک ٹکھیائی رنڈی ہو سکتی ہے جو رات کو جاگتی ہے اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی ڈراؤنا خواب دیکھ کر اٹھ بیٹھتی ہے کہ بڑھاپا اس کے دروازے پر دستک دینے آ رہا ہے۔۔۔ اس کے بھاری بھاری پپوٹے جن پر برسوں کی اچٹی ہوئی نیندیں منجمد ہو گئی ہیں، میرے افسانوں کا موضوع بن سکتے ہیں۔ اس کی غلاظت، اس کی بیماریاں، اس کا چڑچڑاپن، اس کی گالیاں یہ سب مجھے بھاتی ہیں۔۔۔ میں ان کے متعلق لکھتا ہوں اور گھریلو عورتوں کی شستہ کلامیوں، ان کی صحت اور ان کی نفاست پسندی کو نظر انداز کر جاتا ہوں۔

کوئی افسانہ یا ادب پارہ فحش نہیں ہو سکتا۔ جب تک لکھنے والے کا مقصد ادب نگاری ہے۔ ادب بحیثیت ادب کے کبھی فحش نہیں ہوتا۔

ہمیں اپنے قلم سے روزی کمانا ہے اور ہم اس ذریعے سے روزی کما کر رہیں گے۔ یہ ہر گز نہیں ہو سکتا کہ ہم اور ہمارے بال بچے فاقے مریں اور جن اخباروں اور رسالوں میں ہمارے مضامین چھپتے ہیں، ان کے مالک خوشحال رہیں۔

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے