آؤ کھوج لگائیں
کشور: (اپنی بیوی سے بڑے سنجیدہ لہجے میں)۔۔۔ آؤ کھوج لگائیں۔
لاجونتی: کھوج لگاؤ گے۔۔۔تم کھوج لگاؤگے۔۔۔تم جیسے لال بجھکڑوں کی بابت ہی تو وہ کہاوت مشہور ہے۔
کشور: کون سی کہاوت۔
لاجونتی: وہ جو ہاتھی کے پاؤں کا نشان دیکھ کر ایک بجھکڑنے کہا تھا ۔۔۔ چکی کا پڑ باندھ کر کوئی ہرنانا چا ہوئے۔
کشور: لاجونتی تمہیں شرم نہیں آئی میرا مذاق اُڑاتے۔۔۔ اور وہ بھی ایسے وقت جبکہ میرا اتنا نقصان ہو گیا ہے۔
لاجونتی: آپ کا نقصان کیا ہوا ہے۔۔۔ وہ تو میرے ہی گھر میں ہونجا پھرا ہے۔میرا ہی سب غارت ہوا ہے۔۔۔ آپ کا کیا گیا ہے ۔۔۔ ایک فاؤنٹین پن اور وہ مواسگرٹ کیس۔
کشور: لو بھئی تم نے یہ نیا شوشہ چھوڑ دیا۔۔۔ تمہاری نظر میں تو میرے سگرٹ کیس اور پن کی کوئی قیمت ہی نہیں۔۔۔گویا بخشیش کے تھے۔۔۔ میرا سگرٹ کیس اصل چاندی کا تھا۔ جنگ سے پہلے اس کی قیمت بیس روپیہ تھی۔۔۔ آج کل تو کم ازکم تیس روپیہ ہو گی اور وہ پن کوئی ایسا ویسا تھوڑے ہی تھا۔۔۔ ساڑھے سترہ رُوپے میں خریدا تھا۔
لاجونتی: بس تمہیں تو اپنی ہی چیزوں کی فکرہے چا ہیئے دوسرے کا سارا گھر بارلُٹ جائے۔
کشور: تمہارا گھر بار کیا میرا گھر بار نہیں۔
لاجونتی: مجھے اس وقت نہ ستاؤ منے کے پتا۔۔۔مجھے اس وقت نہ ستاؤ۔۔۔ میں اس وقت بھری بیٹھی ہوں۔۔۔(آہ بھر کے)۔۔۔ پر مامتا کرے نہ رہے اس دنیا کے تختے پر جس نے مجھ غریب پر اتنا ظلم کیا۔۔۔ کڑکتی بجلی گرے ۔۔۔پر ماتما کرے کسی موٹر کے نیچے آجائے۔۔۔کوڑھا ہو کے مرے۔
کشور: لو تم نے تورونا شروع کر دیا۔۔۔ نہ رو لاجونتی‘ نہ رو۔۔۔ تم روتی ہو تومیرا بھی جی بیٹھنے لگتا ہے۔۔۔ لو بس اب چپ کر جاؤ۔ ایسے صدمے آدمی کے لیئے کوئی نئے نہیں ہیں۔۔۔ سچ پوچھو تو ہمیں اب اس کی بابت غورہی نہیں کرنا چاہیئے۔ اور صبر شکر کر کے خاموش ہو جانا چاہیئے۔
لاجونتی: خاموش ہو جانا چاہیئے۔ کیوں۔۔۔ کوئی ہم پرستم ڈھائے اور ہم اُف بھی نہ کریں۔ دن دہاڑے ہمیں لوٹ لیا جائے اور ہم اس کی شکایت نہ کریں۔۔۔۔ کیوں۔۔۔تو پھر بتاؤ جی ہلکا کیسے ہو۔
کشور: جی ہلکا یوں ہو سکتا ہے کہ سب کچھ بُھول جانے کی کوشش کریں ہنسی مذاق میں اس دُکھ کو اُڑا دیں۔۔۔ لاجونتی۔۔۔ تم خود سمجھ دارہو۔ آخر کب تک ہم یوں آہیں بھرتے رہیں گے۔
لاجونتی: سب کچھ سمجھتی ہوں مگر کیا کروں۔ نگوڑے اس دل کے ہاتھوں مجبور ہُوں۔ چاہتی ہوں دھیان ادھر سے ہٹ کر کسی دوسری طرف لگ جائے مگر بیٹھے بیٹھے ایک دم کلائی پر نظر پڑتی ہے تو دل میں ایک ہوک سی اُٹھتی ہے۔۔۔ ٹوٹ جاتی۔۔۔اس کا ایک ایک پُرزہ میری آنکھوں کے سامنے کوئی علیحدہ کر دیتا مجھے اتنا افسوس نہ ہوتا۔۔۔ زیادہ دکھ تو اس بات کا ہے کہ معلوم نہیں کس کے پاس ہے کس کے پاس نہیں ہے۔۔۔ اپنے پاس رکھی ہے یا بیچ باچ دی ہے۔
کشور: تم اب اپنی جان ہلکان نہ کرو۔۔۔ میں تمہیں اس سے کہیں اچھی گھڑی لا دوں گا۔۔۔ سونے کی۔۔۔جو رات کو بھی وقت بتائے۔۔۔لو اب ہٹاؤ اس قصے کو۔۔۔آؤ کوئی اور بات کریں۔
لاجونتی: لیکن چوری کس صفائی سے کی گئی ہے۔۔۔ مجھے رہ رہ کے خیال آتا ہے۔۔۔۔ میری نیند کو اس روز کیا ہو گیا۔۔۔آپ کی تو خیربہت بھاری نیند ہے کہ پاس ڈھول پیٹے جائیں اور آپ کو خبر نہ ہو پر مجھے کیا ہو گیا تھا۔۔۔ چور آیا ۔۔۔گھڑیاں‘پیالے ‘سگرٹ کیس‘ قلم‘اور کیا۔۔۔
کشور: اب چھوڑ بھی دو نا اس داستان کو۔
لاجونتی: ہاں۔۔۔چور بڑے مزے سے آیا۔۔۔گھڑیاں‘پیالے‘سگرٹ کیس‘ قلم اور آپ کے اُسترے کے نئے بلیڈ لے کر چمپت ہوا اور ہم دونوں آرام سے سوتے رہے۔۔۔ اگر وہ میز کُرسیاں بھی اُٹھا کر لے جاتا تو ہمیں خبر نہ ہوتی۔
کشور: ذرا آہٹ بھی نہیں ہوئی۔۔۔لیکن چھوڑو۔۔۔ میں کہتا ہوں اگر ذرا سی آہٹ بھی ہوتی تو میں فوراً جاگ پڑتا۔۔۔ لیکن اب ان باتوں سے کیا فائدہ ہو گا۔۔۔ ہاں تم یہ بتاؤ میرا پُل اوور کب تیار ہو گا۔ اُون تو میں نے اب کے اتنی بڑھیا لا کر دی ہے تمہیں۔۔۔ بس اب ایسا پُل اوور بنے کہ طبیعت صاف ہو جائے ۔۔۔نرائن کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں۔
(دروازہ کھلنے اور بند کرنے کی آواز)
نرائن: نرائن کی آنکھیں تو اُس وقت ہی کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں جب اُس نے یہ سُنا تھا کہ تمہارے گھر پرسوں رات چور آیا اور گھڑیاں قلم دوات اورنہ معلوم کیا کیا کچھ اُٹھا کر لے گیا۔۔۔ نمسکار بھابی جان۔۔۔ مجھے ابھی ابھی گھر سے معلوم ہوا کہ آپ کی چوری ہو گئی ہے۔۔۔ ہاں بھئی کشور یہ تو بتاؤ ہوا کیا ہے۔ میں سنتا ہوں تم مزے سے سوتے رہے اور چوراپنا کام کر گیا ۔۔۔ کیا یہ سچ ہے۔
کشور: جو کچھ بھی اب کہا جائے سچ ہے۔
نرائن: یہ بھی کوئی جواب ہے۔۔۔ مجھے سارا واقعہ سناؤ۔۔۔ چور کب آیا کب گیا۔۔۔ کون کون سی چیزیں اُٹھا کر لے گیا۔ کس راستے سے اندر داخل ہوا۔ جب وہ آیا اس وقت تم سو رہے تھے یا جاگ رہے تھے۔۔۔ تمہیں کس پر شک ہے۔۔۔نوکر سے پوچھ گچھ کی۔۔۔ تمہارے ہمسائے کیا کہتے ہیں۔۔۔ پولیس میں رپورٹ لکھوائی۔۔۔ اگر لکھوائی تو اس کا کیا حشر ہوا۔۔۔یہ سب باتیں مجھے بتاؤ۔۔۔ آخر چوری ہوئی ہے۔
