تمام
تعارف
غزل68
نظم43
افسانہ16
ای-کتاب344
شعر45
تصویری شاعری 8
آڈیو 40
ویڈیو 27
قطعہ46
گیلری 1
خاکہ1
بلاگ1
احمد ندیم قاسمی کے افسانے
عالاں
عالاں گاؤں کے مرحوم موچی کی ایک الھڑ اور خوبصورت بیٹی ہے، جس کا باپ اسے بغیر جوتے گانٹھنا سکھائے مر گیا۔ اسلیے اپنا گزارہ کرنے کے لیے اسے گاؤں کے گھروں میں کام کرنا پڑتا ہے۔ عارف میاں اپنے باپ کی برسی پر گاؤں آیا ہوا ہے۔ حویلی میں اس کی ملاقات عالاں سے ہوتی ہے۔ گاوں کے نوجوان لڑکوں نے مشہور کر رکھا ہے کہ عالاں کوئی کام نہیں جانتی جبکہ وہ گھر کے اندر باہر کے سارے کام کرتی ہے۔ واپس جانے سے پہلے جب عارف اس سے ملنے آتا ہے تو وہ اس کے سامنے اقرار کرتی ہے کہ عالاں پیار کرنا بھی جانتی ہے۔
سفید گھوڑا
یہ الیاس کا فون تھا۔ میں نے کہا، ’’میں ابھی آیا۔ وہیں اپنے پرانے ہوٹل میں ٹھہرے ہونا؟‘‘ الیاس کی آواز آئی، ’’ٹھہرا بھی وہیں ہوں اور وہیں سے بول بھی رہا ہوں۔ مگر تم ابھی نہ آؤ۔ اس وقت میں ایک دفتر جارہا ہوں۔ بہت ضروری کام ہے۔ لاکھوں کا معاملہ
پرمیشر سنگھ
ملک کے تقسیم کے وقت اپنے گھر والوں کے ساتھ پاکستان جاتے ہوئے پانچ سال کا اختر اپنے گھر والوں سے بچھڑ جاتا ہےاور ہندوستان میں ہی رہ جاتا ہے۔ سرحد پر وہ بچہ سکھوں کے ایک گروہ کو ملتا ہے۔ ان میں سے ایک پرمیشر سنگھ اسے اپنا بیٹا کرتار سنگھ بنا کر گھر لاتا ہے۔ کرتار سنگھ بھی فسادات کے دوران کہیں کھو گیا ہے۔ اختر کے ساتھ پرمیشر سنگھ کی بیٹی اور بیوی کا رویہ اچھا نہیں ہے۔ اختر اپنی امی کے پاس جانے کی رٹ لگائے رکھتا ہے۔ ایک روز بچھڑے لوگوں کو واپس لے جانے کے لیے فوج کی گاڑی گاؤں میں آتی ہے تو پرمیشر سنگھ اختر کو چھپا دیتا ہے۔ اختر کے ضد کی وجہ سے پرمیشر سنگھ اسے بارڈر پر لاکر چھوڑ دیتا ہے کہ وہ اپنے ملک اپنی ماں کے پاس پہنچ جائے۔ فوج کی نگاہ پرمیشر سنگھ پر پڑتے ہی اس پر گولی چلا دیتے ہیں، یہ منظر دیکھ کر اختر واپس پرمیشر سنگھ کے پاس دوڑا چلا آ تا ہے۔
مامتا
غیر ملک کی سر زمین پر اپنی ماں کی یاد میں تڑپتے ایک شخص کی کہانی ہے۔ انگریزی فوج میں بھرتی ہو کر وہ ہانگ کانگ آگیا تھا۔ یہاں آنے سے قبل اس نے یہاں کی امیری کے قصے بہت سن رکھے تھے مگر جب بدحال چینیوں کی شکلیں دیکھی تو اس کے سارے خواب ہوا ہو گیے۔ وہ ہانگ کانگ کی حالت دیکھتا اور اپنی ماں کو یاد کرتا ہے۔ انگریزوں کی شکست کے بعد جاپانی آ گیے اور وہ جاپانی فوج میں شامل ہو گیا۔ فوج نے چین کے ایک گاؤں پر حملہ کیا تو اسے وہاں اپنے بیٹے کے انتظار میں تڑپتی ایک ماں ملی۔
گنڈاسا
محبت انسان کی شخصیت کو بدل دیتی ہے۔ مولا ایک گبرو جوان ہے۔ رنگا اور اس کے بیٹے مل کر مولا کے باپ کا قتل کر دیتے ہیں۔ اس کے بدلے میں مولا رنگا اور اس کے بیٹے کو قتل کر دیتا ہے۔ مولا کی دہشت سارے گاؤں میں پھیل جاتی ہے۔ ایک روز اس کا سامنا راجو سے ہوتا ہے جو رنگا کے چھوٹے بیٹے کی منگیتر ہے۔ ایک دن مولا بس اڈے پر ایک دوکان پر بیٹھا ہوتا ہے۔ راجو کا منگیتر اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ بس سے اترتا ہے اور مولا کو ایک زوردار طمانچہ مارتا ہے۔ مالا اسے پکڑ لیتا ہے لیکن اس کا قتل نہیں کرتا۔ وار کرنے کے لیے تیار اس کا گنڈاسا جہاں کا تہاں رک جاتا ہے۔
