مامتا کی چوری
افراد
مسٹر بھاٹیہ۔۔۔
مسز بھاٹیہ۔۔۔
گوپال (گوپو)مسٹر اور مسز بھا ٹیہ کا کم سن لڑکا
چپلا:گوپال کی اُستانی
ڈاکٹر۔۔۔
(پانی میں ہاتھ دھونے کی آواز)
ڈاکٹر: بچے کو زبردست انفکشن ہو گئی ہے اگر اس کی اچھی طرح تیمارداری اور خبر گیری نہ کی گئی تو مجھے اندیشہ ہے۔۔۔
چپلا: نہیں نہیں۔۔۔ کسی بات کا اندیشہ نہیں ہے۔ آپ مطمئن رہیں ڈاکٹر صاحب اس کی اچھی طرح تیمارداری کی جائے گی۔۔۔ یہ لیجئے تولیہ!
(بچہ بخار میں ’’ہوں ہوں‘‘ کرتا ہے)
چپلا: گوپو۔۔۔گوپو۔۔۔ میں تیری اُستانی ہوں بیٹا۔۔۔ کیا تو آج سبق نہیں پڑھے گا مجھ سے اور سیر کے لیئے بھی تو جانا ہے ہمیں نہیں نہیں‘ کل چلیں گے۔ کل تو بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔
ڈاکٹر: باتیں کرنے سے بچے کو تکلیف ہوگی۔
چپلا: بہت اچھا ڈاکٹر صاحب۔ میں باتیں نہیں کروں گی۔ پر میں اس کے پاس بیٹھ تو سکتی ہوں۔ یہ خود چاہتاہے کہ میں اس کے پاس بیٹھی رہوں۔۔۔!
ڈاکٹر: تو بھاٹیہ صاحب جو ہدایات میں دے چکا ہوں ان پر ضرور عمل کیا جائے ۔
بھاٹیہ: بہت بہتر ڈاکٹر صاحب!
(چلنے کی آواز۔۔۔ پھر دروازہ کھلتا ہے)
مسز بھاٹیہ: ڈاکٹر صاحب بتائیے۔ میرے بچے کا کیا حال ہے۔۔۔ بچ جائے گا خطرے کی کوئی بات نہیں؟۔۔۔اور۔۔۔اور۔۔۔اوہ۔۔۔لیکن یہ کیا ظلم ہے کہ مجھے اس کے پاس جانے سے منع کیا جاتا ہے (جذبات کی رُوح میں بہہ کر) کیا میں اس کی ماں نہیں۔ کیا وہ میرا بیٹا نہیں۔۔۔ وہ عورت کیا وہ عورت قاعدے کے چند حروف پڑھا کر اس کی ماں بن گئی ہے۔۔۔ چند روز باغ میں لے جا کر کیا اس عورت کے دل میں مامتا پید اہو گئی ہے؟ میری اولاد پر اسے کیا حق ہے۔۔۔ کب تک وہ میرے ہی گھر میں میری چیزوں پر قابض رہے گی۔۔۔ میں کب تک یہ اذّیت برداشت کرتی رہوں گی۔
ڈاکٹر سنجیدگی کے ساتھ: بچے کی حالت نازک نہیں ہے لیکن وہ خطرے سے باہر بھی نہیں۔ بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔۔۔ ہاں تو بھاٹیہ صاحب میں اب اجازت چاہتا ہوں۔
مسز بھاٹیہ اور۔۔۔اور یہ سب احتیاط صرف وہی عورت کر سکتی ہے۔۔۔ میں بالکل ناکارہ ہوں۔ محض اتفاق ہے کہ میں اس کی ماں ہوں۔ ورنہ وہی عورت اس کی سب کچھ ہے(سسکیاں۔۔۔ میں ۔۔۔ میں کتنی دکھی ہوں)
بھاٹیہ: ڈاکٹر صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ۔ امید ہے شام کو آپ ضرور تشریف لائیں گے۔
ڈاکٹر: ایک ایک گھنٹے کے بعد دوا دینا نہ بھولیئے گا اور وہ بھاپ بھی۔۔۔
بھاٹیہ: آپ مطمئن رہیں گوپال کی اُستانی ہوشیار ہے اسے سب کچھ یاد ر ہے گا۔
(دروازہ کھولنے اور بند کرنے کی آواز۔۔۔ ڈاکٹر چلا جاتا ہے)
مسز بھاٹیہ: تم یہ جھگڑا ہی ختم کیوں نہیں کر دیتے۔ یہ نئی بلا جو تم نے پالی ہے اسی کے ہورہو اور مجھے زہر دے کر ہلاک کر دو۔۔۔ یہ روز روز کی دانتا کلکل تو ختم ہو۔ میرا تو اس گھر میں ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ یہ چپلا جب سے آئی ہے ایسا جادو اس نے تم پر کیا ہے کہ میں کیا کہوں۔ اب تو گھر میں اسی کا راج ہے میں کون۔۔۔ تین میں نہ تیرہ میں‘ تسلی کی گرہ میں۔۔۔ تم تو خیر اس کے ہو ہی گئے تھے۔ پر اس موئی نے تو میرے بچے پر بھی قبضہ جما لیا ہے۔
اب بتاؤ: میں کہاں جاؤں؟
بھاٹیہ: (بڑی متانت اور ٹھنڈے دل سے) میں تم سے بار بار کہہ چکا ہوں اور اب پھر کہتا ہوں کہ تم بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہو۔ یہ گھر بار سب تمہارا ہے بچہ بھی تمہارا ہے جس عورت کا تم بار بار ذکر کرتی ہو وہ تمہاری نوکر ہے۔
تمہارے بچے کو اس نے دنوں میں سدھاردیا۔۔۔ اب بیماری میں وہ اس کی خبرگیری کر رہی ہے اس کے لیئے تمہیں اس کا شکر گزار ہونا چاہیئے۔
مسز بھاٹیہ: تم اس کی وکالت کیوں کرتے ہو؟ تم کیوں اس کی اصل خواہشوں پر پردہ ڈالتے ہو۔۔۔ کیا یہ جھوٹ نہیں کہ جب سے وہ اس گھر میں داخل ہوئی ہے تم مجھ سے بالکل بے پرواہ ہو گئے ہو۔ تم اب مجھ سے بات کرنے کے بھی روادار نہیں۔ اور کیا یہ جھوٹ ہے کہ بچے کو لے کر کئی کئی گھنٹے تم اس حرا فہ کے ساتھ باغ میں ٹہلتے رہتے ہو؟۔۔۔ جب وہ بچے کو سبق پڑھاتی ہے تو گھنٹوں تم اس کے پاس بیٹھے رہتے ہو کیا یہ غلط ہے؟۔۔۔ کیا یہ سب اس چڑیل کی کارستانی نہیں۔۔۔ اس ذلیل عورت کو جو فاحشہ سے بھی بدتر ہے۔۔۔
مسز بھاٹیہ: پاربتی۔۔۔ بند کرو اس بکواس کو (غصے کو دبا کر ) تم ۔۔۔تم۔۔۔ اب میں تم سے کیا کہوں۔ میری زندگی تم نے اجیرن کر دی ہے۔
مسز بھاٹیہ: (طعن آمیز لہجے میں) میں تو بہت سکھی ہوں۔۔۔ میری زندگی تو بڑے آنند میں گزر رہی ہے۔
بھاٹیہ: بھگوان کے لیئے اب یہ مونہا ٹھیٹھی بند کرو۔
مسز بھاٹیہ: زور صرف مجھ پر چلتا ہے لیکن سن لو جب تک یہ عورت گھر میں موجود ہے میری زبان چلتی رہے گی۔ مجھے دکھ دینے کے لیئے جب تم یہ عورت یہاں لے آئے ہو تو میں تمہیں ایک لمحے کے لیئے چین نہ لینے دُوں گی۔۔۔ اور اس عورت۔۔۔ اور اس عورت کو پرماتما سزا دے گا جس نے میرے بسے بسائے گھر کو برباد کیا ہے جس نے میر اپتی دن دہاڑے مجھ سے چھین لیا ہے۔
بھاٹیہ: میں اب دفتر جا رہا ہوں زیادہ باتیں کرنے کے لیئے میرے پاس وقت نہیں تم چاہو تو دوسرے کمرے میں اپنے لڑکے کے پاس جا سکتی ہو۔
مسز بھاٹیہ: میں نہیں جاؤں گی۔
بھاٹیہ: یہ اور بھی اچھا ہے۔
(دروازہ کھولنے اور بند کرنے کی آواز۔۔۔ بھاٹیہ چلا جاتا ہے مسز بھاٹیہ چند لمحات تک اضطراب کی حالت میں ٹہلتی ہے)
مسز بھاٹیہ: چپلا ۔۔۔چپلا
(دروازہ کھولنے کی آواز)
چپلا: میں نے آپ کی آوازسُن لی تھی۔ آپ نے دوسری مرتبہ زور سے پکارا
گوپو جاگ پڑا۔
مسز بھاٹیہ: پھر سو جائے گا۔ کوئی حرج نہیں!
