aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
جون ایلیا بائبل کے واقعات اور نبیوں کی آزمائشوں سے ہمیشہ متاثر رہے، جس کی وجہ سے انھوں نے اسرائیلت کی روایت و آہنگ کےحوالےسے کئی نظمیں لکھیں، ان نظموں میں سے یہ ایک عمدہ نظم ہے،جس کا اصل نام "نئی آگ کا عہد نامہ"تھا بعد میں خود جون نےاس نظم کو "راموز" کے نام سےیادکیاتھاچنانچہ اسی نام سےان کی یہ نظم منظر عام پر آئی، اس نظم کو جون نے کئی حصوں میں تقسیم کیا اور ہر حصے کے لئے "لوح"کی اصطلاح استعمال کی ہے ،مرتب نےاس کتاب میں اٹھارہ الواح کو پیش کیا ہے،چونکہ جون ہماے معاشرے میں موجود قدروں کے مخالف تھے اور ایک قسم کا باغیانہ موقف رکھتے تھے لہذا اس نظم میں تخیل اور لہجے کی ثقاہت کے ساتھ کہیں کہیں عفونت و ریاکاری اور منافقت پر طنز بھی کسا ہے ،در اصل یہ نظم غیر مکمل بتائی جاتی ہے اورکہا جاتا ہے کہ اگر جون اس نظم کو مکمل کر لیتے تو "راموز" کاشمار دنیا کی بڑی بڑی زبانوں کی سب سے اہم نظم میں ہوتا ،یہ کتاب جدید اردو شاعری میں انوکھا تجربہ ہے، یہ نظم جون کی تما م تر صلاحیتوں کا نمونہ ہے،اس نظم میں ان کی عربی، فارسی، عبرانی اوراردو کی لطاف کے ساتھ ساتھ عہد نامئہ عتیق کی پیغمبرانہ اور ڈرامائی خطابیہ طرز تکلم کے عناصر پائے جاتے ہیں، اس نظم میں جون الوہی لہجے میں انسانیت کو لتاڑتے نظر آتے ہیں،گویا کہ جون نے اپنے اضطراب وہیجان کی روح کو ان الواح میں پھونک دیا ہے۔
جون ایلیا اترپردیش کے شہر امروہہ کے ایک علمی گھرانے میں (1931) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید شفیق حسن ایلیا ایک تنگ دست شاعر اور عالم تھے۔ ان کے اور اپنے بارے میں جون ایلیا کا کہنا تھا "جس بیٹے کو اس کے انتہائی خیال پسند اور مثالیہ پرست باپ نے عملی زندگی گزارنے کا کوئی طریقہ نہ سکھایا ہو بلکہ یہ تلقین کی ہو کہ علم سب سے بڑی فضیلت ہے اور کتابیں سب سے بڑی دولت تو وہ رایگاں نہ جاتا تو کیا ہوتا۔" پاکستان کے نام ور صحافی، ماہر نفسیات رئیس امروہوی اور جنگ اخبار کے پہلے ایڈیٹر و فلسفی سید محمد تقی، جون ایلیا کے بھائی تھے، جب کہ مشھور خطاط و مصور صادقین، فلم ساز کمال امروہی ان کے چچا زاد بھائی تھے۔
جون ایلیا کے بچپن اور لڑک پن کے واقعات بہ زبان جون ایلیا ہیں مثلاً "اپنی ولادت کے تھوڑی دیر بعد چھت کو گھورتے ہوئے میں عجیب طرح ہنس پڑا جب میری خالاؤں نے یہ دیکھا تو ڈر کر کمرے سے باہر نکل گئیں۔ اس بے محل ہنسی کے بعد میں آج تک کھل کر نہیں ہنس سکا" یا "آٹھ برس کی عمر میں میں نے پہلا عشق کیا اور پہلا شعر کہا۔"
جون کی ابتدائی تعلیم امروہہ کے مدارس میں ہوئی جہاں انھوں نے اردو عربی اور فارسی سیکھی۔ درسی کتابوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور امتحان میں فیل بھی ہو جاتے تھے۔ بڑے ہونے کے بعد ان کو فلسفہ اور ہیئت سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ انھوں نے اردو، فارسی اور فلسفہ میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ وہ انگریزی، پہلوی و عبرانی، سنسکرت اور فرانسیسی زبانیں بھی جانتے تھے۔ نوجوانی میں وہ کمیونزم کی طرف راغب ہوئے۔ تقسیم کے بعد ان کے بڑے بھائی پاکستان چلے گئے تھے۔ والدہ اور والد کے انتقال کے بعد جون ایلیا کو بھی (1956) میں با دل ناخواستہ پاکستان جانا پڑا اور وہ تا زندگی امروہہ اور ہندوستان کو یاد کرتے رہے۔ ان کا کہنا تھا "پاکستان آ کر میں ہندوستانی ہو گیا۔" جون کو کام میں مشغول کر کے ان کو ہجرت کے کرب سے نکالنے کے لیے رئیس امروہوی نے اک علمی و ادبی رسالہ "انشا" جاری کیا، جس میں جون اداریے لکھتے تھے۔ بعد میں اس رسالہ کو "عالمی ڈائجسٹ" میں تبدیل کر دیا گیا۔ اسی زمانہ میں جون نے قبل از اسلام مشرق وسطی کی سیاسی تاریخ مرتب کی اور باطنی تحریک نیز فلسفے پر انگریزی، عربی اور فارسی کتابوں کے ترجمے کیے۔ انھوں نے مجموعی طور پر 35 کتابیں مرتب کیں۔ وہ اردو ترقی بورڈ (پاکستان) سے بھی وابستہ رہے، جہاں انھوں نے ایک عظیم اردو لغت کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔
جون ایلیا کا مزاج بچپن سے عاشقانہ تھا۔ وہ اکثر تصور میں اپنی محبوبہ سے باتیں کرتے رہتے تھے۔ بارہ برس کی عمر میں وہ ایک خیالی محبوبہ صوفیہ کو خطوط بھی لکھتے رہے۔ پھر نوجوانی میں ایک لڑکی فارہہ سے عشق کیا جسے وہ زندگی بھر یاد کرتے رہے، لیکن اس سے کبھی اظہار عشق نہیں کیا۔ ان کے عشق میں ایک عجیب انانیت تھی اور وہ اظہارِ عشق کو ایک ذلیل حرکت سمجھتے تھے۔ "حسن سے عرضِ شوق نہ کرنا حسن کو زک پہنچانا ہے / ہم نے عرضِ شوق نہ کر کے حسن کو زک پہنچائی ہے" اس طرح انھوں نے اپنے طور پر عشق کی تاریخ کی ان تمام حسیناؤں سے،ان کے عاشقوں کی طرف سے انتقام لیا جن کے دل ان حسیناؤں نے توڑے تھے۔ یہ اردو کی عشقیہ شاعری میں جون ایلیا کا پہلا کارنامہ ہے۔
جس زمانہ میں جون ایلیا "انشا" میں کام کر رہے تھے، ان کی ملاقات مشہور جرنلسٹ اور افسانہ نگار زاہدہ حنا سے ہوئی۔ (1970) میں دونوں نے شادی کر لی۔ زاہدہ حنا نے ان کی بہت اچھی طرح دیکھ بھال کی اور وہ ان کے ساتھ خوش بھی رہے لیکن دونوں کے مزاجوں کے فرق نے دھیرے دھیرے اپنا رنگ دکھایا۔ آخر تین بچوں کی پیدائش کے بعد دونوں کی طلاق ہو گئی۔
جون ایلیا کی شخصیت کا نقشہ ان کے دوست قمر رضی نے اس طرح پیش کیا ہے۔ ’’ایک زود رنج مگر بےحد مخلص دوست، ایک شفیق اور بے تکلف استاد، اپنے خیالات میں ڈوبا ہوا راہ گیر، ایک مرعوب کن شریکِ بحث، ایک مغرور فلسفی، ایک فوراً رو دینے والا غم گسار، ناروا حد تک خود دار اور سرکش عاشق، ہر وقت تمباکو نوشی میں مبتلا رہنے والا خلوت پسند، انجمن ساز، بہت ہی ناتواں مگر ساری دنیا سے بیک وقت جھگڑا مول لے لینے کا خوگر، سارے زمانے کو اپنا محرم بنا لینے والا نامحرم، حد درجہ غیر ذمہ دار، بیمار، ایک شدید الحس نادرہ کار شاعر، یہ ہے وہ فن کار جسے جون ایلیا کہتے ہیں۔‘‘