کشور: میں اس کے متعلق کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔
نرائن: بھئی واہ۔۔۔تو یہ چوری کیسے پکڑی جائے گی۔۔۔ مجھے بتاؤ کہاں سے چیزیں اُٹھائی گئی ہیں۔۔۔میز پر یا کہیں اور چور کی اُنگلیوں کے نشان ملے۔۔۔ کیا فرش پر پاؤں کا کوئی نشان نہیں تھا۔۔۔اگر کھڑکی کے راستے چور اندر آیا ہے تو جنگلے پر ضرور نشانات ہوں گے۔۔۔ اور ہاں میں نے سنا ہے کہ وہ تمہارے استرے کے نئے بلیڈ بھی لیتا گیا۔۔۔ اس کے متعلق تم نے غور کیا۔ بلیڈ کس چھاپ کے تھے۔۔۔ اور گھڑیوں میں کیا کوک بھری ہوئی تھی۔
کشور: کوک شام کو بھری تھی یا رات کو۔۔۔قلم میں روشنائی نیلی تھی یا سبز‘بلیڈوں پر جو کاغذ چڑھا ہوتا ہے کس رنگ کا تھا۔۔۔ اب جانے دونا شرلک ہو مزبننے کی کوشش نہ کرو۔۔۔ جیسے بلیڈوں کا چھاپ معلوم کر کے آپ چوری کا کھوج لگالیں گے۔
نرائن: اور یوں ہاتھ پر ہاتھ دھرکے بیٹھنے سے تم ضرور چوری کا پتہ لگا لو گے۔۔۔نہ بتاؤ۔۔۔ میری بلا سے۔۔۔ آج کل میں کوئی اور چور آئے گا اور گھر میں جھاڑو پھیر کر چلا جائے گا پھر بھی کچھ نہ کرنا۔۔۔ تمہیں میری قسم ہے کھوج لگانے کی ذرا کوشش نہ کرنا۔۔۔ مجھ سے بھول ہوئی جو میں نے ہمدردی کے طور پر تم سے یہ باتیں کیں۔۔۔ اب کچھ تم سے پوچھوں تو جو چور کی سزا وہ میری۔
کشور: تم ناحق بگڑتے ہو۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں اس چوری کے متعلق کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔۔۔ رسیدہ بود بلائے وے خیر گذشت۔
لاجونتی: یعنی کوئی ہمیں اُٹھا کر نہیں لے گیا۔۔۔ سو آپ جب یوں ہی گھوڑے بیچ کر سویا کریں گے تو ایک ر وزیہ بھی ہو جائے گا۔۔۔ نرائن صاحب ذرا ان کی نیند ملا حظہ ہو کہ چور کمرے میں داخل ہوا۔۔۔ میزوں کے سب درازوں کی تلاشی اس نے لی۔۔۔ اور توا وراس تپائی پر سے اس نے گھڑی اُٹھائی جوان کے سر کے ساتھ جڑی رہتی ہے لیکن انہیں خبر تک نہ ہوئی ۔۔۔ بھئی کیا نیند پائی ہے ۔
کشور: مجھے کو سے چلی جاتی ہے۔۔۔تپائی کی طرف تو تم ہی سوتی ہو۔۔۔ تمہیں کیا سانپ سونگھ گیا تھا۔
لاجونتی: کیا فضول باتیں کرتے ہو۔۔۔ میری چارپائی تو دوسرے کمرے میں ہے۔
کشور: (گھبرا کر)۔۔۔ارے ہاں۔۔۔تمہاری چارپائی تو دوسرے کمرے میں ہے۔۔۔ میں یہ کہہ رہا تھا۔۔۔ میں یہ کہہ رہا تھا کہ تپائی جو میرے سر کے ساتھ جڑی رہتی ہے کیوں نہ ہِلی۔۔۔ تمہارا کیا خیال ہے نرائن۔ مجھے تو یہ چور بڑا ہوشیار معلوم ہوتا ہے۔
نرائن: تم میاں بیوی سے تو معمولی چور بھی ہوشیار ہو گا۔۔۔ ہاں تو آپ دونوں ایک پلنگ پر سو رہے تھے کہ۔۔۔
لاجونتی: نرائن صاحب۔
نرائن: جی۔
لاجونتی: میں بھول ہی گئی کہ میں کہنے والی تھی۔۔۔ ہاں نرائن صاحب یہ چور چوری کیوں کرتے ہیں۔
نرائن: (ہنستا ہے‘۔۔۔چور چوری کیوں کرتے ہیں(ہنسنا بند کر کے)۔۔۔
بھئی نہیں بات معقول ہے۔۔۔ چور چوری کیوں کرتے ہیں سوچنا چاہیئے۔تمہارا کیا خیال ہے کہ چور کس لیئے چوری کرتے ہیں۔
کشور: اس لیئے چوری کرتے ہیں کہ میاں بیوی میں لڑائی ہو۔
لاجونتی: بس آپ کو تو ہر وقت لڑائی جھگڑے ہی کی سوجھتی ہے۔
نرائن: چھوڑئیے اس قصے کو۔۔۔ ہابھئی کشو رتم یہ بتاؤ کہ چور زیادہ تر مرد ہوتے ہیں یا عورتیں۔
لاجونتی: عورت بیچاری کیا چوری کریں گی۔ ہزار میں ایک ہو گی مگر چور تو ہوتے ہی مرد ہیں۔۔۔ فتو چوٹا نامی گرامی لکھنو کا چور گزرا ہے جو چھت میں جست لگا کر چھپکلی سا چمٹ جاتا تھا۔
کشور: کمنتی خانہ بدوشوں کی سردار عورت پنجاب میں ایسی گزری ہے جس نے چوروں کے بھی کان کاٹے ہیں۔۔۔ بڑے بڑے ڈاکوؤں کو دریا پرلیجا کر پیاسا لاتی تھی۔
لاجونتی: میرے گلے کالاکٹ تمہاری اس کلموہی نے چُرایا تھا۔
کشور: اور میری ٹائم پیس تمہاری وہ درگاہی میانی میں چھپا کر بھاگ رہی تھی۔
نرائن: تو ثابت ہوا کہ مرد اور عورتیں دونوں چور ہوتے ہیں۔
کشور: ثابت کچھ نہیں ہوا۔ اب ہمارا تماشا دیکھنے کی کوشش نہ کرو۔۔۔ لاجونتی اب بند کرو اس گفتگو کو۔۔۔ بتاؤ وقت کیا ہوا ہے۔ مجھے باہر جانا ہے۔
لاجونتی: وقت ۔۔۔ لیکن گھڑی کہاں ہے۔۔۔ (آہ بھر کے) پرماتما کرے وہ کلائی ہی ٹوٹ جائے جس پر میری گھڑی باندھی جائے۔۔۔ موئے نے بیچ بھی دی ہو گی۔
اونے پونے داموں میں۔۔۔ پرماتما کرے کیڑے چلیں اس کے جسم میں ۔۔۔
ایڑیاں رگڑ رگڑ کرجان دے۔۔۔
(دروازے پر دستک)
کشور: کون ہے؟
(دروازے پر دستک)
کشور: (کرسی پر سے اُٹھنے کی آواز) ۔۔۔ اس وقت کون آیا ہے۔۔۔ کون ہے۔
(دروازہ کھولنے کی آواز)
کشور: فرمائیے آپ کوکس سے ملنا ہے:
ملاقاتی: آپ سے
کشور: آپ کا اسم گرامی؟
ملاقاتی: میں ابھی عرض کرتا ہوں۔۔۔ جو گفتگو ابھی ابھی آپ لوگوں کے درمیان ہو رہی تھی‘ اس کے متعلق مجھے کچھ کہنے کی اجازت دی جائے تو میں آپ کاممنون ہوں گا۔
کشور: اندر تشریف لے آئیے۔ (دو تین سکنڈ کے لیئے خاموشی۔۔۔ پھر کرسیوں کی آواز)
بیٹھئے۔۔۔ ہاں۔۔۔ یہ میری وائف ہے اور یہ میرے دوست مسٹر نرائن۔
ملاقاتی: نمسکار۔۔۔میں آپ دونوں کو جانتا ہوں۔
کشور: کیا کہا آپ نے؟
نرائن: مجھے ۔۔۔مجھے آپ کیسے جانتے ہیں۔