چپلا: بڑی مشکل سے بیچارے کی آنکھ لگی تھی۔
مسز بھاٹیہ: گوپو سے تمہیں بہت پیار ہے؟
چپلا: جی ہاں!
مسز بھاٹیہ: کیوں؟
چپلا: مجھے اس سے پیار ہے۔ میں دل سے اسے چاہتی ہوں۔۔۔ کیوں؟
اس کا میں آپ کو کیاجواب دوں۔
مسز بھاٹیہ: کیا مجھے اس سے محبت نہیں؟
چپلا: آپ کو مجھ سے زیادہ اس کا علم ہونا چاہیئے!
مسز بھاٹیہ: کیا میں اس کی ماں نہیں؟
چپلا: آپ یقیناًاس کی ماں ہیں۔
مسز بھاٹیہ: تم اس کی کیا ہوتی ہو؟
چپلا: اُستانی‘ جس کو آپ نے مقرر کیا ہے۔
مسز بھاٹیہ: میں نے تمہیں مقرر نہیں کیا۔ میرے پتی نے تجھے نوکر رکھا ہے ۔
چپلا: میں بھاٹیہ صاحب اور آپ میں کوئی فرق نہیں سمجھتی ۔ میں آپ کی بھاٹیہ صاحب اور گوپوتینوں کی خدمت گار ہوں۔ میرا کام خدمت کرنا ہے۔
مسز بھاٹیہ: جیسی خدمت تم میرے پتی کی کر رہی ہو۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ تم اپنے فن میں ضرورت سے زیادہ مہارت رکھتی ہو؟
چپلا: میں آپ کا مطلب نہیں سمجھی۔
مسز بھاٹیہ: میرے منہ میں بھاٹیہ صاحب کی زبان ہوتی تو میرا مطلب فوراً تمہاری سمجھ میں آجاتا۔۔۔تم۔۔۔
چپلا: فرمائیے!
مسز بھاٹیہ: (لہجہ بدل کر) دیکھو چپلا۔ میں عورت ہوں ۔ تم بھی عورت ہو۔
آؤ کھل کر باتیں کریں وہ پردہ اُٹھائیں جو ہمارے درمیاں حائل ہے۔
چپلا: آقا اور نوکر کے درمیان پردہ ہی کیا ہو سکتا ہے۔
مسز بھاٹیہ: انجان بننے کی کوشش نہ کرو۔۔۔ میں تم سے ایک التجا کرنا چاہتی ہوں۔۔۔ میں تم سے کچھ مانگنا چاہتی ہوں۔ مجھے مانگنے دو۔ التجا کرنے دو۔۔۔ دیکھو جب سے تم اس گھر میں آئی ہو میری زندگی بالکل اجیرن ہو گئی ہے۔ میرا پتی مجھ سے چھن گیا۔ میر ابچہ بھی میرا بچہ نہ رہا۔۔۔ یہ سب کچھ تم نے لے لیا۔۔۔ وہ تمام چیزیں جن کی ملکیت سے عورت بیوی بنتی ہے۔ ایک ایک کرکے تم مجھ سے چھین چکی ہو اس گھر میں جو کبھی میرا تھا میں اجنبی مہمانوں کی سی زندگی بسر کر رہی ہوں۔۔۔ دیکھو تم عورت ہو۔ ایک مظلوم عورت تم سے بھیک مانگتی ہے اس کو وہ تمام چیزیں بخش دو جو اتفاق سے تمہارے ہاتھ آگئی ہیں۔۔۔
چپلا: (جذبات پر قابو پا کر) ۔۔۔آپ۔۔۔آپ۔۔۔اب میں آپ سے کیا کہوں‘ آپ ایک شریف عورت کو بدنام کر رہی ہیں۔
