ایک شہزادہ شکار کھیل رہا تھا شکار کھیل رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک بوڑھا نیا باغ لگا رہا ہے۔ شہزادے نے اس سے پوچھا۔ ’’بڑے میاں! تم تو قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہو۔ پھر باغ لگانے کی زحمت کیوں اٹھاتے ہو۔‘‘ بوڑھے نے جواب دیا۔ ’’جناب عالی! اول تو موت کا کوئی وقت نہیں۔ آئے تو ابھی آجائے اور نہ آئے تو دس بیس برس بھی نہ آئے۔ باغ میرے سامنے پھل لے آیا تو میں بھی اس کی بہار دیکھ لوں گا اور اگر میں پہلے مر گیا تو جس طرح دوسروں کے لگائے ہوئے درختوں کے پھل ہم کھا رہے ہیں اور ہمارے لگائے ہوئے درختوں کے دوسرے کھالیں گے۔‘‘ شہزادے نے کہا۔ اتنی لمبی امید عقل کے خلاف ہے۔ خیر اگر تمہارے جیتے جی یہ پیڑ پھل دے گئے تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس باغ کا مالیہ معاف کرا دوں گا۔‘‘
چند سال گزرے کہ بادشاہ فوت ہو گیا۔ اور وہی شہزادہ تخت نشین ہوا تو اس نے ملک کا دورہ شروع کیا۔ اتفاق سے اسی باغ کی طرف آ نکلا۔ بوڑھے نے سلام اور دعا کے بعد اس سے عرض کی۔ ’’حضور! جب میں باغ لگا رہا تھا، ایک بہت بڑے شہزادے نے میری ضعیفی دیکھ کر وعدہ فرمایا تھا کہ اگر تمہاری عمر میں یہ باغ پھل دے گیا تو ہم مالیہ معاف کرا دیں گے۔ اب باغ دو سال سے پھل دے رہا ہے۔ حضور بادشاہ ہیں۔ اگر سب شہزادوں کو یہ پیغام پہنچا دیں تو ممکن ہے، میرا کام ہو جائے۔‘‘
یہ بات سن کر بادشاہ کو سارا واقعہ یاد آگیا اور اسی وقت معافی کا فرمان عطا فرما کر کہا۔ باہمت بوڑھے! خوش ہو۔ میں ہی وہ شخص ہوں، جس نے تم سے یہ وعدہ کیا تھا اور اب تمہاری ہمت کا پھل دینے کو خود موجود ہو گیا ہوں۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.