aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو میں ترقی پسند تحریک بیسویں صدی کی تیسری دہائی سے شروع ہو جاتی ہے۔یہ تحریک باضابطہ اپنے مینی فیسٹو کے ساتھ سامنے آتی ہے جس میں ہر ایک کے لیے رہنمائی ہوتی ہے ۔ اس تحریک کے تحت اکثر قلمکاروں نے اپنی نگارشات تخلیق کر نا شروع کردیں ۔ اردو کے بڑے بڑے ادیب اس کے بینر تلے آگئے۔ کچھ نے خود کو اس تخریک کے لیے وقف بھی کر دیا اور کچھ منسلک رہ کر تخلیقات سامنے لاتے رہے ۔ علی سردار جعفری کاشمار ان ادیبوں میں سے ہوتا ہے جنہوں نے خود کو اسی تحریک کے لیے وقف کیا ، تخلیق بھی کی اور تنقید کی یہ لازوال کتاب بھی سامنے لائے۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ 1951میں پھر 1957 میں شائع ہوئی ۔ یہ کتاب جس زمانہ میں شائع ہوتی ہے وہ ترقی پسندی کے عروج کا دور ہے اس وقت تک اس تحریک کے لیے باضابطہ کوئی تنقید ی کتاب سامنے نہیں آئی تھی اس لیے اس کتاب کو تعارفی کتاب بھی کہا جاتا ہے جس میں تحریک کا جواز بھی پیش ہوتا ہے۔ یہ تحریک جس طر ح سے سرحدوں کو توڑ کر عالمی ہوئی اور عالمی ادب میں اپنی شناخت بنائی اس سے کوئی منکر نہیں۔ اس کتاب کے بعد خلیل اعظمی کی کتاب آئی جس میں معروضی مطالعہ ہے، پھر بے شمار کتابیں آئیں لیکن اولیت اسی کو حاصل رہی۔ سردار جعفری نے چھ باب میں اپنی بات مکمل کی ہے جس میں نقطہ نگاہ، بنیادی مسائل ، تاریخی پس منظر ، حقیقت نگاری رومانیت ، ترقی پسند مصنفین کی تحریکیں اورتخلیقی رجحانا ت پر گفتگو کی گئی ہے۔
ترقی پسند شاعری کی نمائندہ آواز
’’ہمیں آج بھی کبیر کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اس روشنی کی ضرورت ہے جو اس سنت کے دل میں پیدا ہوئی تھی۔ آج سائنس کی بے پناہ ترقی نے انسان کا اقتدار بڑھا دیا ہے۔ انسان ستاروں پر کمند پھینک رہا ہے پھر بھی حقیر ہے۔ وہ رنگوں میں بٹا ہوا ہے، قوموں میں تقسیم ہے۔ اس کے درمیان مذہب کی دیوار کھڑی ہے۔ اس کے لئے اک نئے یقین، نئے ایمان اوراک نئی محبت کی ضرورت ہے۔‘‘ (سردار جعفری)
اردو کے لئے سردار جعفری کی مجموعی خدمات کو دیکھتے ہوئے انھیں محض اک معتبر ترقی پسند شاعر کے زمرہ میں ڈال دینا ان کے ساتھ نا انصافی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اشتراکی نظریہ ان کی رگ و پے میں سرایت کر گیا تھا لیکن ایک سیاسی کارکن، شاعر، نقّاد اور نثر نگار کے ساتھ ساتھ ان کے اندر ایک مفکر، دانشور اور سب سے بڑھ کر ایک انسان دوست ہمیشہ سانسیں لیتا رہا۔ کمیونزم سے ان کی وابستگی سوویت یونین کے زوال کے کے بعد بھی "وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے" کا عملی ثبوت دینا، ان کی دیانت داری، انسان دوستی اور ہر قسم کے معاشرتی و اقتصادی جبر کے خلاف ان کے غیر متزلزل کمٹمنٹ کا بیّن ثبوت ہے۔
سردار جعفری نے حالات حاضرہ اور زندگی میں روزمرّہ پیش آنے والے نت نئے مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور اپنے عہد کے نبّاض کی حیثیت سے انھوں نے جو دیکھا اسے اپنی شاعری میں پیش کر دیا۔ سردار جعفری کی شخصیت پہلو دار تھی۔ انھوں نے شاعری کے علاوہ تخلیقی نثر کے عمدہ نمونے اردو کو دئے۔ علمی نثر میں ان کی کتاب "ترقی پسند ادب" ان کی ناقدانہ بصیرت کی نشاندہی کرتی ہے۔ وہ افسانہ نگار اور ڈراما نویس بھی تھے۔ ان کو اردو میں دانشوری کی بہترین مثال کہا جا سکتا ہے۔ وہ علمی، ادبی، فلسفیانہ، سیاسی اور سماجی موضوعات پر ماہرانہ گفتگو کرتے تھے۔ اپنی 86 سالہ زندگی میں انھوں نے بےشمار لیکچر دئے۔ انھوں نے بطور ادیب مختلف ممالک کے دورے کئےاور اس طرح اردو کی بین الاقوامی سفارت کاری کا فریضہ بخوبی انجام دیا۔ اگر ہم شاعری میں ان کا موازنہ ترقی پسند تحریک کے سب سے بڑے شاعر فیض احمد فیض سے کریں تو پتہ چلتا ہے کہ فیض کی شاعری میں اشتراکیت کو تلاش کرنا پڑتا ہے جبکہ سردار کی اشتراکیت میں ان کی شاعری ڈھونڈنی پڑتی ہے۔
سردار جعفری کا شعری لب و لہجہ اقبال اور جوش ملیح آبادی کی طرح بلند آہنگ اور خطیبانہ ہے۔ لیکن انھوں نے اپنی شعرگوئی کے طویل سفر میں کئی طرح کی اختراعات کیں اور جدّت کا ثبوت دیا۔ انھوں نے اپنے اشعار میں عوامی محاورے استعمال کئے، نظم کی بحور میں تبدیلی کی اور شعری لفظیات میں تصرف کیا۔ انھوں نے اردو فارسی کی کلاسیکی شاعری کا گہرا مطالعہ کیا تھا اسی لئے جب نہرو فیلوشپ کے تحت ان کو اردو شاعری میں امیجری کی ایک فرہنگ مرتب کرنے کا کام سونپا گیا تو انھوں نے صرف حرف الف کے ذیل میں 20ہزار سے زائد الفاظ اور تراکیب محض چند شعرا کے منتخب اشعار سے جمع کر دیں۔ بدقسمتی سے یہ کام مکمل نہیں ہو سکا۔
علی سردار جعفری 29 نومبر 1913 کو اتر پردیش میں ضلع گونڈہ کے شہر بلرام پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے جدّ اعلیٰ شیراز سے ہجرت کر کے یہاں آ بسے تھے۔ ان کے والد کا نام سید جعفر طیار تھا۔ اس وجہ سے شیعہ گھرانوں کی طرح ان کے یہاں بھی محرم جوش و عقیدت سے منایا جاتا تھا۔ جعفری کا کہنا ہے کہ کلمہ و تکبیر کے بعد جو پہلی آواز ان کے کانوں نے سنی وہ میر انیس کے مرثیے تھے۔ پندرہ سولہ سال کی عمر میں انھوں نے خود مرثیے لکھنے شروع کر دئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم پہلے گھر پر پھر بلرام پور کے انگریزی اسکول میں ہوئی۔ لیکن انھیں پڑھائی سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی اور کئی سال ضائع کرنے کے بعد انھوں نے 1933 میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد ان کو اعلیٰ تعلیم کے لئے علی گڑھ بھی لےجایا گیا۔ لیکن 1936 میں انھیں طلبا کے ایجی ٹیشن میں حصہ لینے کی وجہ سے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا(برسوں بعد اسی یونیورسٹی نے ان کو ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری دی)۔ مجبوراً انھوں نے دہلی جاکر اینگلو عربک کالج سے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے لکھنؤ یونیورسٹی میں پہلے ایل ایل بی میں اور پھر ایم۔ اے انگلش میں داخلہ لیا۔ اس وقت لکھنؤ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ سجاد ظہیر، ڈاکٹر عبد العلیم، سبط حسن، اور اسرار الحق مجاز یہیں تھے۔ سردار جعفری بھی ان کے شانہ بہ شانہ سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہو گئے، نتیجہ یہ تھا کہ 1940 میں ان کو گرفتار کر لیا گیا اور وہ 8 ماہ جیل میں رہے۔ اسی زمانہ میں سردار جعفری، مجاز اور سبط حسن نے مل کر ادبی رسالہ "نیا ادب" اور ایک ہفت روزہ اخبار پرچم نکالا۔ اس کا پہلا شمارہ 1939 میں شائع ہوا تھا۔ 1942 میں جب کمیونسٹ پارٹی سے پابندی ہٹی اور اس کا مرکز بمبئی میں قائم ہوا تو جعفری بمبئی چلے گئے اور پارٹی کے ترجمان "قومی جنگ" کے ادارتی عملہ میں شامل ہو گئے۔