وحشی
اپنی خودداری کے لیے لڑتی ایک بوڑھی عورت کی کہانی جس کے پاس بس کے کرایہ دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ بس میں کسی طرح چڑھ کر ایک سیٹ پر بیٹھ گئی۔ کنڈکٹر نے ٹکٹ کے لیے پیسے مانگے تو اس نے پیسے بڑھا دیے جو مطلوبہ کرائے سے کم تھے۔ کنڈکٹر کے ساتھ کم کرائے کو لے کر اس کی بحث ہو گئی کہ اس کے پاس اور پیسے نہیں تھے۔ کسی دوسرے مسافر نے اس کا کرایہ دینا چاہا تو اس نے منع کردیا اور کنڈکٹر سے کہا کہ میری پیسوں میں جہاں تک منسفر کر سکتی ہوں وہاں تک کا ٹکٹ دےدے اور اس جگہ اسے اتار دیا جائے۔
الحمد للہ
مفلسی میں زندگی گزارتے گاؤں کے ایک مولانا کی کہانی۔ مولانا کی جب نئی نئی شادی ہوئی تھی تو پورے گاؤں سے اتنا نذرانہ آجاتا تھا کہ میاں بیوی کا اچھی طرح سے گزارہ ہو جاتا تھا۔۔ جیسی جیسے گھر میں بچوں کی تعداد بڑھتی گئی دو وقت کی روٹی میسر ہونا بھی محال ہوتا گیا۔ زندگی کی ان پریشانیوں میں ایک شخص ایسا تھا جس نے مولانا کا پورا ساتھ دیا۔ مگر اصل مصیبت تو تب آئی جب اس شخص کی موت ہو گئی اور مولانا تنہا رہ گئے۔
موچی
چمڑے کے دو ٹکڑے مونج کی موٹی سی رسی سے سلے ہوئے تھے۔ نادر نے مونج کی سیون کو بھگوکر چھرے سے کاٹتے ہوئے کہا، ’’تم کہتے ہو یہ چمڑا کسی بڈھے بھینسے کا ہے اور پہلے ہی قدم پر باجرے کی روٹی کی طرح ادھ بیچ سے دو ہوجائے گا۔ پر پیارے۔۔۔ چمڑے
بابا نور
’تاریخ جنگیں یاد رکھتی ہے، ان میں شہید ہونے والے فوجی۔ وہ فاتحین کے گیت گاتی ہے اور لاشوں کے ڈھیر کو بھلا دیتی ہے۔‘ لاشوں کے انھیں ڈھیر میں سے ایک ہے بابا نور کا بیٹا۔ بابا نور بلا ناغہ ڈاکخانے اپنے بیٹے کی چٹھی کے بارے میں دریافت کرنے جاتے ہیں۔ اس پر چھوٹے بچے ہمیشہ ان کا مزاق اڑاتے ہیں اور بڑے ان کا احترام کرتے ہیں۔ بابا نور ڈاکخانے جاتے ہیں اور وہاں منشی سے پوچھتے ہیں کہ کیا ان کے بیٹے کی کوئی ڈاک آئی ہے؟ منشی ہر بار کی طرح کہتا ہے کہ نہیں۔ اس کے جانے کے بعد بیٹھے لوگوں سے منشی کہتا ہے۔۔۔ میں نے وہ چٹھی پڑھ کر سنائی تھی جس میں خبر تھی کہ بابا کا بیٹا برما میں بم کے گولے کا شکار ہو چکا ہے، جب سے وہ پاگل سا ہو گیا ہے۔ اگر آج کے بعد وہ پھر میرے پاس پوچھنے آیا تو مجھے بھی پاگل کر جائیگا۔
بین
ایک پیر کے عشق میں دیوانی ہو کر اپنی عصمت و آبرو گنوا دینے والی لڑکی کی کہانی۔ پیدایش کے وقت سے ہی بےحد خوبصورت ہونے کی وجہ سے اپنے ماں باپ کی بےحد چہیتی تھی۔ وہ جب دوشیزگی کو پہنچی تو اس نے قرآن اور دینی تعلیمات میں حد درجہ دلچسپی لینی شروع کر دی۔ اسے علاقے میں ایک پیر صاحب کا آستانہ تھا جہاں ہر سال عرس لگا کرتا تھا۔ وہ بھی اپنے والدین کے ساتھ عرس میں گئی اور پھر اس کے ساتھ وہاں جو کچھ بھی ہوا، عبرتناک ہے۔
کپاس کا پھول
ادھوری رہ گئی محبت میں ساری زندگی تنہا گزار دینے والی ایک بوڑھی عورت کی کہانی۔ اس کے پاس جینے کا کوئی جواز باقی نہیں ہے وہ ہر وقت موت کو پکارتی رہتی ہے۔ تبھی اس کی زندگی میں ایک نوجوان لڑکی آتی ہے جو کپاس کے پھول کی طرح نرم و نازک ہے۔ وہ اس کا خیال رکھتی ہے اور یقین دلاتی ہے کہ اس برے وقت میں بھی اس کی قدر کرنے والا کوئی ہے۔ انھیں دنوں بھارتی فوج گاؤں پر حملہ کر دیتی ہے اور مائی تاجو کا وہ پھول کسی کیڑے کی طرح مسل دیا جاتا ہے۔
مخبر
محکمہ آبکاری کے ایک کامیاب مخبر کی ناکامی کی کہانی۔ اس کی تقرری جب محکمہ آبکاری میں ہوئی تھی تو ٹھیکیدار نے اسے اپنے قریبی دو مخبروں سے ملوایا تھا، ایک کی اس نے بہت تعریف کی تھی۔ اس کے پچھلے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے وہ کامیاب بھی تھا۔ پتہ نہیں اس دن کے بعد کیا ہوا کہ وہ ایک بھی نیا کیس نہیں لا سکا۔ اس کو کھانے کے لیے بھیک مانگنی پڑی اور جب بھیک ملنا بھی بند ہو گیا تو اس نے اپنے ہی بھائی کی مخبری کر دی۔
گل رخے
اپنی جوان اور خوبصورت بیٹی کی بیماری سے تڑپتے ایک پٹھان کی کہانی، جو اسے صرف اسلیے بچانا چاہتا ہے کہ وہ جوان ہے۔ جب وہ ڈاکٹر کے پاس اس کے علاج کے لیے گیا تو کلینک میں مریضوں کی بھیڑ تھی۔ وہ زبردستی بیٹی کو اپنے ساتھ ڈاکٹر کے پاس لے گیا اور اس سے منتیں کرنے لگا کہ وہ اس کی بیٹی کو بچا لے کہ اس کی بیٹی جوان ہے۔ علاج سے کچھ دنوں بعد بیٹی ٹھیک ہو گئی تو ڈاکٹر نے اس سے پوچھا کہ وہ بار بار اپنی بیٹی کے جوان ہونے کا ذکر کیوں کرتا ہے۔ اس پر پٹھان نے جو جواب دیا وہ سن کر ڈاکٹر حیران رہ گیا۔
الجھن
اپنی شادی کے لوازمات پر خود سے تبصرہ کرتی ایک لڑکی کی کہانی۔ شادی انسان کی زندگی کا سب سے اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ اس عمل سے متعلق نوجوان اور ان میں بھی خاص طور سے لڑکیاں ڈھیروں خواب سجائے رہتی ہیں۔ مگر جب شادی ہوتی ہے تب انھیں احساس ہوتا ہے کہ خواب حقیقت سے کتنی دور ہوتے ہیں۔ شادی کی چہل پہل، رشتہ داروں کے ہنسی مذاق اور جیون ساتھی سے ہونے والی ملاقاتیں، سب ملا کر انسان کو الجھن میں ڈال دیتے ہیں۔
کفن دفن
میاں سیف الحق ایک اچھی بھلی زندگی جی رہے تھے کہ اچانک ایک روز مسجد جاتے وقت راستے میں انھیں لاش کے ساتھ ایک آدمی ملتا ہے جس کا نام غفور ہے۔ غفور کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ اپنی بیوی کا کفن دفن کر سکے۔ میاں صاحب یہ سوچ کر اس کے کفن دفن کی ساری ذمہ داری اٹھاتے ہیں کہ جیسے وہ اپنے بیٹے حامد کا کفن دفن کر رہے ہیں۔ حامد کئی سال قبل گمنامی کی موت مرگیے تھے۔ اپنی بیوی کے کفن دفن کے بعد غفور چلا جاتا ہے اور پھر ایک عرصے بعد واپس آتا ہے اور میاں صاحب کو کچھ روپے دے کر کہتا ہے کہ مجھے ہمیشہ لگتا ہے کہ میری بیوی کا کفن دفن نہیں ہوا ہے، آپ نے اسے حامد سمجھ کر دفنایا تھا، میری بیوی تو ایسی ہی رہ گئی۔ منع کرنے کے باوجود وہ میاں صاحب سے کہتا ہے کہ میں نے تو آج ہی اپنی کلی کو قبر میں اتارا ہے میاں جی۔
ماسی گل بانو
محبت چھن جانے کے غم میں نڈھال ایک لڑکی کی کہانی۔ اس دن وہ مایو میں بیٹھی اپنے دولھے کے ساتھ ہونے والی پہلی ملاقات کے خواب دیکھ رہی تھی جب بارات کی جگہ خبر آئی کہ دولہا ایک لڑائی میں مارا گیا۔ اپنے ہونے والے شوہر کی موت کی خبر سن کر پہلے گل بانو گم صم بیٹھی رہی اور پھر اتنا روئی کہ پاگل ہی ہو گئی۔ گاؤں میں اس کے بارے میں عجیب و غریب باتیں اور قصے مشہور ہو گیے، جس کی وجہ سے وہ ایک جیتے جاگتے انسان سے کسی آسمانی مخلوق میں تبدیل ہو گئی۔