پانی یوں تو سب جگہ بڑی چیز ہے مگر ریتلے گرم اور خشک علاقوں میں تو خدا کی بڑی ہی نعمت سمجھا جاتا ہے کہ وہاں نہ دریا ہیں نہ کنوئیں نہ نہریں۔ بس جہاں کہیں تالابوں، جوہڑوں میں مینہ کا پانی جمع ہو جاتا ہے۔ سب اسی کو دور دور بھر کر لے جاتے ہیں۔
کہتے ہیں ایک رتیلے علاقے کے رہنے والے کو اپنے بادشاہ کی سخاوت کے قصے سن کر خیال آیا کہ میں بھی کوئی چیز بادشاہ تک لے جاؤں تو امید ہے کہ اس کی سخاوت سے خاصی دولت لے آؤں گا۔
آخر اس نے سوچا کہ پانی ہی سب سے اچھی چیز ہے۔ اسی کا ایک گھڑا بادشاہ کے حضور تحفے کے طور پر لے جانا چاہیے۔ چنانچہ اس نے پانی کا گھڑا بھر کر اٹھا لیا اور بہت دن سفر کر کے اس شہر میں جا پہنچا، جہاں بادشاہ رہتا تھا۔
یہ شہر دریا کے کنارے آباد تھا اور اتفاق سے جس وقت گنوار گھڑا لے کر وہاں پہنچا بادشاہ دریا کی سیر کے لیے ایک کشتی میں بیٹھنے کو تیار تھا۔
گنوار بھی جلدی سے کشتی تک جا پہنچا۔ لیکن دریا کو موجیں مارتے اور ہزاروں آدمیوں کو اس میں تیرتے دیکھ کر نہایت شرمندہ ہوا کہ میں ایسے بادشاہ کے لیے ایسی بے حقیقت چیز کیوں لے آیا۔
بادشاہ نے اجنبی گنوار کو کشتی تک آتے اور پھر حیران ہو کر کھڑا رہ جاتے دیکھ لیا تھا۔ اس لیے مہربانی سے پاس بلا کر پوچھا۔ ’’تم کسے ڈھونڈتے اور کیا چاہتے ہو۔‘‘
گنوار نے عرض کی۔ بادشاہ سلامت! میں حضور کے لیے یہ پانی کا گھڑا مہینہ بھر کی راہ سے اٹھا کر لایا ہوں۔ مگر یہاں آکر دیکھا تو یہ کچھ چیز ہی نہیں۔‘‘
یہ سن کر بادشاہ نے خزانچی کو حکم دیا کہ پانی دریا میں پھینکوا کر اس کا گھڑا روپیوں سے بھر دو کہ قدردان انسان مالیت کو نہیں بلکہ نیت کو دیکھتے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.