مسز بھاٹیہ: (چڑکر) شریف عورت۔۔۔ آہ تمہاری شرافت۔۔۔ تم عورت نہیں ڈائن ہو لیکن میں پوچھتی ہوں ‘ کب تک تم ان چیزوں کو اپنی ملکیت بنائے رکھو گی۔۔۔ جن پر تمہار اکوئی حق نہیں۔۔۔ کب تک تم اس گھر میں فساد برپا کیئے رکھو گی۔۔۔ کب تک۔۔۔کب تک۔۔۔ کب تک۔۔۔ تم ان بجلیوں سے بچی رہوگی جو آکاش میں تم ایسی نا پاک عورت پر گرنے کے لیئے تڑپتی رہتی ہیں۔
چپلا: (کوئی فیصلہ کرنے کے انداز میں) آپ کیا چاہتی ہیں۔ میں چاہتی ۔۔۔
مسز بھاٹیہ: میں تمہارے منہ پر تھوکنا چاہتی ہوں۔۔۔ میں چاہتی ہوں کہ یہ دنیا تمہارے وجود سے پاک ہو جائے۔ میں چاہتی ہوں کہ جو دُکھ تم نے مجھے دیئے ہیں تمہارے حلق میں ہچکی بن کر اٹک جائیں۔ میں بہت کچھ چاہتی ہوں۔۔۔ میں چاہتی ہوں کہ گوپال مجھے ماں کہے۔۔۔ میری بیچارگی دیکھو کہ میں کیا چاہتی ہوں۔
چپلا: گوپال کی ماں آپ کے سوا کون ہو سکتی ہے؟
مسز بھاٹیہ: تم ۔۔۔تم۔۔۔ جس نے میری مامتا پر بھی قبضہ جما لیا۔
چپلا : (معنی خیز لہجے میں) مامتا چُرائی نہیں جا سکتی۔ آپ نے خود کہیں کھو دی ہے۔
مسز بھاٹیہ: میں تم سے بحث کرنا نہیں چاہتی۔ ایک سودا کرنا چاہتی ہوں۔۔۔
مجھ سے کچھ زیورات لے لو اور یہاں سے چلی جاؤ۔ ان سے کہہ دینا۔۔۔ میں اپنی مرضی سے جا رہی ہوں۔
چپلا: کیا اس سے آپ کا اطمینان ہو جائے گا۔
مسز بھاٹیہ: (خوش ہو کر) تو میں تمہیں زیور اور روپے لا دوں۔
چپلا: جی نہیں‘ مجھے ان کی ضرورت نہیں۔ آپ نے مجھے نوکر رکھا اور اب نکال دیا اس میں سودا کرنے کی نوبت ہی کہاں آتی ہے میں آج ہی چلی جاؤں گی اور یہ افسوس ساتھ لیتی جاؤں گی کہ آپ نے مجھے شک کی نظروں سے دیکھا۔۔۔ گوپال آپ ہی کا ہے۔ پرماتما کرے کہ وہ تندرست ہو جائے اور آپ کی گود ہری رہے۔۔۔
(کلاک چھ بجاتا ہے)
مسز بھاٹیہ: (اپنی بیوی کو آواز دیتا ہے) پاربتی۔۔۔پاربتی۔۔۔
مسز بھاٹیہ: (روکھے پن سے) کیا ہے؟
مسز بھاٹیہ: چپلا کہاں ہے۔۔۔ بچے کو اس نے دوا کیوں نہیں پلائی؟
مسز بھاٹیہ: مجھے کیا معلوم ۔ اپنے کمرے میں ہوگی
مسز بھاٹیہ: کیا کر رہی ہے؟
مسز بھاٹیہ: اندر جا کے دیکھ لو۔
مسز بھاٹیہ: دیکھتا ہوں۔
(چلتا ہے اور درازہ کھول کر دوسرے کمرے میں جاتا ہے)
بھاٹیہ: چپلا ‘ یہ تم کیا کر رہی ہو۔۔۔ یہ اسباب وغیرہ تم نے کیوں باندھا ہے؟
چپلا: میں جارہی ہوں۔
بھاٹیہ: کہاں؟
چپلا: جہاں سے آئی تھی۔
بھاٹیہ: کوئٹے میں بھونچال کے بعد تمہارا کون باقی رہا ہے۔
چپلا: کہیں اور چلی جاؤں گی۔
بھاٹیہ: تم نے تو وعدہ کیا تھا کہ گوپال کو چھوڑ کر کبھی نہ جاؤں گی۔ جانتی ہو۔ وہ تمہیں کتنا چاہتا ہے۔۔۔
چپلا: یہ اس کی غلطی ہے۔ اس کو اپنی ماں سے محبت کرنی چاہیئے۔
بھاٹیہ: (تھوڑی دیر خاموش رہ کر) معلوم ہوتا ہے اس کی ماں سے تمہاری گفتگو ہوئی ہے لیکن اس سے تم نے یہ کہا ہوتا کہ ماں کو بھی اپنے بچے سے محبت کرنی چاہیئے۔۔۔۔ تم نے اس سے یہ پوچھا ہوتا کہ ماں بننے کا خیال اب ایکا ایکی اس کے دل میں کیوں پیدا ہو گیا ہے۔۔۔
چپلا: میں نوکر ہوں بھاٹیہ صاحب۔ ایسے گستاخانہ سوال میری زبان پر کبھی نہیں آسکتے۔
بھاٹیہ: لیکن وہ عورت۔۔۔ لیکن وہ عورت۔۔۔ آہ۔۔۔اس عورت نے مجھے کتنا تنگ کیا ہے۔ جب تم یہاں نہیں تھیں تو وہ سمجھتی تھی کہ میں نے باہر ہی باہر کئی عورتوں سے تعلقات قائم کررکھے ہیں۔ اب تم یہاں ہو تو۔۔۔ تو ۔۔۔اب میں تم سے کیا کہوں کہ وہ کیا سمجھتی ہے۔۔۔ میں بہت شرمندہ ہوں چپلا کہ میرے گھر میں تمہیں ایک بے وقوف عورت کے ہاتھوں دکھ پہنچا ہے۔
چپلا: انہیں شک ہے!
بھاٹیہ: ہر چیز کو شک کی نظروں سے دیکھ دیکھ کر اب وہ ناقابل برداشت حد تک شکی ہو گئی ہے۔۔۔ اس کی حالت قابل رحم ہے۔۔۔ وہ مریض ہے۔۔۔ وہم اس کو مرض بن کے چمٹ گیا ہے وہ لا علاج ہے۔۔۔ شادی کے بعد دوسرے ہی ہفتے اس نے مہندی لگے ہاتھوں سے میرا منہ نوچنا شروع کر دیا تھا۔ میں ایک مصروف آدمی ہوں سارا دن دفتر میں سر کھپاتا رہتا ہوں یقین مانو تمہارے یہاں آنے سے پہلے میں گھر آتے وقت ڈرتا تھا بہت خوف کھاتا تھا۔ اس کی دیوانگی کا اثر اگر صرف میری ذات ہی پر ختم ہو جاتا تو شاید میں برداشت کر لیتا مگر اس کی بے وقوفیوں نے میرے بچے کا بھی ستیاناس کر دیا۔ اس کی عادات خراب ہو گئیں۔۔۔ میں نے پرما تماکا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اس نے تم جیسی دیوی کو میرے گھر بھیج دیا۔ تمہارے آنے سے میری بہت سی پریشانیاں دور ہو گئیں بچے کو تم نے سنبھال لیا اس کو پیار محبت کی ضرورت تھی پرتم نے دنوں ہی میں اپنا گرویدہ بنا لیا۔ مگر اب تم جا رہی ہو۔۔۔
چپلا: جی ہاں۔ جارہی ہوں!
