شکیل اعظمی کے اشعار
بس اک پکار پہ دروازہ کھول دیتے ہیں
ذرا سا صبر بھی ان آنسوؤں سے ہوتا نہیں
کچھ دنوں کے لیے منظر سے اگر ہٹ جاؤ
زندگی بھر کی شناسائی چلی جاتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مجھ کو بکھرایا گیا اور سمیٹا بھی گیا
جانے اب کیا مری مٹی سے خدا چاہتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اسی خطا پہ بجھائے گئے چراغ مرے
میں جانتا تھا بہت کچھ ہوا کے بارے میں
جانے کیسا رشتہ ہے رہ گزر کا قدموں سے
تھک کے بیٹھ جاؤں تو راستہ بلاتا ہے
ہار ہو جاتی ہے جب مان لیا جاتا ہے
جیت تب ہوتی ہے جب ٹھان لیا جاتا ہے
بھوک میں عشق کی تہذیب بھی مر جاتی ہے
چاند آکاش پہ تھالی کی طرح لگتا ہے
بات سے بات کی گہرائی چلی جاتی ہے
جھوٹ آ جائے تو سچائی چلی جاتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں سو رہا ہوں ترے خواب دیکھنے کے لئے
یہ آرزو ہے کہ آنکھوں میں رات رہ جائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آج آنکھوں میں کوئی رات گئے آئے گا
آج کی رات یہ دروازہ کھلا رہنے دے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
حادثے شہر کا دستور بنے جاتے ہیں
اب یہاں سایۂ دیوار نہ ڈھونڈھیں کوئی
بچھڑ کے بھی وہ مرے ساتھ ہی رہا ہر دم
سفر کے بعد بھی میں ریل میں سوار رہا
تمہارے درد سے لے کر ہمارے آنسو تک
بڑی طویل کہانی ہے آگ پانی کی
جب تلک اس نے ہم سے باتیں کیں
جیسے پھولوں کے درمیان تھے ہم
ہر گھڑی چشم خریدار میں رہنے کے لیے
کچھ ہنر چاہئے بازار میں رہنے کے لیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پھر یوں ہوا تھکن کا نشہ اور بڑھ گیا
آنکھوں میں ڈوبتا ہوا جادہ لگا ہمیں
اس بار اس کی آنکھوں میں اتنے سوال تھے
میں بھی سوال بن کے سوالوں میں رہ گیا
اپنی منزل پہ پہنچنا بھی کھڑے رہنا بھی
کتنا مشکل ہے بڑے ہو کے بڑے رہنا بھی
تیرے رونے کی خبر رکھتی ہیں آنکھیں میری
تیرا آنسو مرے رومال میں آ جاتا ہے
زمین لے کے وہ آئے تو گھر بنایا جائے
کھڑے ہیں دیر سے ہم لوگ اینٹ گارے لئے
تمہاری موت نے مارا ہے جیتے جی ہم کو
ہماری جان بھی گویا تمہاری جان میں تھی