Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Sheen Kaaf Nizam's Photo'

شین کاف نظام

1947

ممتاز ما بعد جدید شاعر، ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ

ممتاز ما بعد جدید شاعر، ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ

شین کاف نظام کے اشعار

3K
Favorite

باعتبار

چبھن یہ پیٹھ میں کیسی ہے مڑ کے دیکھ تو لے

کہیں کوئی تجھے پیچھے سے دیکھتا ہوگا

گلی کے موڑ سے گھر تک اندھیرا کیوں ہے نظامؔ

چراغ یاد کا اس نے بجھا دیا ہوگا

تو اکیلا ہے بند ہے کمرا

اب تو چہرا اتار کر رکھ دے

منظر کو کسی طرح بدلنے کی دعا دے

دے رات کی ٹھنڈک کو پگھلنے کی دعا دے

دوستی عشق اور وفاداری

سخت جاں میں بھی نرم گوشے ہیں

یاد اور یاد کو بھلانے میں

عمر کی فصل کٹ گئی دیکھو

جن سے اندھیری راتوں میں جل جاتے تھے دیے

کتنے حسین لوگ تھے کیا جانے کیا ہوئے

کہاں جاتی ہیں بارش کی دعائیں

شجر پر ایک بھی پتہ نہیں ہے

اپنی پہچان بھیڑ میں کھو کر

خود کو کمروں میں ڈھونڈتے ہیں لوگ

کوئی دعا کبھی تو ہماری قبول کر

ورنہ کہیں گے لوگ دعا سے اثر گیا

آرزو تھی ایک دن تجھ سے ملوں

مل گیا تو سوچتا ہوں کیا کروں

اپنے افسانے کی شہرت اسے منظور نہ تھی

اس نے کردار بدل کر مرا قصہ لکھا

ظلم تو بے زبان ہے لیکن

زخم کو تو زبان کب دے گا

نکلے کبھی نہ گھر سے مگر اس کے باوجود

اپنی تمام عمر سفر میں گزر گئی

برسوں سے گھومتا ہے اسی طرح رات دن

لیکن زمین ملتی نہیں آسمان کو

دروازہ کوئی گھر سے نکلنے کے لئے دے

بے خوف کوئی راستہ چلنے کے لیے دے

آنکھیں کہیں دماغ کہیں دست و پا کہیں

رستوں کی بھیڑ بھاڑ میں دنیا بکھر گئی

یادوں کی رت کے آتے ہی سب ہو گئے ہرے

ہم تو سمجھ رہے تھے سبھی زخم بھر گئے

بیچ کا بڑھتا ہوا ہر فاصلہ لے جائے گا

ایک طوفاں آئے گا سب کچھ بہا لے جائے گا

اونچی عمارتیں تو بڑی شاندار ہیں

لیکن یہاں تو رین بسیرے تھے کیا ہوئے

پتیاں ہو گئیں ہری دیکھو

خود سے باہر بھی تو کبھی دیکھو

کسی کے ساتھ اب سایہ نہیں ہے

کوئی بھی آدمی پورا نہیں ہے

سن لیا ہوگا ہواؤں میں بکھر جاتا ہے

اس لئے بچے نے کاغذ پہ گھروندا لکھا

ساحلوں کی شفیق آنکھوں میں

دھوپ کپڑے اتار کر چمکے

خاموش تم تھے اور مرے ہونٹ بھی تھے بند

پھر اتنی دیر کون تھا جو بولتا رہا

دھول اڑتی ہے دھوپ بیٹھی ہے

اوس نے آنسوؤں کا گھر چھوڑا

اداسی اکیلے میں ڈر جائے گی

گھڑی دو گھڑی کو خوشی بھیج دے

ایک آسیب ہے ہر اک گھر میں

ایک ہی چہرہ در بدر چمکے

بدلتی رت کا نوحہ سن رہا ہے

ندی سوئی ہے جنگل جاگتا ہے

ذرا سی بات تھی تیرا بچھڑنا

ذرا سی بات سے کیا کچھ ہوا ہے

وحشت تو سنگ و خشت کی ترتیب لے گئی

اب فکر یہ ہے دشت کی وسعت بھی لے نہ جائے

خاموش تم تھے اور مرے ہونٹھ بھی تھے بند

پھر اتنی دیر کون تھا جو بولتا رہا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے