ایک دن اکبر بادشاہ روشنی جھروکے میں بیٹھے مخلوق کی آمدورفت کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ بیربل بھی حاضر تھا۔ بادشاہ نے فرمایا۔ ’’بیربل! کچھ پہچان سکتے ہو۔ ان میں سب سے زیادہ ماں باپ کے لاڈلے کون لوگ ہیں؟‘‘
آنے جانے والوں میں بعض فقیر محتاج بھیک مانگ رہے تھے اور بعض مزدور سر پر بوجھ اٹھائے چلے جا رہے تھے۔ بیر بل نے ان لوگوں کی طرف اشارہ کر کے عرض کی۔ ’’جہاں پناہ! ماں باپ کے بڑے لاڈلے یہ لوگ ہیں۔‘‘
بادشاہ نے فرمایا۔ ’’یہ تم نے الٹی بات کہہ دی۔ لاڈلوں کا مانگنے اور مزدوری کرنے سے کیا تعلق؟‘‘
بیر بل نے چوب دار بھیج کر ان میں سے چند فقیر اور چند مزدور بلوا لیے اور بادشاہ کے سامنے ان کے باپ دادا کا نام پوچھا۔ تو معلوم ہوا۔ کوئی کسی عہدہ دار کا بیٹا ہے، کوئی سوداگر کا، کوئی جاگیر دار کا، اور کوئی ساہوکار کا۔
ماں باپ نے لاڈ پیار میں تعلیم و تربیت پر توجہ نہ کی۔ انہوں نے بری صحبتوں میں بیٹھ کر مکان، زمین، گھر کا زیور اور کپڑے تک بیچ کھائے۔ اثاثہ ختم ہو چکا اور قرض بھی نہ ملا تو جو زیادہ لاڈلے تھے بھیک مانگنے لگے۔ جو ذرا بھی غیرت رکھتے تھے وہ محنت مزدوری کرنے لگے۔ مگر عادت نہ ہونے سے اس میں بھی ٹھوکر پر ٹھوکر کھا رہے ہیں۔‘‘
بادشاہ کو ان کی طرف سے تسلی ہوئی تو کہا۔ ’’اب کچھ ایسے لوگ بھی دکھاؤ جن سے ماں باپ نے کوئی لاڈ نہ کیا۔‘‘
بیر بل نے عرض کی۔ جہاں پناہ! ان میں سے سب سے پہلے حضور۔ پھر یہ خانہ زاد۔ حضور کے والد بادشاہ تھے مگر انہوں نے حضور کی تعلیم و تربیت پر ایسی توجہ فرمائی، کہ گویا جہاں پناہ کو اپنی محنت سے روٹی کمانا ہے۔ اور میں اگرچہ غریب کا بیٹا ہوں۔ مگر میرے باپ نے بھی علم و عقل سکھانے میں کبھی بے موقع محبت سے کام نہ لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حضور نے جس قدر ملک ورثے میں پایا تھا، آج خدا کے فضل و کرم سے اس سے چو گنا آپ کے زیر حکم ہے۔ حالانکہ اگر حضور لاڈلے ہوتے تو اس میں بھی کمی آ جاتی اور فدوی کو حضوری کی عزت ملی تو حضور کی توجہ نے مصاحبوں میں شامل کر لیا۔ پس اسی لیے داناؤں کا قول ہے کہ ’’اولاد کو کھلائے سونے کا نوالہ اور دیکھے شیر کی نظر۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.