ملاقاتی: میں زیادہ دیر تک آپ لوگوں کو اندھیرے میں رکھنا نہیں چاہتا۔۔۔ میں آپ سب کا احترام کرتا ہوں۔۔۔ آپ کے تو میں کئی افسانے پڑھ چکا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ دور میں صرف آپ ہی ہندوستان کے بڑے افسانہ نگار ہیں کیونکہ آپ کے تخّیل میں نُدرت ہے۔۔۔ آپ ترقی پسند ہیں۔۔۔ سچ پوچھیئے تو ہمارے ادب نے ابھی تک افسانہ پیدا ہی نہیں کیا مگر آپ نے۔۔۔
نرائن: قدر افزائی کا شکریہ۔۔۔ آپ نے بالکل صحیح فرمایا ہے کہ ہندوستانی ادب میں افسانہ ناپید ہے۔۔۔ جو لکھنے والے ہیں۔۔۔
کشور: مگر ابھی تک ہم سب اندھیرے میں ہیں۔
ملاقاتی: معاف کیجئے گا میں اور نرائن صاحب افسانے کی رو میں بہہ گئے۔۔۔ ہاں تو نرائن صاحب آپ سے ہندوستان کے افسانوی ادب پر پھر کبھی باتیں ہونگی۔۔۔ مجھے پہلے اپنا تعارف کرانا چاہیئے تھا۔۔۔ خاکسار وہ چور ہے جس نے یہاں کی چیزیں چُرائی ہیں۔
لاجونتی: (چونک کر) ۔۔۔چور۔۔۔
کشور: کیا کہا آپ نے؟
نرائن: آپ چور ہیں؟۔۔۔اور میرے افسانے۔۔۔
ملاقاتی: میں آپ کے افسانوں کے متعلق پھر گفتگو کروں گا۔۔۔ جی ہاں خاکسار وہی چور ہے جو پرسوں رات یہاں حاضر ہوا تھا۔
لاجونتی: میری گھڑی۔۔۔ (ایکاایکی چونک کر۔۔۔ چیخ کے ساتھ)
ملاقاتی: جی ہاں یہ آپ ہی کی گھڑی ہے جو میں نے اپنی کلائی پر باندھ رکھی ہے۔۔۔ میرا خیال تھا کہ یہ ٹھیک وقت دے گی مگر اب معلوم ہوا ہے کہ یہ پندرہ منٹ تیز چلتی ہے۔
لاجونتی: مَیں۔۔۔مَیں۔۔۔
ملاقاتی: لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں آپ کے انتخاب کو اچھا نہیں سمجھتا۔ آپ کا ذوق یقیناًبہت اچھا ہے۔۔۔ آپ کے سنگھار کی دوسری چیزیں اس کی گواہ ہیں۔۔۔ مگر آپ نے مجھے گالیاں دے کر احترام کے اس جذبے کو ضعیف کر دیا ہے جو کہ میرے دل میں آپ کے متعلق پیدا ہو گیا تھا۔۔۔ گہری نیند سونے والی خاتونوں اور آرٹسٹک انتخاب رکھنے والی عورتوں کا رتبہ میری نگاہوں میں ہمیشہ بلند رہا ہے۔۔۔ لیکن آج میں نے جب آپ کی زبان سے اپنے متعلق غیر مناسب الفاظ سنے تو یقین ما نیئے مجھے بہت صدمہ ہوا۔۔۔ حیرت ہوتی ہے کہ آپ جیسی بلند سیرت خاتون نے میری تذلیل کی۔
نرائن: تذلیل:
کشور: چور کی تذلیل۔۔۔ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔
ملاقاتی: یہی کہ میری بے حد تذلیل ہوئی ہے۔۔۔ اس گھر میں جس کی ہر ایک شئے میں بڑی آسانی سے اُٹھا کر لے جا سکتا تھا آپ سب نے مل کر میرے وقار پر حملہ کیا ہے۔۔۔ میرے تعزز کی مٹی پلید کی ہے۔۔۔ میری غیر موجودگی میں آپ نے میرے پیشے کو برا بھلا کہا ہے۔۔۔ ایک شریف آدمی کی اس سے بڑھ کر اور کیا ہتک ہو سکتی ہے۔
کشور: وقار
لاجونتی: تعزز
کشور: شریف آدمی
نرائن: سگرٹ شوق فرمائیے۔۔۔ (دیا سلائی جلانے کی آواز)
ملاقاتی: شکریہ۔۔۔ (سگرٹ سُلگاتا ہے)۔۔۔ میں یہاں صرف اپنی پوزیشن صاف کرنے آیا ہوں۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ قانون کی نظر میں ہم لوگ سوسائٹی کے دشمن ہیں لیکن اگر اس دشمن پر تہمتوں کے انبار لگا دئیے جائیں اور اسے ذلیل ورسوا کیا جائے تو بتائیے اس کے جذبات کو کس قدر ٹھیس پہنچے گی۔۔۔
ہمیں ایک عام پیشہ ور کی حیثیت سے کیوں نہیں دیکھا جاتا۔۔۔ میں اس سوال کے منطقی اور معاشرتی پہلوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے آپ کو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارا پیشہ اس شے لطیف کے بالکل قریب ہے جسے ہم آرٹ کہتے ہیں۔۔۔ ہمارے پیشے میں وہ تمام عنصر موجود ہیں جو آرٹ کی تکمیل کے لیئے ضروری ہیں۔۔۔ مثلاً فراخ ہمتی۔ امنگ ۔ خیال آرائی ،تخلیقی تحریک، روحانی فیضان اور ایجاد کا مادہ۔۔۔ اگر میں آپ سے کہوں کہ چور بننے کے لیئے فطری صلاحیت کا ہونا اشد ضروری ہے تو شاید آپ میرا مذاق اڑانا شروع کر دیں مگر یہ حقیقت ہے۔ بعض لوگ قدرتی طور پر غیر معمولی حافظے کے مالک حاضر دماغ اور تیز نگاہ ہوتے ہیں۔۔۔ ان کے ہاتھوں میں بلا کی پھرتی ہوتی ہے۔ ان کی قوتِ لامسہ بہت تیز ہوتی ہے۔۔۔ یہ لوگ اگر آپ یقین فرمائیں صرف اس لیئے پیدا ہوتے ہیں کہ شاندار پتے باز بنیں۔۔۔ اور جیب کتروں کا پیشہ اختیار کرنے کے لیئے بڑی چابکدستی ،حرکت کے زبردست تیقن، مشاہدے اور توجہ کی انتہائی شدّت اور حاضر دماغی کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ جس طرح شاعر پیدا ہوتا ہے اسی طرح چور پیدا ہوتا ہے۔۔۔ اور اصلی چور کو آپ کسی حیلے سے بھی لالچ دے کر اپنے راستے سے نہیں ہٹا سکتے۔ اچھی ملازمت کی پیش کش قیمتی سے قیمتی تحفہ حتیٰ کہ عورت کی محبت بھی اسے ورغلا نہیں سکتی۔ اس لیئے اس پیشے میں خطرے کی مستقل خوبصورتی کھٹکے کی مسرت افزا گہرائی، دل دھلنے کی لُطف اور نبض حیات کی تیز دھڑکن ہے۔۔۔ ان سب کے اوپر ایک کیف۔۔۔ ایک۔۔۔ ایک وجد۔۔۔ ایک ناقابل بیان ترنگ ہے ۔
کشور: ہنستا ہے خوب ہنستا ہے۔ ایک ناقابل بیان ترنگ ہے۔۔۔اور اس کے اوپر میرے معزز ملاقاتی کا سر۔۔۔(ہنستا ہے)
ملاقاتی: نرائن صاحب۔ آپ اپنے دوست سے کہیں کہ زیادہ نہ ہنسیں ۔ہنسی وہ ہے جو خود بخود آئے۔ زبردستی ہنسنا صحت بخش نہیں ہوتا۔
نرائن: اسے ادب آداب سے کوئی واسطہ نہیں۔۔۔ آپ جو کچھ کہہ رہے تھے اسے جاری رکھئے میں ہمہ تن گوش ہوں۔
ملاقاتی: میں یہ عرض کرنے والا تھا کہ آپ لوگ قوانین ، قسم قسم کے تالوں، بندوقوں ‘ تلواروں ،پولیس کے سپاہیوں اور ٹیلی فونوں سے مسلح ہیں۔ لیکن ہمارے پاس صرف پھرتی ، ہوشیاری اور بیباکی ہے جس کے ذریعے سے ہم آپ کا مقابلہ کرتے ہیں۔۔۔ اور ہاں کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے دیہاتوں میں صاحبِ ذکادت لوگ جو کہ آرٹسٹک طبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔ اکثر گائے چوربن جاتے ہیں یا گھوڑے چرانا شروع کر دیتے ہیں۔
کشور : کیوں؟
ملاقاتی: اس کے سوا اور وہ کر ہی کیا سکتے ہیں۔۔۔ یہ زندگی اونچی فضاؤں میں پرواز کرنے والی رُوحوں کے لیئے بہت ہی کم حقیقت غایت درجہ خشک اور بے کیف ہے۔
لاجونتی: وہ ذہانت اور ذکاوت کس کام کی جوبری جگہ استعمال ہو۔
ملاقاتی: خاتون محترم۔۔۔ ذہانت اورذکاوت اگر مسجد،مندر سے الگ کھڑی کی جائے تو بھی اس کی خوبصورتی میں فرق نہیں آتا۔ ترقی ایک قانون ہے اور چوری کی بھی مخلوق ہوتی ہے۔۔۔ یہ لیجئے اپنی گھڑی۔۔۔ اس گھڑی کا اسڑیپ میں نے بدل دیا ہے چونکہ پہلا بہت ہی ان آرٹسٹک تھا۔۔۔ میں ان لوگوں کی گھڑیاں اپنے پاس نہیں رکھاکرتا جومجھے گالیاں دیں اور میرے پیشے کو بالکل غلط رنگ میں دیکھیں۔۔۔ اچھا اب میں اجازت چاہتا ہوں۔
نرائن: سگرٹ شوق فرمائیے
ملاقاتی: شکریہ۔۔۔ یہ آپ کا سگرٹ کیس بہت اچھا ہے۔ (سگرٹ سلگانے کی آواز)
نرائن: میں ایک بات آپ سے پوچھ سکتا ہوں۔
ملاقاتی: بڑے شوق سے۔۔۔۔۔۔
نرائن: آپ کشور کے بلیڈ کیوں چُرا کر لے گئے تھے؟
ملاقاتی: (ہنستا ہے)۔۔۔ بلیڈ۔۔۔ قصہ یہ ہے کہ جس روز میں یہاں آیا اس روز میں نے ان نئے قسم کے بلیڈوں سے داڑھی منڈی تھی۔۔۔ بڑے واہیات بلیڈ ہیں گھاس کھودنے والا اوزار ان سے بہتر ہوگا۔۔۔ سنگھارمیز پر جب میں نے ان کو دیکھا تو اٹھا کر جیب میں رکھ لیئے تاکہ صبح اٹھ کر جب داڑھی مونڈنے لگیں تو آپریشن سے محفوظ رہیں۔۔۔میز کا داہنا دراز جو مقفل تھا۔ میں نے کھولا تھا مگر اس میں ان کے پرائیویٹ خط تھے۔۔۔ ایک خط میں نے پڑھا تھا ۔۔۔داغ ان کو بہت پسند ہے۔ جگہ جگہ آپ نے اس کے شعر ٹھونسے ہوئے تھے۔۔۔ یہ خط آپ نے ابھی تک پوسٹ نہ کیا ہو تو ایک شعر درست کر لیجئے گا۔۔۔ آپ نے لکھا ہے۔
میری فریاد دوسرا نہ سُنے
بت ہی سن لیں اگر خدا نہ سُنے
یہ غلط ہے ۔ آپ نے امیر اور داغ دونوں کے شعروں کو خلط ملط کر دیا۔۔۔ امیر کا شعر یوں ہے۔
میری فریاد را ئیگاں تو نہ ہو
