آخری دن سے پہلے
پیش لفظ
تری دنیا کے نقشے میں
مٹی تھی کس جگہ کی
تم جو آتے ہو
اخری دن سے پہلے
بارش
ہوا ہر اک سمت بہہ رہی ہے
دیر لگادی تم نے
ہم کہ اک بھیس لیے پھرتے ہیں
موت دل سے لپٹ گئی اس شب
لوری سنا
پس منظر کی آواز
سرپھری ہوا
میں رستے کو دیکھ رہا ہوں
دوام وصل کا خواب
مجید امجد کے لئے
تم کہاں تک گئے
مٹی سے ایک مکالمہ
جو بھی لمس ہے
خواب شبیہیں دن
موجود سے پرے
برسوں بعد
زندہ آدمی سے کلام
کتنے بیکار ہیں دن
اکتائے ہوئے دوست سے
سمندر سے مالمہ
کیسے اتروں پار
پچھلے پہر کی دستک
اجنبی کون ہو
ہوا جب تیز چلتی ہے
اور بارش ہے
تمناک صداؤں میں رہنے والی
دن گزرتے رہے
میں نے اس کو دیکھا تھا
بات کیا تجھ سے کروں
ہر سال کی آخری نظم
عرصۂ خواب میں
لوری
غیر آبادیوں میں ایک نظم
راتوں میں
نہ جانے ہم کس طرح ملے تھے
مجھے ڈر لگتا ہے
دائرے ختم کہاں ہوتے ہیں
تھکن زدہ امانت کی واپسی
مجھے اچھے لگتے ہیں
روئی ہوئی آنکھ سے
تم نہیں دیکھتے
یادوں اور بادلوں میں
قصباتی لڑکوں کا گیت
ہمارے دکھوں کا علاج کہاں ہے
وہ میری راہ دیکھتی ہے
ہر روز
میں گزرتا ہوں
ہنوز نیند میں ہیں
کچھ پتا نہیں چلتا
نظم
موت مجھے بلاتی ہے
اگر مجھے
تم ہنستے ہو
نظم
نیندوں کے ملبے پر
خود کلامی
داستان
صحرا پیاسے نہیں
خود کلامی
وچ مرزا یار پھرے
ہم بے وطن ہیں
ہر رات سے گزرنے کے لیے
لمحے کا منظر نامہ
پیش لفظ
آخری دن سے پہلے
پیش لفظ
تری دنیا کے نقشے میں
مٹی تھی کس جگہ کی
تم جو آتے ہو
اخری دن سے پہلے
بارش
ہوا ہر اک سمت بہہ رہی ہے
دیر لگادی تم نے
ہم کہ اک بھیس لیے پھرتے ہیں
موت دل سے لپٹ گئی اس شب
لوری سنا
پس منظر کی آواز
سرپھری ہوا
میں رستے کو دیکھ رہا ہوں
دوام وصل کا خواب
مجید امجد کے لئے
تم کہاں تک گئے
مٹی سے ایک مکالمہ
جو بھی لمس ہے
خواب شبیہیں دن
موجود سے پرے
برسوں بعد
زندہ آدمی سے کلام
کتنے بیکار ہیں دن
اکتائے ہوئے دوست سے
سمندر سے مالمہ
کیسے اتروں پار
پچھلے پہر کی دستک
اجنبی کون ہو
ہوا جب تیز چلتی ہے
اور بارش ہے
تمناک صداؤں میں رہنے والی
دن گزرتے رہے
میں نے اس کو دیکھا تھا
بات کیا تجھ سے کروں
ہر سال کی آخری نظم
عرصۂ خواب میں
لوری
غیر آبادیوں میں ایک نظم
راتوں میں
نہ جانے ہم کس طرح ملے تھے
مجھے ڈر لگتا ہے
دائرے ختم کہاں ہوتے ہیں
تھکن زدہ امانت کی واپسی
مجھے اچھے لگتے ہیں
روئی ہوئی آنکھ سے
تم نہیں دیکھتے
یادوں اور بادلوں میں
قصباتی لڑکوں کا گیت
ہمارے دکھوں کا علاج کہاں ہے
وہ میری راہ دیکھتی ہے
ہر روز
میں گزرتا ہوں
ہنوز نیند میں ہیں
کچھ پتا نہیں چلتا
نظم
موت مجھے بلاتی ہے
اگر مجھے
تم ہنستے ہو
نظم
نیندوں کے ملبے پر
خود کلامی
داستان
صحرا پیاسے نہیں
خود کلامی
وچ مرزا یار پھرے
ہم بے وطن ہیں
ہر رات سے گزرنے کے لیے
لمحے کا منظر نامہ
پیش لفظ
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