جون ایلیا نے پاکستان پہنچتے ہی اپنی شاعری کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ شاعری کے ساتھ ساتھ ان کے پڑھنے کے ڈرامائی انداز سے بھی سامعین محظوظ ہوتے تھے۔ ان کی شرکت مشاعروں کی کام یابی کی ضمانت تھی۔ نام ور شاعر ان مشاعروں میں، جن میں جون ایلیا بھی ہوں، شرکت سے گھبراتے تھے۔ جون کو عجوبہ بن کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا شوق تھا۔ گرمیوں میں کمبل اوڑھ کر نکلنا، رات کے وقت دھوپ کا چشمہ لگانا، کھڑاؤں پہن کر دُور دُور تک لوگوں سے ملنے چلے جانا، ان کے لیے عام بات تھی۔
زاہدہ حنا سے علیحدگی جون کے لیے بڑا صدمہ تھی۔ وہ نیم تاریک کمرے میں پہروں تنہا بیٹھے رہتے۔ سگرٹ اور مشروب نے بھی ان کی صحت متاثر کی۔ 8 نومبر (2002) کو ان کی وفات ہو گئی۔ اپنی زندگی کی طرح وہ اپنی شاعری کی اشاعت کی طرف سے بھی لاپروا تھے۔ (1990) میں تقریباً ساٹھ سال کی عمر میں لوگوں کے اصرار پر انھوں نے اپنا پہلا مجموعہ کلام ”شاید" شاٸع کیا۔ جون صاحب کا مرتب کردہ دوسرا مجموعہ ”یعنی“ بعد از مرگ (2003) میں منظرِ عام پر آیا۔ بعد میں جون ایلیا کے قریبی ساتھی خالد احمد انصاری نے ان کا بکھرا ہوا کلام اور تحریریں سمیٹنے اور ان کی تدوین کر کے چھپوانے کا کارنامہ سر انجام دیا۔ انھوں نے ’گمان‘ (2004) ’لیکن‘ (2006) ’گویا‘ (2008) جیسے خوب صورت شعری مجموعے قارئین کی نذر کیے۔ 2007 میں جون کے دوسرے شعری مجموعے ’یعنی‘ کو 80 اشعار کے اضافے کے ساتھ دوبارہ اور مختلف موضوعات پر انشائیوں کا مجموعہ، اردو نثری شاہکار ’فرنود‘ (2012) میں شاٸع کیا۔ (2016) میں جون ایلیا کی ایک طویل نظم ’راموز‘ کی مختلف اور منتخب الواح کے مجموعے کے بعد اب جون ایلیا پر لکھی گئی تحریروں اور ملاقاتوں پر مشتمل مجموعہ ’میں یا میں‘ (2020) بھی ان کی شبانہ روز کاوشوں کا حاصل ہے۔
ان کتابوں کے علاوہ جون ایلیا کا ایک اور شعری مجموعہ ’کیوں‘ بھی خالد انصاری مرتب کر رہے ہیں۔
جون بڑے شاعر ہیں تو اس لیے نہیں کہ ان کی شاعری ان تمام کسوٹیوں پر کھری اُترتی ہے جو صدیوں کی شعری روایت اور تنقیدی معیارات کے تحت قائم ہوئی ہے۔ وہ بڑے شاعر اس لیے ہیں کہ شاعری کے سب سے بڑے موضوع انسان کی جذباتی اور نفسیاتی کیفیات پر جیسے اشعار جون ایلیا نے کہے ہیں، اردو شاعری کی روایت میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ کیفیت کو احساس کی شدّت کے ساتھ قاری یا سامع تک منتقل کر نے کی جو صلاحیت جون کے یہاں ہے، اس کی مثال اردو شاعری میں صرف میر تقی میر کے یہاں ملتی ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets