29 اگست 1976 کو ملتان میں مفتی محمد شفیع گولڑوی کے گھر پیدا ہوئے۔ اُن کے والد کو عالم دین کے طورپر ملک بھر میں علمی ومذہبی حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ضیاء المصطفیٰ کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا۔ گورنمنٹ مسلم ہائی سکول ملتان سے مڈل کا امتحان پاس کیا۔ گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری سکول نواں شہر ملتان سے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ ملتان سے ایف اے کرنے کے بعد بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں اسی یونیورسٹی سے ایم اے اُردو کی ڈگری حاصل کی۔
ضیاء المصطفیٰ نے ملتان کے ادبی و حلقوں سے اپنے تخلیقی و ادبی سفر کا آغاز کیا۔ ادبی دنیا میں وہ ’’ضیاء ترک‘‘ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے نا صرف شاعری بلکہ تنقید نگاری اور ترجمہ میں بھی نمایاں کام کیا۔
وہ اُردو، فارسی اور انگریزی زبانوں پر دسترس رکھتے ہیں۔ ضیاء المصطفیٰ کو تصوف سے گہری وابستگی ہے۔ اس کے علاوہ ادبی تنقید اور ترجمہ کے کام میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ معروف صوفی فخرالدین عراقی کی کتاب’’لمعات‘‘کا فارسی سے اُردو ترجمہ کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ Rainer Maria Rilke کی کتاب "Elegies" اور بادلیئر کی نظموں کے تراجم مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ حال میں نوبل انعام یافتہ Octavio Paz کی دو کتابیں "Early Poems" اور "A Tale of Two Gardens کا ترجمہ زیرطبع ہے۔ اس کے علاوہ معاصر اُردو ادب پر اُن کے تنقید ی مضامین وقتا فوقتا شائع ہوتے رہے ہیں۔ 2011 میں شاعری کا مجموعہ’’شہر پس چراغ ‘‘ شائع ہوا جس کو ملک بھر کے ادبی حلقوں کے علاوہ ہندوستان اور یورپ میں مقیم شعراء و ادبا اور تنقید نگاروں نے سراہااور تعریفی مضامین لکھے جو پاکستانی ، ہندوستانی اور یورپ کے رسائل میں شائع ہوئے۔ اُن کے تنقید مضامین کا مجموعہ زیر ترتیب ہے ۔
انھوں نے 2007 میں کیڈٹ کالج حسن ابدال میں بحثیت لیکچرار ملازمت اختیار کی اور اب تک اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں.