سسک رہی ہیں تھکی ہوائیں لپٹ کے اونچے صنوبروں سے
سسک رہی ہیں تھکی ہوائیں لپٹ کے اونچے صنوبروں سے
لہو کی مہکار آ رہی ہے کٹے ہوئے شام کے پروں سے
عجب نہیں خاک کی اداسی بھری نگاہوں کا اذن پا کر
پلٹ پڑیں ایک دن رواں پانیوں کے دھارے سمندروں سے
وہ کون تھا جو کہیں بہت دور کے نگر سے پکارتا تھا
وہ کیا صدا تھی کہ ایسی عجلت میں لوگ رخصت ہوئے گھروں سے
بدن میں پھر سانس لے رہا ہے الاؤ اندھی مسافتوں کا
نگاہ مانوس ہو رہی تھی ابھی پڑاؤ کے منظروں سے
میں ہوں مگر آج اس گلی کے سبھی دریچے کھلے ہوئے ہیں
کہ اب میں آزاد ہو چکا ہوں تمام آنکھوں کے دائروں سے
قلم کے اعجاز سے کسی پر انہیں میں کیا اختیار دوں گا
وہ جن کی تنظیم ہو سکی تھی نہ ان کے اپنے پیمبروں سے
جو ہو سکے تو وجود ہی کی کھری عدالت سے فیصلہ لو
فضول ہے جرم کے نتیجے میں داد خواہی ستم گروں سے
- کتاب : meyaar (Pg. 385)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.