بت ہی سن لیں اگر خدا نہ سُنے
امیر کے مضمون میں اتنی ترقی پیدا کرنا داغ ہی کا حصہ ہے۔۔۔ اچھا اب میں رخصت چاہتا ہوں۔۔۔ نرائن صاحب میرے لائق کوئی خدمت ہو توبِلا تکلف ارشاد فرما دیجئے گا۔۔۔ اور ہاں کشور صاحب آپ کی دوسری چیزیں اس پارسل میں موجود ہیں(تھوڑی دیر خاموشی) ۔۔۔( پھر دروازہ بند کرنے کی آواز)
لاجونتی: آپ نے یہ خط کس کو لکھا ہے
کشور: نرائن۔۔۔بھاگو جانے نہ پائے۔
نرائن: کون؟
کشور: یہی چور اور کون۔۔۔ وہ کس آرام سے آیا اور چلا بھی گیا۔۔۔ تم نے اسے پکڑا بھی نہیں۔۔۔ چلو۔۔۔ چلو اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیں۔
لاجونتی: آپ میری بات کا جواب دیجئے۔۔۔ یہ آج کل شعروں بھرے خط کسے لکھے جا رہے ہیں کیا کوئی نئی بلاپالی ہے۔
کشور: کون سے خط۔۔۔ چلو نرائن۔۔۔ چلو ابھی وہ سیڑھیوں ہی میں ہو گا۔
لاجونتی: بات نہ ٹا لیئے۔۔۔ مجھے اس بات کا جواب دیجئے کہ آج کل خط کس کو لکھے جا رہے ہیں۔۔۔ رات گیارہ بجے تک آپ اپنے کمرے میں کیا کرتے رہے تھے۔
کشور: جھک مار رہا تھا۔۔۔ ادھر چور ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے اور ادھراس نے اپنی تفتیش شروع کر دی ہے۔ چلونرائن۔
نرائن: اماں چھوڑو۔۔۔ آدمی دل کا اچھا ہے۔۔۔ جانے دو۔
لاجونتی: میں کیا پوچھ رہی ہوں۔۔۔
کشور: مجھے تو کچھ معلوم نہیں۔
لاجونتی: میز کے دراز میں کس کے خط ہیں۔۔۔ اور وہ شعروں والا خط آپ نے کس کو لکھا ہے؟
کشور: کون سے خط۔۔۔ کیسے شعر۔۔۔ وہ تمہیں بنا گیا ہے۔۔۔ یہ لو چابی اور جا کے دیکھ لو۔۔۔ اس نے یہ شوشہ ہی اس لیئے چھوڑا تھا کہ ہم لوگ اس بک بک میں پڑجائیں اور وہ آرام سے چلا جائے۔۔۔ اور تم نہیں اول درجے کے چند۔۔۔ اس نے تمہارے افسانوں کی تعریف کر دی اور چلو تم خوش ہو گئے۔۔۔ اب اتنی دیر کے بعد اسے کس طرح پکڑا جا سکتا ہے۔۔۔ پنجے میں آکر کس صفائی سے باہر نکل گیا۔
نرائن: چلو اب چھوڑو اس قصے کو۔۔۔ (سگرٹ پیو۔۔۔ارے۔۔۔ میرا سگرٹ کیس کدھر گیا۔۔۔ میرا سگرٹ کیس۔۔۔ میرا سونے کا سگرٹ کیس۔۔۔
کشور: (ہنستا ہے)۔۔۔ اس نے اس کی تعریف جو کی تھی۔ (ہنستا ہے)پریشان کیوں ہوتے ہو۔ وہ تو تمہارے افسانوں کا مداح ہے۔ تمہیں ہندوستان کا سب سے بڑا افسانہ نگار مانتا ہے۔۔۔ ارے۔۔۔کدھر چلے۔۔۔
نرائن: مذاق نہ کروکشور۔۔۔ میرا سگرٹ کیس بہت قیمتی تھا۔۔۔ میں دیکھتا ہوں۔
شاید وہ بازا ر میں مل جائے۔
کشور: (ہنستا ہے)
فیڈ آؤٹ
- کتاب : آؤ
- اشاعت : 1940
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.