بھاٹیہ: ٹھیک ہے مگر میرے بچے کا کیا ہو گا۔ وہ عورت تو مجھے اور اسے دونوں کواپنی حماقتوں سے ہلاک کر دے گی(وقفہ) تم نہیں جاؤگی۔۔۔ تم یہیں رہوگی۔ آخر اس گھر پر میرا بھی تو کچھ حق ہے میرے منہ میں بھی تو زبان ہے اب تک میں نے اپنے اختیار سے کام نہیں لیا۔ لیکن اب مجھے لینا پڑے گا۔
چپلا : بھاٹیہ صاحب۔ آپ اس جھگڑے کو طول نہ دیجئے۔۔۔ میں نہیں چاہتی کہ آپ میں اور ان میں میری وجہ سے کشیدگی پیدا ہو۔
بھاٹیہ: یہ کشیدگی اب پیدا نہیں ہوئی تمہارے آنے سے پہلے ہی اس گھر میں موجود تھی۔۔۔ میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ ابھی کچھ دیر ٹھہر جاؤ گوپو اچھا ہو جائے تو کیا پتہ ہے کہ اس کی ماں بھی سمجھ جائے۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ اس کی باتوں سے تمہیں بہت دُکھ پہنچا ہو گا اور ۔۔۔ اور تم کو زبردستی یہاں ٹھہرانے کا مطلب یہ ہے کہ مزید توہین برداشت کرنے کے لیئے تمہیں مجبور کیا جائے۔ مگر۔۔۔مگر۔۔۔ نہیں چپلا۔ تم نہیں جاؤ گی۔ تمہارے انکار سے مجھے صدمہ ہوگا۔۔۔ کھول دو اپنا اسباب۔۔۔
(دروازہ کھول کر دوسرے کمرے میں چلا جاتا ہے)
بھاٹیہ: پاربتی تمہیں یہ سُن کر خوشی ہوگی کہ چپلا اب نہیں جائے گی۔ اس نے اپنا ارادہ ترک کر دیا ہے۔
مسز بھاٹیہ: (طنز بھرے لہجے میں) مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔
بھاٹیہ: اور دیکھو۔ اگر تم نے اس کی توہین کی یا اسے اپنی وہم پسند طبیعت کا نشانہ بنا نے۔۔۔
مسز بھاٹیہ: (تیزی سے) تو ۔۔۔ تو کیا ہوگا۔۔۔ تم مجھے دھمکاتے کیا ہو کیا کرو گے تم۔۔۔ مجھے دھکے ما رکر باہر نکال دو گے۔۔۔ مجھے مار ڈالو گے’ کیا کرو گے؟
بھاٹیہ: میں ایک بار پھر تمہارے لیئے دُعا کروں گا۔
مسز بھاٹیہ: مگر تم اس عورت کو نہیں چھوڑو گے اس کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھو گے۔ جو تمہارا دل نہ جانے کن اداؤں سے موہ چکی ہے جو کو ئٹے میں بھونچال لا کر اب اس گھر میں زلزلہ برپا کر رہی ہے۔ مگر یاد رکھو۔۔۔
بھاٹیہ: بلند آواز میں غصے کے ساتھ) پاربتی۔ اس لیئے۔۔۔ بیہودہ بکواس کو بند کرو میں ۔۔۔ میں۔۔۔ کچھ نہیں‘ پرماتما تمہاری حالت پر رحم کرئے۔
(فرش پر اضطراب کے ساتھ ٹہلنے کی آواز)
بھاٹیہ: اب خوش ہو گئیں۔ کلیجہ ٹھنڈا ہو گیا۔۔۔ وہ عورت جس نے تمہارے خیال کے مطابق نہ جانے کن اداؤں سے میرا دل موہ لیا ہے تمہارے بچے پر اپنی جان قریب قریب فنا کر چکی ہے۔ اس کی زندگی اور موت میں اتنا وقت بھی باقی نہیں کہ وہ تمہار ے ظلم وستم کے خلاف آواز بلند کرسکے۔ تمہیں کوئی بددُعا ہی دے سکے۔
مسز بھاٹیہ: میرا کیا قصور ہے؟
بھاٹیہ: تم نے ہر وقت ا س کی توہین کی۔ اس کی ہر نیکی‘ ہر اچھائی کو تم نے اپنی لعنتی نظروں سے دیکھا۔ اُف جب میں اس کا تصور کرتا ہوں کہ تم نے ایک پاک اور معصوم عورت پر کیچڑاچھالی ہے تو میری آتما کانپ کانپ اُٹھتی ہے۔ مگر تمہاری آتماکہاں ہے؟۔۔۔ تمہارا ضمیر کہا ں ہے۔۔۔ جاؤ جاؤ‘ میری آنکھوں سے دُور ہو جاؤ۔۔۔ تم قاتل ہو۔ تمہارے ہاتھ مجھے اس بے گناہ عورت کے خون میں آلودہ نظر آتے ہیں۔
