جب احمد شاہ ابدالی نے پنجاب پر حملہ کیا تو دربار دہلی کی طرف سے ان دنوں میر منو گورنر مقرر تھا۔ اس بے چارے نے پہلے تو دہلی میں امداد کے لیے بہت سی عرضیاں بھیجیں۔ لیکن جب کوئی بھی جواب نہ آیا تو ناچار اپنی ہی مٹھی بھر فوج سے احمد شاہ کا مقابلہ کیا۔ مگر احمد شاہ نے میر صاحب کو شکست دے کر شالا مار باغ میں آ مقام کیا۔ اب ان کو اطاعت کے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ ناچار خود ملنے گئے احمد شاہ ان کی بہادری اور غیرت دیکھ چکا تھا۔ عزت کے ساتھ بٹھا کر پوچھا۔
احمد شاہ: ’’میر صاحب! آپ نے لڑائی سے پہلے ہی اطاعت کیوں نہ قبول کی؟‘‘
میر منو: صرف اس لیے کہ جو میرا آقا ہے اس کی مرضی کے بغیر میں ایسا نہ کر سکتا تھا۔
احمد شاہ: ’’پھر آپ کے مالک نے آپ کی امداد کیوں نہ فرمائی؟‘‘
میر منو: اس نے خیال کیا ہوگا کہ امداد کے بغیر ہی میں آپ سے بخوبی نبٹ لوں گا۔
احمد شاہ: اچھا اگر آپ فتح پاتے تو میرے ساتھ کیا سلوک کرتے؟
میر منو: ’’میں آپ کو لوہے کی ایک بند گاڑی میں بٹھا کر دہلی بھیج دیتا وہاں بادشاہ سلامت آپ کی بابت جو چاہتے خود حکم دیتے۔‘‘
احمد شاہ: اچھا اب کہ خدا نے مجھے فتح مند کیا ے۔ مجھے آپ سے کیا سلوک کرنا چاہیے؟
میر منو: اگر آپ قصائی ہیں تو قتل کر دیجیے۔ ڈاکو ہیں تو لوٹ لیجیے۔ سوداگر ہیں تو جرمانہ کر دیجیے اور بادشاہ ہیں تو معاف فرما دیجیے۔
میر صاحب کی راست بازی اور حاضر جوابی سے احمد شاہ اتنا خوش ہوا کہ سوا لاکھ کا خلعت دے کر اپنی طرف سے بھی انہیں کو بدستور پنجاب کا گورنر مقرر کر دیا اور کچھ سالانہ خراج پر صلح کر لی۔ واقعی حوصلہ اور صداقت بڑی چیز ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.