شاہد ذکی
غزل 18
اشعار 11
پھلوں کے ساتھ کہیں گھونسلے نہ گر جائیں
خیال رکھتا ہوں پتھر اچھالتا ہوا میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
روشنی بانٹتا ہوں سرحدوں کے پار بھی میں
ہم وطن اس لیے غدار سمجھتے ہیں مجھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
میں بدلتے ہوئے حالات میں ڈھل جاتا ہوں
دیکھنے والے اداکار سمجھتے ہیں مجھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
میں سر بہ سجدہ سکوں میں نہیں سفر میں ہوں
جبیں پہ داغ نہیں آبلہ بنا ہوا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
یار بھی راہ کی دیوار سمجھتے ہیں مجھے
میں سمجھتا تھا مرے یار سمجھتے ہیں مجھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تصویری شاعری 3
اب تری یاد سے وحشت نہیں ہوتی مجھ کو زخم کھلتے ہیں اذیت نہیں ہوتی مجھ کو اب کوئی آئے چلا جائے میں خوش رہتا ہوں اب کسی شخص کی عادت نہیں ہوتی مجھ کو ایسا بدلا ہوں ترے شہر کا پانی پی کر جھوٹ بولوں تو ندامت نہیں ہوتی مجھ کو ہے امانت میں خیانت سو کسی کی خاطر کوئی مرتا ہے تو حیرت نہیں ہوتی مجھ کو تو جو بدلے تری تصویر بدل جاتی ہے رنگ بھرنے میں سہولت نہیں ہوتی مجھ کو اکثر اوقات میں تعبیر بتا دیتا ہوں بعض اوقات اجازت نہیں ہوتی مجھ کو اتنا مصروف ہوں جینے کی ہوس میں شاہدؔ سانس لینے کی بھی فرصت نہیں ہوتی مجھ کو