مسز بھاٹیہ: کیا پتہ ہے‘ بچ جائے۔
بھاٹیہ: اب وہ کیا بچے گی۔۔۔ ڈاکٹر جواب دے چکا ہے۔ تمہارے بچے کو موت سے بچا کر وہ خود ا س کیمنہ میں چلی گئی ہے۔۔۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ کاش ! میں نے اسے اسی روز جانے دیا ہوتا۔ میرا اس پر کوئی زور تو تھا ہی نہیں مگر وہ میرے کہنے پر رضامند ہو گئی اس لیئے کہ گوپو سے اسے پیا رتھا۔ وہ پیار جو تمہارے میں ہونا تھا۔ اُسے آ گیا۔
گوپال: ( روتا ہوا آتا ہے) پتا جی ‘ پتا جی۔۔۔ استانی جی کہاں ہیں؟
بھاٹیہ: گوپال جاؤ۔ تم باہر کھیلو۔ تمہاری استانی بیمار ہے۔
گوپال: میں بیمار تھا تو میرے پاس بیٹھی رہتی تھیں۔ اب میں ان کے پاس بیٹھوں گا۔ پتا جی!
بھاٹیہ: ہاں ‘ ہاں۔۔۔ لیکن تم اب باہر جاؤ۔
(گوپال چلا جاتا ہے۔۔۔ کچھ وقفے کے بعد)
مسز بھاٹیہ: مجھے اجازت ہو تو میں چپلا کو دیکھنا چاہتی ہوں۔
بھاٹیہ: اس اجازت کو ضرورت تمہیں کیوں محسوس ہوئی۔۔۔ جاؤ۔۔۔ دیکھ آؤ
مگر تمہارے دیکھے سے کیا اس کا دل تمہاری طرف سے صاف ہو جائے گا۔۔۔ وہ خراشیں جو تم اس کے دل ودماغ پر پیدا کر چکی ہو۔ یوں ایک بار دیکھنے سے مٹ تو نہیں جائیں گی۔۔۔ جاؤ ممکن ہے وہ تمہیں معاف کر دے۔۔۔ تم نے اسے بہت دُکھ پہنچایا ہے میں تو خیر تمہاری حماقتوں کا عادی ہو چکا تھا۔ مگر ایک آفت رسیدہ عورت کے لیئے جو اچھے دن دیکھ چکی ہو تمہارے ہسٹیر یا کے دورے ناقابلِ برداشت تھے۔
(وقفے کے بعد دروازہ کھولنے کی آواز۔۔۔ مسز بھاٹیہ)
دوسرے کمرے میں جاتی ہے
مسز بھاٹیہ: چپلا۔۔۔چپلا۔۔۔ میں آئی ہوں۔
چپلا : ( مُردہ آوا زمیں) آئیے۔۔۔ آئیے۔۔۔ مگر یہاں آپ کس جگہ پر بیٹھیں گی۔
مسز بھاٹیہ: میں یہاں تمہاری چارپائی پر بیٹھ جاؤں گی۔۔۔ تم اُٹھنے کی کوشش نہ کرو۔۔۔ لیٹی رہو۔
چپلا: مگر۔۔۔ مگر۔۔۔نہیں۔۔۔نہیں‘ آپ کو میرے پاس نہیں بیٹھنا چاہیئے یہ بیماری بڑی چُھوت ہے۔۔۔ نہیں‘ نہیں‘ آپ دُور ہی کھڑی رہیں اور جلدی باہر چلی جائیں۔
مسز بھاٹیہ: مجھے کچھ نہیں ہو گا۔ اگر کچھ ہو بھی گیا تو مجھے افسوس نہ ہو گا۔ میں تم سے معافی مانگنے آئی ہوں۔
چپلا: معافی؟۔۔۔ کیسی معافی۔۔۔ آپ مجھے شرمند ہ کر رہی ہیں۔
مسز بھاٹیہ: میں نے غلط فہمی میں تم سے کئی بار ایسی باتیں کی ہیں جن سے یقیناًتمہیں بہت دُکھ پہنچا ہے۔ اب سوچتی ہوں اگر میں تمہاری جگہ پر ہوتی تو میرے دل کی کیا حالت ہوتی۔
چپلا: میری جگہ پر آپ ہوتیں تو۔۔۔ تو یہ حالات نہ ہوتے۔۔۔ لیکن آپ میری جگہ پر کیوں ہوتیں؟ ہر ایک آدمی کے لیئے ایک جگہ مقرر ہے۔ میرے لیئے یہی جگہ مقرر تھی جہاں آکر مجھے اپنی زندگی کے سب سے بڑ ے پاپ کا پر اسچت کرنا تھا۔۔۔
مسز بھاٹیہ: ۔ پاپ۔۔۔ پرا سچت!
چپلا: میں اب سوچتی ہوں اگر یہاں سے میں اس روز چلی جاتی تو میرے من کی من ہی میں رہ جاتی۔ کوئی زمانہ تھا کہ میں بھی آپ ہی کی طرح تھی۔ میر اپتی تھا جو آپ کے پتی ہی کی طرح بڑا شریف کاروباری آدمی تھا۔ مگر میری حاسد اور بات بات پر شک کرنے والی طبیعت کابُرا ہو کہ میں نے اس کو ہمیشہ پریشان رکھا۔ وہ جی ہی جی میں کُڑھتا تھا۔ میں ہر گھڑی اس کو جلی کٹی سُناتی رہتی مگر وہ چُپ رہتا۔ اس کو خاموش دیکھ کر میں سمجھتی۔ چونکہ یہ مُجرم ہے اس لیئے کوئی بات اس کی زبان پر نہیں آتی۔۔۔
مسز بھاٹیہ: یہ تو میری ہی کہانی ہے۔۔۔
چپلا: گوپال جیسا میرا بھی ایک بچہ تھا اور میری طرح اس کی بھی ایک استانی تھی جس پر میں شک کرتی تھی۔۔۔ کئی جھگڑے ہوئے میں نے اپنے پتی اور اُستانی دونوں کی زندگی کو نرک بنا دیا تھا۔۔۔ اور ۔۔۔ اور اس کا انجام یہ ہوا کہ اس معصوم عورت نے جو میرے بچے کو مجھ سے زیادہ عزیز سمجھتی تھی کچھ کھا لیا۔ اور مر گئی۔۔۔ اس کے بعد بھونچال آیا اور بچہ اور اس کا باپ دونوں ہمیشہ کے لیئیمجھ سے جدا ہو گئے۔۔۔ لیکن اب۔۔۔ اب میں بھی ان کے پاس جا رہی ہوں۔
مسز بھاٹیہ: (اشک آلود آوا زمیں) نہیں‘ نہیں‘ تم زندہ رہوگی۔۔۔ میں تمہیں اپنی بہن بناکے اپنے پاس رکھوں گی۔ میں اس وقت جب کہ میری آنکھیں کھلی ہیں تم ان سے اوجھل نہیں ہو سکتی ہو۔
چپلا: میں بہت خوش ہوں کہ اپنی آتما کا بوجھ ہلکا کرنے کے ساتھ میں نے ایک اچھا کام بھی کر دیا۔۔۔بھاٹیہ صاحب اور آپ دونوں خوش رہیں۔ آپ کی زندگی پر ماتما کرئے سورگ بن جائے۔۔۔ لیکن آپ جائیے۔۔۔ زیادہ دیر یہاں نہ ٹھہریئے۔۔۔ ایسا نہ ہو۔۔۔
(آواز ڈوب جاتی ہے)
مسز بھاٹیہ: چپلا۔۔۔چپلا۔۔۔
(دردناک سُروں میں سازبجتا ہے مسز
بھاٹیہ کے رونے کی آواز آتی ہے۔)
(فیڈ آؤٹ)
- کتاب : کروٹ
- اشاعت : 1946
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.