سردار جعفری نے پارٹی کی سرگرم کارکن سلطانہ منہاج سے 1948میں شادی کرلی۔ بمبئی میں قیام کے دوران وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کے سبب دوبار گرفتار کئے گئے۔ انھوں نے کبھی کوئی مستقل ملازمت نہیں کی۔ بیوی سوویت ہاؤس آف کلچر میں ملازم تھیں۔ سردار جعفری نے شروع میں ساحر اور مجروح اور اخترالایمان کی طرح فلموں کے لئے گیت اور منظر نامے لکھنے کی کوشش کی لیکن وہ اسے ذریعہ معاش نہیں بنا سکے۔ 1960 کے عشرہ میں انھوں نے پارٹی کی عملی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور صحافتی و ادبی سرگرمیوں میں ان کی دلچسپی بڑھ گئی۔ انھوں نے ترقی پسند ادب کا ترجمان سہ ماہی رسالہ" گفتگو" نکالا جو 1965 تک شائع ہوتا رہا۔ وہ عملی طور پر بےحد متحرک اور فعّال انسان تھے۔ وہ مہاراشٹر اردو اکیڈمی کے ڈائریکٹر، انجمن ترقی پسند مصنفین کے صدر اورنیشنل بک ٹرسٹ و دیگر اداروں کے اعزازی رکن تھے۔
انھوں نے محمد اقبال، سنت کبیر، جنگ آزادی کے سو سال اور اردو کے ممتاز شعرا کے بارے میں دستاویزی فلمیں بنائیں۔ انھوں نے دیوان غالب اورمیر کی غزلوں کا انتخاب صحت اور سلیقہ کے ساتھ اردو اور دیو ناگری میں شائع کیا۔ ان کے کلام کے مجموعے پرواز 1944، نئی دنیا کوسلام 1946، خون کی لکیر 1949، امن کا ستارہ 1950، ایشیا جاگ اٹھا 1964 ایک خواب اور 1965 اور لہو پکارتا ہے 1978 میں شائع ہوئے۔ ان کی شعری تخلیقات کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں کئے گئے۔ اور اسکالرز نے ان کی شاعری پر تحقیقی کام کیا۔ سردار جعفری کو ان کی ادبی خدمات کے لئے جو پذیرائی ملی وہ بہت کم ادیبوں کے حصہ میں آتی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ گیان پیٹھ کے علاوہ ان کو ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ اور سوویت لینڈ نہرو انعام سے نوازا گیا۔ ملک کی مختلف ریاستی اردو اکیڈمیوں نےانھیں انعامات اور اعزازات دئے۔ حکومت نےبھی ان کو پدم شری کے خطاب سےنوازا۔
آخری عمر میں دل کے عارضہ کے ساتھ ساتھ ان کے دوسرے اعضائے رئیسہ بھی جواب دے گئےتھے۔ یکم اگست 2000 کو دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہو گیا اور جوہو کے سنی قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی۔
سردار جعففری کی شخصیت اور شاعری کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر وحید اختر نے کہا ہے، "جعفری کے ذہن کی تشکیل میں شیعیت، مارکسزم، انقلابی رومانیت اور عصریت کے ساتھ اور بھی عوامل کارفرما رہے ہیں۔ وہ ان شعرا میں ہیں جنھوں نے شاعر کو نقاد کا منصب بھی دیا۔ اور اسے علمی حلقوں میں معتبر بنایا۔ جعفری نے ہر دور کے مسائل کو، اپنی راسخ العقیدہ ترقی پسندی کے باوجود، تخلیقی تجربے اور اس کے اظہار سے محروم نہیں رکھا۔ یہی ان کی بڑائی ہے اور اسی میں ان کی عصری معنویت کا راز مضمر ہے۔"
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets