محمد صادق نامی ایک لڑکا یوں تو لکھا پڑھا تھا مگر کوئی امتحان پاس نہ کرنے کے سبب سرکاری نوکری حاصل نہ کر سکتا تھا اور گھریلو نوکریاں اسے پسند نہ تھیں۔ آخر سوچ سمجھ کر اس نے جوتوں کی ایک دکان کھول لی۔
دکان کی پونجی تھوڑی تھی مگر پھر بھی اسے تنا مل جاتا تھا جس سے میاں بیوی کا گزارہ چل سکے۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں میں بیوی مر گئی اور یہ غریب اکیلی جان رہ گیا۔ بیوی کو مرے ہوئے چھ مہینے ہوئے تھے کہ بھائی بھی بھاوج سمیت چل بسا اور صرف چھ سات برس کا ایک بھتیجا ان کی نشانی رہ گیا۔ لڑکے کا اور کوئی سہارا نہ تھا۔ چچا نے اپنے پاس رکھ کر پڑھنے کے لیے مدرسے میں داخل کرا دیا۔
تھوڑی مدت میں لڑکا چل نکلا تو اسے زائد وقت میں چچا نے خود پڑھانا لکھانا شروع کر دیا۔
ایک دن صادق کو خیال آیا کہ ’’اگر اسی وقت میں کوئی اور بھی پڑھ لیا کرے تو میرا کیا ہرج ہے۔‘‘
یہ سوچ کر اس نے تمام محلے کے غریب لڑکوں کو بلا لیا اور بغیر فیس کے پڑھانا شروع کر دیا۔ جس سے تھوڑے ہی دنوں میں اس کی دکان ایک اچھا مدرسہ بن گئی۔ ہر سال بہت سے لڑکے پڑھ کر چلے جاتے اور بہت سے نئے غریب بچے ان کی جگہ آ سنبھالتے۔
دو چار سال میں اس کا بھتیجا تو سکول سے پڑھ پڑھا کر کالج میں داخل ہو گیا مگر یہ اسی طرح کام کرتا رہا۔ اس کے پانچ سال بعد لڑکا بی اے ہو کر کسی دفتر میں نوکر ہو گیا اور چچا سے کہا کہ ’’اب آپ آرام کریں۔ میری آمدنی ہے۔‘‘ مگر صادق نے آخری دم تک نہ دکان چھوڑی نہ غریبوں کا پڑھانا موقوف کیا۔
صادق کے مرے ہوئے مدت ہو چکی ہے لیکن اس بابرکت دکان پر اب بھی اکثر پرانے شاگرد آ نکلتے ہیں اور اپنے نیک دل استاد کی یاد میں دکان ہی کو سلام کر جاتے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.