Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Sarfaraz Khalid's Photo'

سرفراز خالد

1980 | علی گڑہ, انڈیا

نئی نسل کے اہم شاعر

نئی نسل کے اہم شاعر

سرفراز خالد کے اشعار

2.2K
Favorite

باعتبار

سنتے ہیں بیاباں بھی کبھی شہر رہا تھا

سو شہر بھی اک روز بیابان رہے گا

سیاہ رات کے پہلو میں جسم کے اندر

کسی گناہ کی خواہش کو پالتے رہنا

دل جو ٹوٹا ہے تو پھر یاد نہیں ہے کوئی

اس خرابے میں اب آباد نہیں ہے کوئی

رونق بزم نہیں تھا کوئی تجھ سے پہلے

رونق بزم ترے بعد نہیں ہے کوئی

میں اپنے آپ سے آگے نکل گیا ہوں بہت

کسی سفر کے حوالے یہ جسم و جاں کر کے

ہم کسی اور وقت کے ہیں اسیر

صبح کے شام کے رہے ہی نہیں

میں تو اب شہر میں ہوں اور کوئی رات گئے

چیختا رہتا ہے صحرائے بدن کے اندر

پیروں سے باندھ لیتا ہوں پچھلی مسافتیں

تنہا کسی سفر پہ نکلتا نہیں ہوں میں

ہوش جاتا رہا دنیا کی خبر ہی نہ رہی

جب کہ ہم بھول گئے خود کو وہ تب یاد آیا

کسی نے جاں ہی لٹا دی وفاؤں کی خاطر

تم ہی بتاؤ کہ قصہ یہ کس کتاب کا ہے

ایک دن اس کی نگاہوں سے بھی گر جائیں گے

اس کے بخشے ہوئے لمحوں پہ بسر کرتے ہوئے

عجیب فرصت آوارگی ملی ہے مجھے

بچھڑ کے تجھ سے زمانے کا ڈر نہیں ہے کوئی

زیست کی یکسانیت سے تنگ آ جاتے ہیں سب

ایک دن تو بھی مری باتوں سے اکتا جائے گا

نہ رات باقی ہے کوئی نہ خواب باقی ہے

مگر ابھی مرے غم کا حساب کا باقی ہے

لمبی ہے بہت آج کی شب جاگنے والو

اور یاد مجھے کوئی کہانی بھی نہیں ہے

ستم کئے ہیں تو کیا تجھ سے ہے حیات مری

قریب آ مری آنکھوں کے خواب، زندہ ہوں

ابتدا اس نے ہی کی تھی مری رسوائی کی

وہ خدا ہے تو گنہ گار نہیں ہوں میں بھی

تم تھے تو ہر اک درد تمہیں سے تھا عبارت

اب زندگی خانوں میں بسر ہونے لگی ہے

تو دیکھیں اور کسی کو جو وہ نہیں موجود

تو جائیں اور کہیں اس نے جب پکارا نہیں

یہ کائنات بھی کیا قید خانہ ہے کوئی

یہ زندگی بھی کوئی طرز انتقام ہے کیا

تمام عمر بقید سفر رہا ہوں میں

طواف پھر کسی کعبہ کا کر رہا ہوں میں

موسم کوئی بھی ہو پہ بدلتا نہیں ہوں میں

یعنی کسی بھی سانچے میں ڈھلتا نہیں ہوں میں

اب مجھ میں کوئی بات نئی ڈھونڈھنے والو

اب مجھ میں کوئی بات پرانی بھی نہیں ہے

اپنے ہی سائے سے ہر گام لرز جاتا ہوں

مجھ سے طے ہی نہیں ہوتی ہے مسافت میری

اسی کے خواب تھے سارے اسی کو سونپ دیئے

سو وہ بھی جیت گیا اور میں بھی ہارا نہیں

اب جسم کے اندر سے آواز نہیں آتی

اب جسم کے اندر وہ رہتا ہی نہیں ہوگا

دیر تک جاگتے رہنے کا سبب یاد آیا

تم سے بچھڑے تھے کسی موڑ پہ اب یاد آیا

تری دعائیں بھی شامل ہیں کوششوں میں مری

مصیبتوں کا نہ ٹلنا عجیب لگتا ہے

اسی سے پوچھو اسے نیند کیوں نہیں آتی

یہ اس کا کام نہیں ہے تو میرا کام ہے کیا

وہ چہرہ مجھے صاف دکھائی نہیں دیتا

رہ جاتی ہیں سایوں میں الجھ کر مری آنکھیں

اک تو نے ہی نہیں کی جنوں کی دکان بند

سودا کوئی ہمارے بھی سر میں نہیں رہا

نہ چاند کا نہ ستاروں نہ آفتاب کا ہے

سوال اب کے مری جاں ترے جواب کا ہے

شریک وہ بھی رہا کاوش محبت میں

شروع اس نے کیا تھا تمام میں نے کیا

آنکھوں نے بنائی تھی کوئی خواب کی تصویر

تم بھول گئے ہو تو کسے دھیان رہے گا

خواب میلے ہو گئے تھے ان کو دھونا چاہئے تھا

رات کی تنہائیوں میں خوب رونا چاہئے تھا

اس سے کہہ دو کہ مجھے اس سے نہیں ملنا ہے

وہ ہے مصروف تو بے کار نہیں ہوں میں بھی

میں جس کو سوچتا رہتا ہوں کیا ہے وہ آخر

مرے لبوں پہ جو رہتا ہے اس کا نام ہے کیا

وہ بھی نہ آیا عمر گزشتہ کے مثل ہی

ہم بھی کھڑے رہے در و دیوار کی طرح

آئنے میں کہیں گم ہو گئی صورت میری

مجھ سے ملتی ہی نہیں شکل و شباہت میری

بادہ و جام کے رہے ہی نہیں

ہم کسی کام کے رہے ہی نہیں

جو تم کہتے ہو مجھ سے پہلے تم آئے تھے محفل میں

تو پھر تم ہی بتاؤ آج کیا کیا ہونے والا ہے

بات تو یہ ہے کہ وہ گھر سے نکلتا بھی نہیں

اور مجھ کو سر بازار لئے پھرتا ہے

مرے مرنے کا غم تو بے سبب ہوگا کہ اب کے بار

مرے اندر تو کوئی اور پیدا ہونے والا ہے

ہمارے کاندھے پہ اس بار صرف آنکھیں ہیں

ہمارے کاندھے پہ اس بار سر نہیں ہے کوئی

ملتے ہو تو اب تم بھی بہت رہتے ہو خاموش

کیا تم کو بھی اب میری خبر ہونے لگی ہے

وہ مضطرب تھا بہت مجھ کو درمیاں کر کے

سو پا لیا ہے اسے خود کو رائیگاں کر کے

پانیوں میں کھیل کچھ ایسا بھی ہونا چاہئے تھا

بیچ دریا میں کوئی کشتی ڈبونا چاہئے تھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے