ایک شیخی باز لڑکے کو ہر بات میں شیخی بگھارنے کی عادت تھی اور گھر کی ایسی ایسی باتیں بھی بڑھا چڑھا کر بتاتا رہتا جو نہیں بتانی چاہئیں۔ ان میں اکثر اپنی امیری اور دولتمندی کے قصے ہوتے۔
ایک دن مدرسے سے آتے ہوئے اس کا کوٹ جو ایک طرف سے ادھڑا ہوا نظر آیا تو لڑکوں نے کہا۔ ’’بس دیکھ لی تمہاری امیری، کوٹ تک پھٹا ہوا ہے۔‘‘
اس نے کہا۔ ’’مجھے آج صبح خیال ہی نہیں آیا، ورنہ کوئی اور کوٹ بدل آتا۔ صرف یہی کوٹ تو نہیں۔ سچ جاننا کہ ہمارے پاس کوٹوں کی ایک پوری الماری اور نوٹوں کا ایک کالا بکس اٹاٹٹ بھرا رکھا ہے۔
دوسرے نے کہا۔ ’’نوٹ ہیں یا نوٹ پیپر، جو اٹاٹٹ بھرے رکھے ہیں۔‘‘
شیخی باز بولا۔ ’’تو گویا تم نے میری بات جھوٹ سمجھی؟ خدا گواہ ہے، کوٹوں کی الماری میں نوٹوں کا ایک سیاہ بکس بھرا رکھا ہے۔‘‘
اتفاق سے یہ باتیں اس وقت کوئی چور بھی سن رہا تھا۔ وہ چپکے سے اس کے پیچھے پیچھے ہو لیا اور لڑکے کا مکان دیکھ آیا۔ جس کے چند دن بعد ان کے ہاں چوری ہو گئی۔ اور وہی نوٹوں کا سیاہ بکس چور اٹھا کر لے گئے۔
ایسے ہی کسی جج صاحب کا لڑکا حکومت جتانے کے لیے روز کہہ دیتا تھا۔ ’’رات ہمارے ہاں ایک شخص آموں کا ٹوکرا لایا تھا اور کل ایک آدمی خربوزوں کا یکہ بھر کر دے گیا تھا۔ اب بھی کہیں سے ایک گھی کا کنستر آگیا ہے۔‘‘
یہ باتیں صحیح تھیں یا غلط۔ مگر تمام لوگ جج کو بددیانت جاننے لگے اور جب چرچا ہو کر حاکموں تک خبر پہنچی تو بےچارے جج صاحب یونہی مفت میں بدل دیے گئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.