Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Aftab Hussain's Photo'

آفتاب حسین

1962 | آسٹریا

ممتاز پاکستانی شاعر، آسٹریا میں مقیم، سنجیدہ شعری حلقوں میں مقبول

ممتاز پاکستانی شاعر، آسٹریا میں مقیم، سنجیدہ شعری حلقوں میں مقبول

آفتاب حسین کے اشعار

5.8K
Favorite

باعتبار

کھلا رہے گا کسی یاد کے جزیرے پر

یہ باغ میں جسے ویران کرنے والا ہوں

یہ دل کی راہ چمکتی تھی آئنے کی طرح

گزر گیا وہ اسے بھی غبار کرتے ہوئے

کچھ ربط خاص اصل کا ظاہر کے ساتھ ہے

خوشبو اڑے تو اڑتا ہے پھولوں کا رنگ بھی

وقت کی وحشی ہوا کیا کیا اڑا کر لے گئی

یہ بھی کیا کم ہے کہ کچھ اس کی کمی موجود ہے

کب بھٹک جائے آفتابؔ حسین

آدمی کا کوئی بھروسہ نہیں

عذاب برق و باراں تھا اندھیری رات تھی

رواں تھیں کشتیاں کس شان سے اس جھیل میں

اپنے ہی دم سے چراغاں ہے وگرنہ آفتابؔ

اک ستارہ بھی مری ویران شاموں میں نہیں

ترے افق پہ سدا صبح جگمگاتی رہے

جہاں پہ میں ہوں وہاں شام ہونے والی ہے

حسن والوں میں کوئی ایسا ہو

جو مجھے مجھ سے چرا کر لے جائے

جو کچھ نگاہ میں ہے حقیقت میں وہ نہیں

جو تیرے سامنے ہے تماشا کچھ اور ہے

کسی طرح بھی تو وہ راہ پر نہیں آیا

ہمارے کام ہمارا ہنر نہیں آیا

سو اپنے ہاتھ سے دیں بھی گیا ہے دنیا بھی

کہ اک سرے کو پکڑتے تو دوسرا جاتا

وہ سر سے پانو تک ہے غضب سے بھرا ہوا

میں بھی ہوں آج جوش طلب سے بھرا ہوا

بدل رہے ہیں زمانے کے رنگ کیا کیا دیکھ

نظر اٹھا کہ یہ دنیا ہے دیکھنے کے لیے

گئے منظروں سے یہ کیا اڑا ہے نگاہ میں

کوئی عکس ہے کہ غبار سا ہے نگاہ میں

کیا خبر میرے ہی سینے میں پڑی سوتی ہو

بھاگتا پھرتا ہوں جس روگ بھری رات سے میں

دلوں کے باب میں کیا دخل آفتاب حسینؔ

سو بات پھیل گئی مختصر بناتے ہوئے

وہ شور ہوتا ہے خوابوں میں آفتابؔ حسینؔ

کہ خود کو نیند سے بیدار کرنے لگتا ہوں

دنیا سے علیحدگی کا راستہ

دنیا سے نباہ کر کے دیکھا

کسی طرح تو گھٹے دل کی بے قراری بھی

چلو وہ چشم نہیں کم سے کم شراب تو ہو

کرتا کچھ اور ہے وہ دکھاتا کچھ اور ہے

دراصل سلسلہ پس پردہ کچھ اور ہے

حال ہمارا پوچھنے والے

کیا بتلائیں سب اچھا ہے

ترے بدن کے گلستاں کی یاد آتی ہے

خود اپنی ذات کے صحرا کو پار کرتے ہوئے

لوگ کس کس طرح سے زندہ ہیں

ہمیں مرنے کا بھی سلیقہ نہیں

وہ یوں ملا تھا کہ جیسے کبھی نہ بچھڑے گا

وہ یوں گیا کہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا

ابھی دلوں کی طنابوں میں سختیاں ہیں بہت

ابھی ہماری دعا میں اثر نہیں آیا

یہ سوچ کر بھی تو اس سے نباہ ہو نہ سکا

کسی سے ہو بھی سکا ہے مرا گزارہ کہیں

کن منظروں میں مجھ کو مہکنا تھا آفتابؔ

کس ریگزار پر ہوں میں آ کر کھلا ہوا

فراق موسم کی چلمنوں سے وصال لمحے چمک اٹھیں گے

اداس شاموں میں کاغذ دل پہ گزرے وقتوں کے باب لکھنا

اساس جسم اٹھاؤں نئے سرے سے مگر

یہ سوچتا ہوں کہ مٹی مری خراب تو ہو

ایک منظر ہے کہ آنکھوں سے سرکتا ہی نہیں

ایک ساعت ہے کہ ساری عمر پر طاری ہوئی

چلو کہیں پہ تعلق کی کوئی شکل تو ہو

کسی کے دل میں کسی کی کمی غنیمت ہے

ذرا جو فرصت نظارگی میسر ہو

تو ایک پل میں بھی کیا کیا ہے دیکھنے کے لیے

دل مضطر وفا کے باب میں یہ جلد بازی کیا

ذرا رک جائیں اور دیکھیں نتیجہ کیا نکلتا ہے

ملتا ہے آدمی ہی مجھے ہر مقام پر

اور میں ہوں آدمی کی طلب سے بھرا ہوا

ابھی ہے حسن میں حسن نظر کی کار فرمائی

ابھی سے کیا بتائیں ہم کہ وہ کیسا نکلتا ہے

گئے زمانوں کی درد کجلائی بھولی بسری کتاب پڑھ کر

جو ہو سکے تم سے آنے والے دنوں کے رنگین خواب لکھنا

ہر ایک گام الجھتا ہوں اپنے آپ سے میں

وہ تیر ہوں جو خود اپنی کماں کی زد میں ہے

کچھ اور طرح کی مشکل میں ڈالنے کے لیے

میں اپنی زندگی آسان کرنے والا ہوں

پتے کی بات بھی منہ سے نکل ہی جاتی ہے

کبھی کبھی کوئی جھوٹی خبر بناتے ہوئے

کب تک ساتھ نبھاتا آخر

وہ بھی دنیا میں رہتا ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے